Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سلیم ضیاءآغا:لوگ راہوں میں زندگی بِتاتے ہیں، یہ زندگی کو راستہ دکھاتے ہیں

 شہزاد اعظم۔جدہ
14اگست ،1947ءکوتشکیل پاکستان کی جد و جہد اختتام کو پہنچی اور اسی لمحے تکمیلِ پاکستان کے سفر کا آغاز کر دیا گیا۔اس کے ساتھ ہی وہ قوتیں بھی سرگرم ہو گئیں جواس نومولود ریاست کو پیروں پر کھڑا ہونے سے قبل ہی ناکامی سے دوچار کرنا چاہتی تھیںکیونکہ یہ مملکت وہ پاکیزہ خطہ تھی جو ہندوستان سے کاٹ کر الگ کر دیا گیا تھا اور اس کی باسی وہ قوم تھی جس نے ہندوستان پر ہزار برس حکمرانی کی تھی ۔ وہ محکوم قوم مسلمانوں سے اس ہزار سالہ غلبے کا بدلہ لینے کے لئے پاکستان کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننے لگی اوراس بُنت کا سلسلہ آج تک جاری ہے ۔وہ اپنے مکروہ چہرے لے کر تو ارض پاک پر قدم نہیں رکھ سکتے تاہم کلبھوشن کے یاروں، پاکستان کے غداروں ، عیارو ں اور مکاروںکی شکل میں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کی ناکام کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
وطن میں ہوں یا بیرون وطن، اپنوںمیں ہوں یا پرایوں میں، اکثر و بیشتر یہ سوال سماعتوں سے متصادم ہو تا ہے کہ پاکستان کی مخالف قوتیں، تنظیمیں اور افراد 70سال سے اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیںاس کے باوجود پاکستان ، الحمد للہ، قائم و دائم ہے ۔ اس کی ترقی کی رفتار سست روی کا شکار ضرور ہوجاتی ہے مگر تھمتی نہیںآخر اس کا سبب کیا ہے ۔ ہم اس سوال کا صوتی یا تحریری جواب دے کرسائل کو خاموش کردیتے ہیں، یہی ہمارا وتیرہ رہا ہے مگر اُس روز یوں ہوا کہ ہم خود ہی خاموش ہو گئے کیونکہ اس سوال کا جواب الفاظ یا آوازنہیں بلکہ اک جیتی جاگتی ہستی کی شکل میں نظر نواز ہو رہا تھا۔
زندگی کے تجربات کی دہائیاں ، بشاش چہرے پرنمودار ہونے والی شکنوں کی تعداد سے عیاںتھیں۔دیانت کی عادت نے ،حق گوئی و بے باکی سے نوازا تھا ،ان کی پیشانی پر امانتداری کا غازہ تھا ،احساسِ ذمہ داری عزم نو کی طرح تازہ تھا۔نام سلیم، دیکھنے میں لحیم شحیم ، گفتار میں فہیم ، آواز میں کھنک، آنکھوں میں چمک ، حب الوطنی جن کا مان،وطن کی خدمت جن کی شان، صبر وتحمل ہے پہچان ، جن کی جان ہے پاکستان۔
سلیم ضیا ءآغا ، وہ ہستی¿ عظیم کہ جب پاکستان میں موٹر وے پولیس کے افسر رہے توہمت، جرا¿ت اور خدمت کے ایسے معیار قائم کئے کہ موٹر وے پولیس کو عالمگیر پذیرائی ملی اوراسے مثالی قرار دیا گیا۔ایک ایسے ملک میں کہ جہاں بعض صاحبانِ اختیار بھی خود کو قواعد و ضوابط کا پابند نہیں سمجھتے، وہاں انہوں نے موٹر وے سے سفر کرنے والوں کو قوانین پر عملدرآمد کا پابندبنایا اور خلاف ورزی پر بلا امتیازجرمانوں کاایسا نظام نافذ کیا کہ” بااختیار اور بے اختیار “، دونوں قسم کے شہری موٹر وے پر سفر کرتے وقت  تیسری دنیا سے تعلق رکھنے کے باوجود پہلی دنیا کے موٹر وے مسافروں کے لئے مثال بن گئے اور مجبوراً انہوں نے پاکستانی موٹروے پولیس کی اہلیت و قابلیت کا اعتراف کیا۔
سلیم ضیا ء سے ہم نے ملاقات کی تو احساس ہوا کہ لوگ راہوں میں زندگی بِتاتے ہیںاور یہ زندگی کو راستہ دکھاتے ہیں۔لوگ منزل کی جانب سفر کرتے ہیں، یہ ہر مسافر پہ نظر کرتے ہیں ۔ لوگ تیز رفتاری کو دور جدید کا قرینہ سمجھتے ہیں،یہ اصول وضوابط کو ترقی کا زینہ سمجھتے ہیں۔ 
آج سلیم ضیا ءآغاریٹائر ہو چکے ہیں، وہ موٹر وے پولیس کا حصہ نہیں رہے چنانچہ آج موٹر وے پولیس بھی ویسی نہیں رہی جو دنیا کے سامنے ایک مثال تھی۔ ان حقائق کو دیکھ کر ہمیں خیال آیا کہ اگر حکمراں اصول و ضوابط کا پابند ہو تورعایابھی باضوابط کی پابندی کو اپنا شعار بنا لیتی ہے کیونکہ وہ اپنے حاکم کے نقشِ قدم پر چلنا اپنے لئے اعزاز سمجھتی ہے ۔ 
٭سلیم ضیا ءآغا سے ہم نے استفسار کیا کہ انہوں نے موٹر وے پولیس میںڈی ایس پی کا عہدہ سنبھالا تو کیا خذمات انجام دیں؟انہوں نے جواب دیا :
٭٭موٹر وے میں خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا تو نظم و ضبط پر خاص توجہ دی۔ فرائض کی مثالی ادائیگی پر زور دیا ۔ یہاں پرموٹر وے پولیس کے آئی جی احمد رشید اور افتخار نسیم جیسی عظیم شخصیات کا ذکر ضروری ہے جن کے تعاون سے ہم نے موٹر وے پولیس کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ۔
٭آپ نے موٹر وے سے ہی اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی ابتداکی؟
٭٭جی نہیں میں نے پاکستان ریلوے پولیس سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔اس کے بعد میں نے ایلیٹ فورس میں بھی تربیت حاصل کی، پنجاب پولیس میں بھی رہے ۔ اہم محکموں میں بھی خدمات انجام دیں۔
٭یہ کہنا بجا ہو گا کہ آپ نے ملک و قوم کی خدمت کی ابتدا ریلوے پولیس سے اور انتہا موٹر وے پولیس پر کی؟
٭٭جی ہاں، ایسا ہی ہے۔اس موقع پر میں آپ کو ایک تلخ یاد گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ لاہور میں ایک مرتبہ ریلوے اسٹیشن پر ملک دشمنوں نے بم دھماکہ کرایا تھا۔ متعدد لوگ شہید ہوئے تھے۔ اس دوران میں نے اپنے ہاتھوں سے زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر گاڑیوں اور ایمبولینسوں میں ڈالا۔ میرا یونیفارم خون سے لت پت ہو گیا تھا۔
٭آپ موٹر وے پولیس کا ذکر کر رہے تھے۔وہاں کے واقعات بھی آپ ہم سے بانٹنا چاہیں گے؟
٭٭جی جی! کیوں نہیں۔ ویسے ملک و قوم کی خدمت میں بسر ہونے والے لمحات ہوتے ہی خوبصورت ہیں۔موٹر وے پر ہم نے ایسا نظم و ضبط قائم کر دیا تھا کہ جو بھی اس راہ پر سفر کے لئے آتا تھا وہ تمام قواعد و ضوابط پر مکمل عمل کرتا تھا۔ چلتی گاڑی سے کوئی شخص کچرا پھینکنے کا بھی نہیں سوچتا تھا۔ موٹر وے کا مسافر خواہ کوئی بااثر شخصیت ہو یا عواممیں سے ہو، سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیاجاتا تھا۔جو کوئی بھی غلطی کرتا اس پر جرمانہ عائد کیاجاتا۔ ہماری ان خدمات کے باعث موٹر وے پولیس کی تعریف دنیا بھر میں کی گئی ۔ بلا شبہ اس دور میں موٹروے پولیس مثالی فورس بن گئی تھی۔
٭آپ کوئی ایسا واقعہ سنانا چاہیں گے جو یادگار ہو، ناقابل فراموش ہو؟
٭٭ایسے تو کئی واقعات ہیں تاہم یہاں پر ایک واقعہ آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں ، یہ ان دنوں کی بات ہے جب میںنیا نیا موٹر وے پولیس میں گیا تھا۔ اکثر رات دیر گئے عام لباس میں موٹر وے پیٹرولنگ پر نکل جاتا تھا۔ ایک رات پیٹرولمگ کے دوران سگیاں پل سے آگے مجھے ایک مشکوک گاڑی جاتی ہوئی نظر آئی۔مجھے شک اس لئے ہوا کہ اس میں صرف 2افراد سوارتھے لیکن گاڑی اس طرح دبی ہوئی تھی جیسے اس میں زیادہ بوجھ لادا گیا ہو۔ عام حالات میں ہم اس طرح گاڑی کو نہیں روکتے جب تک کہ شک سے زیادہ یقین نہ ہوجائے چنانچہ میں نے اس کا پیچھا کرنا شروع کردیا۔ساتھ والی سیٹ پر سرکاری ریوالور کی جانب نظر ڈالی تو اطمینان ہوا کہ مشکوک گاڑی کو روکنے کیلئے ٹائر میں گولی ماری جا سکتی ہے۔ مشکوک گاڑی نے چند میل کے بعد رفتار بڑھا دی جس سے میرا شک یقین میں بدلنے لگا۔ وائرلیس پر بار بار میسج دینے کے باوجود پیٹرولنگ یونٹ کی پوزیشن واضح نہیں ہو رہی تھی۔ سردیوں کی رات تھی اور تقریباً 2بج چکے تھے ۔ اسی دوران اگلی گاڑی تیز رفتاری کے باعث ڈرائیور سے بے قابو ہو کر موٹر وے پر لگے جنگلے سے ٹکراتے ٹکراتے بچی جس سے اس کا بمپر نکل کر لٹک گیا مگر انہوں نے گاڑی نہ روکی۔ اب میں نے ریوالور پر ہاتھ کی گرفت مضبوط کر کے انہیں لائٹ کے ذریعے رکنے کا اشارہ کیا تو ڈرائیور نے دوبارہ گاڑی جنگلے میں گھسادی جس سے جنگلے کا کچھ حصہ ٹوٹ گیا۔ آناً فاناً ان دونوں افراد نے گاڑی سے اترتے ہی ہوائی فائرنگ شروع کر دی اور سڑک سے نیچے کی جانب تیز رفتاری سے بھاگ نکلے۔ میں نے بھی 2،3ہوائی فائر کئے جس کے کچھ لمحے کے بعد ان کی جانب سے فائرنگ بند ہوگئی۔ میں اکیلا تھا ، اللہ کریم کا نام لے کر گاڑی سے اترا۔ ٹارچ میرے پاس موجود تھی۔ اسے روشن کر کے گاڑی کی طرف بڑھا اور اندر دیکھا تو اگلی نشست کے نیچے 2مزید ریوالور پڑے تھے جبکہ پچھلی نشست پر بھی ایک گن چھپائی گئی تھی۔ وائرلیس میرے ہاتھ میں تھا اورمیں بدستور پیغام دے رہا تھاکہ اچانک ڈیوٹی انسپکٹر کا سگنل ملا جومیرے پیچھے تھا۔ لوکیشن بتانے پروہ فوراً پہنچ گیا۔ اس کے ساتھ 2جوان اور ایک نائب کی نفری تھی۔ ہم نے مل کر گاڑی کی تلاشی لی تو اس میں سے 200کلو سے زیادہ چرس برآمدہوئی۔ میں نے فوراً قریبی تھانے کو اطلاع کی انہوں نے چالان بنا کر مال کی ضبطی ڈالی تو مجھے جیسے سکون مل گیا ۔ایسے ہی کئی واقعات محکمہ پولیس میں رہتے ہوئے پیش آتے رہتے ہیں۔
٭آپ قوم کے نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
٭٭قوم کے نوجوان ہمارا اصل پاکستان ہیں۔ ہمارے بڑوں نے پاکستان کی تشکیل کی، اب ہمیں پاکستان کی تکمیل کرنی ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی تمام تر توانائیاں ملک و قوم کے لئے وقف کر دیں۔ہمیں ایمانداری، دیانت اور نظم و ضبط کے ساتھ ساتھ تحمل مزاجی اور استقامت جیسی خوبیوں کو اپنی فطرت ثانیہ بنانا ہوگا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اگر ایک مچھلی ساری جل کو گندہ کر سکتی ہے تو کوئی دوسری مچھلی اس جل کے لئے ایسی مثال بھی بن سکتی ہے جسے دیکھ کر دوسری مچھلیاں بھی اپنی اصلاح کر لیں۔ ایسا تب ہی ممکن ہے جب آپ صداقت ، دیانت اور امانتداری جیسے اوصاف کو اپنا راہنما بنا لیں۔ہماری قوم میں بہت ٹیلنٹ ہے۔ ہمارے نوجوانوں میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی صلاحیتوںکو ایک نہج عطا کی جائے اور ان سے استفادہ کیاجائے۔میں کہنا چاہتا ہوں کہ سعودی عرب میں امن کی جو فضا قائم ہے وہ قانون کی پاسداری اور اس پر عمل درآمد کے باعث ہے۔ قانون کی ایسی عملداری ہمارے وطن میں بھی ہو توہم بھی مملکت کی طرح مثالی ملک بن سکتے ہیں۔
 

شیئر: