Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

متروکہ سندھ کیا ہے؟

***خلیل احمد نینی تال والا***
گزشتہ ہفتے راقم نے کالم’’ کراچی کے حقوق لوٹا دو‘‘ کے عنوان سے یہ ثابت کیا تھا کہ پوری دنیا میں عوام کی بھلائی کیلئے صوبے بنائے جاتے ہیں ۔جس طرح آبادی بڑھتی ہے پہلے انتظامی یونین کونسلیں پھر ڈسٹرکٹس اور جب آبادی اور بڑھ جاتی ہے تو نئے نئے صوبے بنائے جاتے ہیں ۔اس کے ردعمل میں اُردو بولنے والے خصوصاً مہاجر جو ہند سے 1947ء میں پاکستا ن آئے تھے وہ پاک، ہند معاہدے کے تحت اپنی جائیدادیں ،گھر بار ،زمینیں ،دکانیں ،جاگیریں ،نقدی وغیرہ چھوڑ آئے تھے ۔اُس کے عوض اُن کو پاکستان سے ہند جانے والے ہندو ،سکھوں کی زمینیں ،جاگیریں ،دکانیں ،مکانات جو متروکہ ہو ں گی ملیں گی یعنی مسلمانوں کی متروکہ املاک ہندوستانی ہندوئوں اور سکھ مہاجرین کو اور پاکستانی ہندو سکھوں کی متروکہ املاک مسلمان مہاجرین کو ملیں گی۔ یعنی ایک طرح سے آپس کا تبادلہ یعنی Exchange ہوجائے گا ۔سندھ کی آبادی کا بھی تجزیہ پیش کیا تھا کراچی کا بھی دارالخلافہ کے ساتھ ساتھ الگ انتظامی یونٹس کا حوالہ دیا تھا اور 70سال میں مہاجرین پر گزرنے والی تکالیف کے بھی دلائل کے ساتھ حوالے دیئے تھے ۔
ہمارے سندھی بھائیوں نے اُس کو ماضی کی طرح جذباتی انداز میں سندھ کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دیا ۔ حقیقت اور دلائل کے بجائے ردعمل پر ناراضگی اور دھمکی سے بھی کام لیا ۔مہاجر اکابرین کا کہنا تھا کہ جنوبی سندھ جو متروکہ علاقہ تھا اور ہندو اکثریتی شہروں پر مشتمل تھا اُس کو اُسی مناسبت سے مہاجرین کو واپس ملنا چاہئے تھا ۔وہاں پر مہاجرین  نے مشترکہ جنوبی سندھ صوبے کا مطالبہ کیا۔ُس میں کونسا ایسا نیا مطالبہ تھا ۔70سال میں ایک ایک کرکے مہاجرین سے حقوق چھیننے کی وارداتیں ہوتی رہیں۔اب جبکہ سندھ کی اصل آبادی میں غیر سندھی بولنے والے مہاجرین ،پنجابی ،بلوچی ،پشتون کی تعداد برابر بڑھ چکی ہے مگر مردم شماری میں گھپلا کرکے کراچی کی آبادی ایک کروڑ 40لاکھ دکھاکر اُن کی سیٹیں کم رکھی گئی ۔ نادرا کا ریکارڈ 95لاکھ افراد کو بالغ بتا تا ہے ،یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ سندھی عوام خود پی پی پی کی حکومت میں ابھی تک پسماندہ ہیں ،کھربوں روپے کا بجٹ خود سندھ کی حالت زار کا منہ بولتاثبوت ہے ۔بڑے بڑے شہر  لاڑکانہ ،سکھر ،شکار پور ،حیدر آباد،دادو،بدین میں پینے کا پانی بھی نہیں ملتا ۔
سندھی قوم اور قومیت کے نام پر حاصل کرنے والی زمینوں پر خود قابض ہیں اور عوام آج تک ہاری ،کسان اور تعلیم سے دُور رکھ کر ان کو دراصل غلام بناکر رکھا ہوا ہے ۔گویا ان کو کھوکھلے نعروں پر زندہ رکھا ہوا ہے ۔ پورا سندھ اندرونی طور پر موہنجودڑو کے کھنڈرات سے کم نہیں۔ اب جب پھر الیکشن کا دور شروع ہونے جارہا ہے پھر وہی وعدے وعید کرکے عوام کو دھوکہ دینے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں ۔دراصل نہ تو مہاجروں کو کچھ ملا اور نہ ہی سندھی عوام کی تقدیریں بدلیں ۔سب کچھ یہ موروثی سیاست دانوں ،جاگیرداروں اور بیوروکریٹس حضرات نے مل ملاکر ہضم کرلیں ۔اب جب نیب ،ایف آئی اے ،عدلیہ ،اسٹیبلشمنٹ ایک ایک کرکے ان پر ہاتھ ڈال رہی ہیں تو نئی صوبے کی آڑ میں سندھی اور مہاجرین کو دوبارہ لڑانے کی سازش کرکے سابق چیف منسٹر مراد علی شاہ لعنت کا نعرہ لگاکر جذبات سے کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں ۔وہ اپنے لٹیرے ساتھیوں کو آگے بڑھا کر تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔اب جب کئیر ٹیکر حکومتیں آنیوالی ہیں تو میری افواج پاکستان کی سربراہ سے درخواست ہے کہ ہزاروں کرپشن کے کیس آچکے ہیں ۔الیکشن سے پہلے ان کیسوں کا فیصلہ کرکے ایک مرتبہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہونا چاہیے ۔
صرف 2ہفتے پہلے ملائیشیا میں الیکشن کا نتیجہ آیا ۔ڈاکٹر مہاتیر محمد نے آتے ہی سابق وزیراعظم، اُس کے وزراء ،اُس کے بیوروکریٹس ،عدلیہ کے ججوں سے 400ارب ڈالر برآمد کرلئے ہیں اور سرحدیں بند کردیں تاکہ سمندری راستوں سے کوئی کرپٹ فرار نہ ہوسکے۔ کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے ؟ہمارے پاس تو کئی سالوں سے انکوائریاں چل رہی تھیں ۔قانونی مو شگافیوں سے سب کے سب بچ گئے ۔قوم مقروض کی مقروض رہی، عدلیہ کی سبکی ہورہی ہے اور اب تو کھل کر اسٹبلشمنٹ پر بھی وار ہورہے ہیں۔
اگر الیکشن ہوگئے تو وہی بددیانت سیاست دان ایک بار پھر نئی چھتریوں کے سائے میں چھپ کر دوبارہ دھل دھلاکر آجائیں گے ۔ فوجی دور کا ڈالر 10سال میں یعنی 2 جمہوری دو ر سے گزر کر 60سے 119تک پہنچ چکا ہے ۔نہ بجلی قوم کو وعدوں کے باوجود ملی نہ پینے کا صاف پانی دستیاب ہوا ۔ان کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے مل کر کھربوں ڈالر ہضم کرلئے ہیں۔ ایسے میں نئے الیکشن کا کیا فائدہ ۔قوم ان مضبوط ترین کرپٹ ٹولوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکی ۔یہ مضبوط کڑیاں ہیںجو ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔
چین کے قائدمائوزے تنگ سے کسی نے پوچھاکہ آپ نے کیسے ترقی کی تو انہوں نے کہا کہ ہم نے تمہاری آسمانی کتاب سے سبق سیکھا۔ ہم نے ووٹ کا حق صرف پڑھے لکھے عوام کو دیا ،تو انہوں نے صحیح فیصلے کئے اور بدقسمتی تو دیکھئے ہم اہل کتاب خو د نہیں سمجھناچاہتے اور پاکستان کے دو تہائی باشندوں کو بنیادی تعلیم سے تمام صوبوں والوں نے دور کررکھاہے ۔صرف کراچی واحد شہر ہے جس میں اکثریت پڑھی لکھی ہے۔ پورے ملک کی معیشت چلارہی ہیں۔صوبائی اور مرکزی دونوں حکومتیں مل کر  اسے حقوق دینے کیلئے تیا رنہیں تو پھر کہاں تک یہ تماشہ چلے گا۔
جنوبی پنجاب کا صوبہ تو منظور ہے ۔پسماندہ گلگت کو فاٹا سے نکال کر صوبے میں شامل تو کیاجاسکتا ہے اور فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیا جاسکتا ہے ۔جنوبی متروکہ سندھ کے صوبے پر لعنت بھیجنے کا نعرہ لگایا جاتا ہے ۔الیکشن سے پہلے اس پر بھی ریفرنڈم ہونا چاہئے تاکہ حقیقی آباد ی کا تناسب سامنے آجائے اور کسی کا حق بھی نہ مارا جائے ۔
 

شیئر: