Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لیلۃ القدر، امت محمدیہ کا خاصہ

 اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت ہے کہ یہ امت عمر کے اعتبار سے چھوٹی ہے مگر اجر کے اعتبار سے پہلی امتوں سے بڑی ہے
 
* * * ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ* * *
ماہ رمضان المبارک رحمن کی رحمت کی موسلا دھار بارشوں کا موسم ہے، خالق نے اس ماہ مبارک کو3 دہائیوں میں یوں تقسیم فرمادیا کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے، دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے اور تیسرا عشرہ جہنم سے چھٹکارے کا۔ یوں رحمان ورحیم رب اپنے فضل وکرم اور خصوصی عنایات سے روزہ دار اہل ایمان کی تربیت فرماتے ہیں اور انہیں روحانی ارتقائی منازل طے کرواتے ہیں۔ اہل ایمان رمضان کے اس نورانی ماحول سے گزرتے ہوئے مسلسل ایک ماہ قول، فعل اور عمل، تینوں کا روزہ رکھتے ہیں، پھر جب روزہ دار رحمت ومغفرت دونوں عشروں سے نکل کر جہنم سے چھٹکارے کے تیسرے عشرے میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں خصوصی طور پر حکم دیا جاتا ہے کہ اب تم اس تیسرے عشرے میں ایک ایسی رات کی تلاش کرو جس کا نام لیلۃ القدر ہے اور وہ کیا ہے، آپ کو کیا معلوم وہ کیا ہے؟ اس لیلۃ القدر کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ فرماکر کہ ’’خیرٌ من الف شہر‘‘ یہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس امر کا شعور دیا کہ تم اولا تو اجرو ثواب کو کئی گنا بڑھاکرسننے اور لینے کے عادی تھے مگر اس اجرو ثواب کا اب کوئی حد وحساب نہیںرہا، یہ ہے اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت کہ نبی کریم  نے فرمایا: لیلۃ القدر یہ میرا خاصہ ہے، اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر کو میری خصوصیت بنایا ہے، گویا یہ اللہ تعالیٰ کا انمول تحفہ اور اسکی نعمت عظمیٰ، خیر الامم کا حصہ ہے اور اسمیں بندے کا معاملہ شمار اور حساب سے مافوق ہوگیا۔
    تیسرے عشرے میں لیلۃ القدر کی تلاش میں رغبت اور حکم امت مسلمہ کو جو دیا گیا، اس کا بیان حدیث مبارکہ میں اس طرح ہوا کہ تم لیلۃ القدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ یہ تو اس کے موقع کی بات رہی، اس کے شرف کی بات تو قرآن کہتا ہے: ’’ہم نے قرآن کریم کو بابرکت رات میں اتارا‘‘ ایک دوسری جگہ فرمایا: یقینا ہم نے اس کو قدر والی رات میں اتارا، آپ کو کیا معلوم قدر والی رات کیا ہے؟قرآن کریم کا یہ اسلوب بیان کہ وہ یوں کہے کہ آپ کو کیا معلوم یہ چیز کیا ہے ،یہ کسی عظیم امر کی عظمت دلانے کے لئے ہوتا ہے جیسے کہ ہے، الحاقہ مالحاقہ، یا القارعہ مالقارعہ، جس چیز کو اللہ جل شانہ یوں بیان کریں اس کی انتہائی عظمت کا بیان ہے، یہ بڑھائی شدت و ہولناکی میں ہو یا اجرو ثواب کی کثرت میں، لیلۃ القدر کے بارے میں یہی اسلوب اختیار فرمایا گیا ہے،ارشاد ربانی ہے: آپ کو کیا معلوم لیلۃ القدر کیا ہے؟، قدر معنی اندازہ ہے پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس کی عظمت وشان کو بیان فرمایا تو ارشاد ربانی یوں ہوا: لیلۃ القدر خیر من الف شہر، یہ قدر والی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یہ تعبیر بھی قابل تدبر ہے۔
     اللہ تعالیٰ لیل کے مقابلہ میں لیل کو نہیں لائے بلکہ شہر کولائے ہیں یعنی رات کے مقابلہ میں مہینہ لایا گیا، پھر یہ نہیں فرمایا یہ ایک رات ہزار مہینوں کے برابر ہے بلکہ یہ فرمایا ’’لیلۃ القدر خیرٌ‘‘ یہ رات ان مذکورہ مہینوں سے افضل ہے، اللہ تعالیٰ کا حکم ’’صیام‘‘ روزہ رکھنا تو یہ حکم عام ہے کہ روزہ پہلی امتو ں پر بھی فرض ہوا جیسا کہ قرآن نے بتایا ہے کہ ایے ایمان والو تم پر روزہ فرض کیا گیا جیسے کہ تم سے پہلی امتوں پر تاکہ تم پرہیز گار ہوجاؤ مگر یہ لیلۃ القدر والی خصوصیت کہ ماہ رمضان میں ایک ایسی رات آئے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہو یہ صرف امت محمدیہ کی ہی خصوصیت ہے۔ منعم حقیقی نے خصوصی طور پر یہ رات خیر الامم کو عطا کی ہے لہٰذا ہر فرد امت کو یہ استحضار بھی رہنا چاہئے کہ اللہ نے ہمیں جو خیر امت بنایا ہے تو اس منعم فیاض نے ہمیں ہزار مہینوں سے بہتر رات بھی عطا فرمائی ہے، قرآن کریم کا یہ اسلوب بیان کئی امور پر مشتمل ہے۔
     رحمن کی عمومی بندوں پر رحمت عامہ ہے تو خیر امت کے ساتھ بلا حد وحساب یہ عنایت مہربانی ہے کہ اس نے انہیں عمریں تو کم دیں مگر ان کی حسنات کی قیمت کو بڑھانے کیلئے ایسے انتظامات فرمائے کہ ان کے لئے یاتو زمانے کو قیمتی بنا دیا جس سے ان کے عمل کی قیمت بڑھ جائے یا انہیں عمل کے لئے مبارک جگہیں عطا کر دیں کہ ان کے اعمال کے اجور وثواب کمیت میں بھی اور کیفیت میں بھی بڑھتے رہیں۔  جیسے ایک عمل آپ گھر میں کرتے ہیں اور ایک عمل مسجد میں کرتے ہیں، مسجد میں پڑھی گئی نماز کی قیمت25کنا بڑھ کر ہے، پھر ایک آدمی کا عمل دنیا کے کسی کونے میں ہے اور وہی عمل حرم محترم میں کرتا ہے تو اس کی ایک لاکھ گنا قیمت بڑھ جاتی ہے، مسجد نبوی میں ایک نماز کی قیمت ایک ہزار کے برابر ہو جاتی ہے اور مسجد اقصی میں ایک نماز 5 سو نماز کے برابر ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت اس امت کے ساتھ یہ ہے کہ وہ اس کے عمل کی جگہ میں اسکے مقام ومکان میں برکت دے دے یا اس کے زمان اور وقت میں برکت دے دے اور حکمت یہ ہے کہ یہ امت عمر کے اعتبار سے چھوٹی ہے مگر اجر کے اعتبار سے پہلی امتوں سے بڑی ہے ۔ سابقہ امم جن کی عمریں زیادہ رہیں مگر اس امت کے عمل میں اللہ جل شانہ نے برکت دے دی۔ یہ امت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام ہے۔ اسی طرح انہیں اللہ تعالیٰ نے ایام معدودات، گنتی کے چند دن عطا کئے جو ایک مہینہ ہے جس میں رحمت، مغفرت اور جہنم سے چھٹکارے کے عشرے ہیں، یہ اللہ کے بے حد عنایت ہے ، مگر سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام جو امت محمدیہ پر ہوا وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آخری عشرے میں لیلۃ القدر اسے عطا فرمائی، پھر اللہ تعالیٰ لیلۃ القدر کی فضیلت کے لئے انتہائی فصاحت وبلاغت کے انداز بیان کو اختیار فرماتے ہیں: وما ادراک مالیلۃ القدر یہ سوالیہ اسلوب انتہائی فصاحت وبلاغت پر مشتمل ہے۔
    پھر قرآن پاک کے لیلۃ القدر میں نازل ہونے کے بارے میں اہل تفسیر نے یہ ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر میں خیر الکتب کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتارا جو خیر الامم کا ضابطہء حیات ہے جو پوری انسانیت کی پوری زندگی کے تمام شعبوں میں ان کا رہنما ہے تو اس خیر عظیم کا اس رات نازل ہونا، یہ اس رات کے عظیم القدر ہونے کا بھی سبب ہے، پھر حسن اختیار ہے کہ عظیم کتاب کے نازل ہونے کے لئے خیر الاوقات کا انتخاب ہوا جو قرآن کریم کی عظمت کی دلیل ہے، پھر لوح محفوظ سے جناب محمد رسول اللہ کے قلب مبارک پر یہ قرآن 23 سال تک حسب ضرورت نازل ہوتا رہا، قرآن کریم کے نزول کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے بیک وقت نہیں اتارا، اسکی حکمت کے بیان کے لئے قرآن پا ک میں ارشاد ہے: کہ ہم نے اس کتاب کو ’’جملہ وحدہ‘‘ کے طور پر نازل نہیں کیا تاکہ آپ کے دل کو ثابت رکھیں۔ سبھی کو علم ہے کہ قرآن کریم قول ثقیل ہے، جب قرآن کریم کی اوائل آیات نازل ہوئیں تو اس قول ثقیل کے نزول کا آنحضرت  پر جو اثر ہوا اسکا قصہ مفسرین اورمحدثین نے بیان فرمایا ہے کہ اس کے بوجھ کی وجہ سے حضور کی کیا کیفیت ہوگئی تھی؟ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضور کے قلب اطہر پر اس کو 23 سال میں اتارا۔ لیلۃ القدر کے بارے میں یہ نہیں فرمایا کہ یہ رات اتنے مہینوں یا اتنے سالوں کے برابر ہے بلکہ خیر من الف شہرکہ یہ ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے، ایک ہزار مہینوں کی تعیین نہیں بلکہ یہ فرمایا کہ ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے گویا کہ ایسے اجرو ثواب کی اللہ نے خوش خبری دی جو لا محدود ہے پھر آگے فرمایا کہ اس رات میں اللہ کے فرشتے اترتے ہیں۔  فرشتے اللہ تعالیٰ کی طاہر ومطہر مخلوق ہیں جو ہر وقت اس کی فرمانبرداری میں رہتے ہیں۔ فرشتوں کا دامن کبھی بھی معصیت میں ملوث نہیں ہوا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے اوامر کے کو بجالاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی یہ پاک مخلوق جو روزہ دار بندوں کے لئے اس ماہ مباک میں زمین پر اترتے ہیں کہ وہ خیر وبرکات بکھیریں اور ساتھ ہی انسان کی اطاعت کا بھی انداز کرلیں کہ وہ انسان کی خلقت کے وقت یہ سمجھتے تھے کہ یہ فسادی ہوگا اور آج وہ اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ وہ تو اللہ کی تسبیح وتقدیس میں مشغول ہیں۔ یہ انسان جس میں اللہ جل شانہ نے خیر اور شر ہر دو مادے رکھے تھے ،اس نے خیر کو اختیار کیا ،شر اور معصیت کو چھوڑ دیا پھر آگے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ عام فرشتے تو اترتے ہی ہیں، اس رات میں روح القدس بھی آتے ہیں، روح القدس سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام ہیں، اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل ہے اس امت کے لئے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے شب وروز کو کس قدر روحانی بنا دیا اور کس قدر معطر ومطہر کر دیا، اس کائنات کا ہر کونہ اور موجودات کونیہ کے ہر ہر زاویہ کو اللہ کی رحمتیں اور برکتیں احاطہ کئے ہوئے ہیں ۔یہ ہے معنی اس آیت کا کہ آپ کو کیا معلوم قدر والی رات کیا ہے۔
    برادران اسلام، یہ وہ امور ہیں جن کی خبر قرآن کریم دے رہا ہے۔ یہ کوئی وہمی چیزیں نہیں جنکا وجود نہ ہو، یہ تخیلات نہیں بلکہ یہ سبھی واقعاتی حقائق ہیں، یہ خیالات نہیں بلکہ موجودات ہیں، یہ وہ چیزں ہیں جن کے وجود اور وقوع کی خبر اللہ تبارک وتعالیٰ خود دے رہے ہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ ایسے کلام کے اندر یہ خبر دے رہے ہیں جو محفوظ ومأمون ہے، یہ قرآن کریم میں ثبت ہے، جو زمانہ نزول سے آج تک اور پھر تاقیامت قرآن میں سب کچھ ثبت رہے گا، اس لئے ہم غفلت میں نہ رہیں، ان امور کا استحضار رکھیں، قرآن کا قاری سورۃ القدر کی قرأت کرے تو ہمیں پختہ یقین بھی رہے کہ اس میں فرشتے اور روح القدس اترتے ہیں، فرشتوں کے نزول کا شعور ہمیں اس لئے دیا جارہا ہے کہ ہمیں یاد رہے کہ سارا جہان اللہ تعالیٰ نے ہماری ترقیات روحانی کے لئے سجا رکھا ہے ،یہ ہے عظمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس رات کی اور اس امت کی او راس امت کے قرآن کی، پھر یہ بھی اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ فرشتے ہر خیر کو لیکر اترتے ہیں، اس افضل رات میں اللہ تعالیٰ کی کیا کیا خیرات نازل ہوتی ہیں، حضور  فرماتے ہیں کہ جبریل فرشتوں کی جماعت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں، جس شخص کو ذکر میں مشغول پاتے ہیں، اس کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں، کس قدر اللہ نے حضرت انسان کو شرف بخشا جو فرشتے اس کی پیدائش کے وقت ایک رائے رکھتے تھے، جب اس بابرکت رات میں بندے رحمت رحمان سے فیض یاب ہورہے ہیں تو وہ اسی انسان کے لئے رحمت ربانی کو طلب کر رہے ہیں جسے فسادی کہا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ رات تو سلامتی ہی سلامتی کی رات ہے، فرشتے اس رات فوج در فوج اترتے اور وہ واپس جاتے ہیں۔
    یہ سلسلہ ساری رات جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ طلوع فجر ہوجائے، اس رات کو پانا بھی اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لئے انتہائی اسان بنا دیا ۔حضرت عبادۃ نبی پاک  سے روایت فرماتے ہیں کہ حضور نے فرمایا کہ قدر والی رات رمضان کے آخری عشرے میں ہے، پھر مزید فرمایا: تم اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو، پھر یہ بھی فرمایا کہ21ویں،23ویں، 25ویں،27ویں،29ویں، یا رمضان کی آخری رات ہے، یہ بھی حکمت ربانی ہے کہ اس کی تعیین نہیں فرمائی، ایک دوسری روایت میں ہے کہ اللہ نے مجھے اس کی خبر دیدی مگر جب اس کی خبر دینے کے لئے باہر تشریف لائے تو دو مسلمان باہم جھگڑ رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس کا علم مجھ سے اٹھالیا۔
    سو تم اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرتے رہو، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا باہم جھگڑا کرنا کس قدر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کا موجب ہے، اگر ہم ایک دوسرے کے ساتھ احسان کرتے رہیں تو یہ ہمارا افضل ترین دین ہے، رہی بد خلقی تو تمہارے اعمال صالحہ کو بھی مونڈھنے والی چیز ہے، برادران اسلام حسن عبادات کے ساتھ ساتھ حسن اخلاق کی بھی ہمیں فکر کرنی چاہئے، اگر کچھ تدبر کریں تو اس پہلو میں ہمارے معاشرے میں اکثریت کوتاہ ہے، عبادات میں تو ہم کسی نہ کسی درجے میں لگے رہتے ہیں مگر حسن اخلاق اور صفائی معاملات میں ہم سے بہت دور ہوچکے ہیں بلکہ معاملات میں کوتاہی اور خشک خلقی میں بعض نام نہاد دیندار زیادہ معروف ہیں۔
    دعا ہے کہ حق تعالیٰ شانہ جس نے ہم پر ان گنتی کے ایام میں رحمت، مغفرت اور جہنم سے چھٹکارے کے فیصلے فرمائے ہیں اور پھر ان ایام معدودات میں ہمیں ایسی قدر والی رات عطا فرمادے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، وہ اپنی خصوصی عنایت سے ہمیں اس کی قدر کی توفیق عنایت فرمادے ، اس ماہ مبارک کے فیوض وبرکات سے اللہ تعالیٰ ہمیں مالا مال کردے، اور لیلۃ القدر کی قدر کو سمجھنے اور اس کو پالینے کو توفیق ہمیں عطا فرمائے۔
مزید پڑھیں:- - - -طاق رات اور شب جمعہ، لیلۃ القدر کا امکان

شیئر: