Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی الیکشن کا کوئی موضوع نہ منشور

***سید شکیل احمد ***
سیاست کی اس غلاظت میںپاکستان میں عام انتخابات کا جو غلغلہ مچا ہو ا ہے، اس میںبس ایک ہی بات رہ گئی ہے کہ زندگی سوائے حصول اقتدار کے مقصد کے کچھ نہیں جبکہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں تسلط کے سوا ۔ پاکستان کے عام انتخابات بھی چوں چوں کا مربّہ ہی رہے ہیں۔ ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی ایشو رہا ہے۔ مثلاًپہلے ہند دشمنی  وہ بھی کشمیر کی آزادی کے حوالے سے تھی۔ انتخابات کا مینو ہو ا کرتا تھا۔ بھٹو کے زمانے میں جمہوریت اور آمریت کے نا م پر انتخابی رن پڑا ، بعد ازاں اسلامی نظام کو مو ضوع بنا یا گیا۔ گویا ہر انتخابات میں سیا سی جماعتوں نے کوئی نہ کوئی جھا نسا عوام کو دیا۔ یہ صرف پا کستان میں ہی نہیں بنگلہ دیش ، سری لنکا ، ہند میں بھی وتیر ہ ہے۔ ہند کے گزشتہ انتخابات میں ہند تو کا ٹوٹا چلا یا گیا تھا ۔ اسکے برعکس جمہوری ممالک میںپارٹی منشور انتخابی مہم کا اہم ترین حصہ قرار پا تا ہے ۔پا کستان میں اس مر تبہ ما ضی کے انتخابات کی طر ح کوئی اہم موضوع نہیں اور نہ ہی پا رٹی منشور ہے ، تاہم2 پا رٹیا ں ایسی نکلی ہیں جنہو ں نے منشور کی کسا د بازاری میں بھی پارٹی منشور کو آگے رکھا ہے جن میں ایک جماعت اسلا می اور دوسری عوامی نیشنل پارٹی ہے۔ دونو ں کے انتخابی منشور میں کوئی نئی بات نہیں ۔ ان دونو ں نے اپنے پر انے ہی منشور کی تجدید کی ہے۔ مثلاًاے این پی نے پاکستان کو ایک سیکو لر ریاست بنا نے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ لطف کی با ت یہ ہے کہ اے این پی جب  70کی دہا ئی میں مفتی محمو د کی سربراہی میں صوبے میں برسرا قتدار آئی تھی۔ تب اس نے جماعت اسلا می کے اکلو تے رکن اسمبلی ڈاکٹر یعقوب کی جانب سے پاکستان کو ایک اسلامی جمہو ریہ وفاقی آئین دینے کی قرار داد کے حق میںووٹ دیا تھا۔ پا کستان کو اسلا می جمہوریہ کی قرار داد کی منظوری کے بعد اب بھی وہ پاکستان کو سیکو لر ریا ست بنا نے کا منشور پیش کر رہی ہے ۔
عمر ان خان میدان سیا ست میں کر پشن کا خاتمہ کر نے اور شفافیت کا نعرہ لے کر میدان سیا ست میں وارد ہوئے تھے مگر کے پی کے میں ان کی پارٹی کے اقتدار کے دور میں سب سے زیا دہ کر پٹ ارکا ن ا نہی کی پارٹی کے نکلے یا خود ا نہی کے ذریعے قرا ر پا ئے اورکا میا ب حکومت کی ڈونڈی پیٹتے پیٹتے کئی اہم ترین منصوبے ادھو رے چھو ڑ کر رخصت ہوئے۔ اس کے باوجود وہ اپنی پارٹی کی کامیا بی کے گن گا رہے ہیں۔ بہر حا ل پا کستان میں انتخابی سیاست اب ایک گالی کے رخ پرنمو دار ہوئی ہے۔ کوئی مقر ر پارٹی کے منشور کی بات نہیں کر تا۔ یا تو سبز باغ سجا نے کے تصورات کو ابھار تا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن کو اپنا شجر ہ معلوم نہ تھا ان کو بھی آگاہی ہو رہی ہے ۔کہتے ہیں کہ ایک مر تبہ ایک متکبّر شخص نے بال تر اش کے وقت حجام کو زچ کر نے کے لیے استفسار کیا کہ اس کے سرپر کتنے بال ہیں۔ حاضر جو اب حجا م نے تر نت جو ا ب دیا کہ فکر کی کیا بات ہے، تر اش خراش کے ساتھ ہی سارے بال آپ کے دامن پر آرہیں گے۔ سب سمیٹ کر گن لیجیو۔ آپ ہی معلو م ہو جائیگا کہ سر کتنا گنجا اور کتنا بھرا بھرا ہے۔ سو اب سب کے دامن پر مو مبارک بر س رہے ہیں سب ہی جا ن رہے ہیں کہ وہ اعمال نا مہ سے کس قدر سر شار ہیں ۔ 
فی الحا ل انتخابات کا قصہ رہنے دیتے ہیں اور بات کر تے ہیں ان اہم ترین واقعات کی جو عالمی سطح پر اہم ترین ہیں۔ ان میں سے ایک امریکہ کا انسانی حقوق کی عالمی کو نسل سے علیحد گی کا اعلا ن ہے ، جو امر یکی وزیر خارجہ مائک پو مپیو اور اقوام متحدہ میں امر یکی سفیر نکی ہیلی نے ایک مشترکہ کا نفر نس میں کیا۔  نکی ہیلی نے الزام لگا یا کہ کو نسل کے ارکا ن اسرائیل کیخلا ف ایک عرصہ سے تعصب برت رہے ہیں اور اقوام متحد ہ کی انسانی حقوق کی کو نسل انسانی حقوق غصب کر نے والو ں کی محافظ بن گئی ہے۔ انھوں نے حقارت سے کو نسل کو سیا سی تعصب کا گٹر قرا ر دیا ۔ نکی نے روس ، چین ، کیو با اور مصر پر الزام عائد کیا کہ امریکہ ایک سال سے کو نسل میں جو اصلا حات لا نے کی سعی کر رہا تھا تو اس کو ان ممالک نے نا کا م بنا یا ۔ امریکی وزیر خارجہ نے تو حد ہی پا رکر دی۔ ان کا الز ام تھا کہ انسانی حقوق کو نسل منافقت کی بے شرم مشق کا منبع بن گئی ہے۔ حیرت ہے کہ اسرائیل کے معاملا ت پر امریکہ کو اس قدر دکھ ہو ا کہ اس نے کو نسل کے بارے میں انتہا ئی غیر شستہ الفاظ استعمال کر ڈالے۔  یہ الفاظ ادارے پر نہیں بلکہ کو نسل کے ارکان کے لیے استعمال کیے گئے کیو نکہ ادار ہ ایک بے جان عمارت کے اندر اس کے اہلکا ر و ں کی کارکر دگی سے زندہ قرار پا تا ہے ۔ 
         امریکہ نے جو الزام کو نسل پر عائد کیا ہے وہ بظاہر اسرائیل سے زیا دہ اسرائیل سے وفا دار ہو نے کی غما زی کر رہا ہے۔ ایسی بات اسرائیل کے وزیر نے ترکی میں پا کستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمو د قصور ی سے کہی تھی۔ اس خفیہ ملا قات میں اسرائیلی وزیر نے پا کستانی وزیر خارجہ سے  استفسار کیا تھا کہ پاکستان فلسطینیو ں سے زیا دہ فلسطینی کیو ں بنا ہوا ہے ، ویسے یہ اسرائیل سے بہت زیا دہ وفاداری کا مدعا نہیں بلکہ امریکہ ایک ایسے وقت میں کو نسل سے بچ نکلا ہے کہ جب ٹرمپ انتظامیہ پر غیر قانو نی طو پر امریکہ آنے والے تارکین وطن کو ان کے بچو ں سے علیحدہ کرنے کی پا لیسی کو تنقید کا سامنا ہے۔ کو نسل کے سربراہ زید رعدالحسین نے ٹرمپ کی پالیسی کو بے ضمیر قرار دیا ۔ ٹرمپ انتظامیہ کی ا س پالیسی سے ان ممالک کو پر شانی کا سامنا کرنا پڑے گا جو انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے امریکہ کی جانب دیکھتے ہیں ، امریکہ کے ہمیشہ سے انسانی حقوق کی عالمی کو نسل سے تعلقات خوش گوار نہیں رہے ۔جب   2006 ء میں  اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کو نسل کا قیا م وجو د میں لا یا جا رہا تھا اس وقت کے امریکی صدر جا رج بش نے  بائیکا ٹ کا فیصلہ کیا تھا ۔گویا امر یکہ کو کبھی بھی انسانی حقوق سے متعلق  ادارے کا وجود قبول ہی نہیں رہا۔  جب جار ج بش کے دور میں بائیکا ٹ کیا گیا تو اس وقت اقوام متحدہ میں امریکی کے سفیر جا ن بولٹن تھے جو اِس وقت ٹرمپ کے نیشنل سیکیو رٹی کے مشیر ہیں ۔ اس بائیکا ٹ کے بعد2009ء میں  باراک اوبامہ کے دور میں امریکہ دوبارہ اقوام متحد ہ کی انسانی حقوق کو نسل کا ممبر بنا۔
انسانی حقوق کے لیے کا م کر نے والی ایک درجن تنظیمو ں نے امریکہ کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے اور امریکہ کے وزیر خارجہ کے نا م خطوط تحریر کیں۔ اس بارے میںسب سے بہترین بیا ن بین الا قوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے جا ری ہو ا ہے جس میں کہا گیا کہ ایک بار پھر صد ر رونالڈ ٹرمپ نے ثابت کر دی ہے کہ وہ ان تما م بنیا دی حقوق اور آزادیو ں پر یقین نہیںرکھتے جن کا امریکہ بزعم خود پر چم بردار بنا ہو ا ہے ۔ امریکہ یو نیسکو کی جانب سے فلسطین کو رکنیت دینے پر اسے اسرائیل مخالف فیصلہ قرا ر دے چکا ہے اور رواں سال کے آخر تک یو نیسکو کی رکنیت چھوڑ دینے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ اسی طر ح فلسطینی مہا جر ین کو اقوام متحدہ کی جانب سے امدا د دی جانے والی اپنی رقوم میں سے  80فیصد کٹوتی لگا دی ہے ۔ 
انسانی حقوق کی عالمی کو نسل سے امریکہ کی علیحدگی کی خبر سے بھی بڑی خبر کشمیر میں گورنر راج کا نفاذ ہے۔ یہ ریا ست دنیا کا واحد خطہ ہے جہا ں گزشتہ  70سال کے دوران 9 مرتبہ گورنر راج نا فذ کیا گیا ہے۔ دنیا کی کسی ریا ست میں ایسا نہیں ہو ا۔گورنر راج سے پہلے  ہندوستانی  فوج کے سربراہ کا ایک بیان آیا تھا کہ فوج کشمیر میںحالا ت کو کنٹرول نہیں کر سکتی کیو نکہ فوج ایک حریت پسند کو ما رتی ہے تو  10نئے حریت پسند تحریک میں شامل ہو جاتے ہیں۔جس طر ح امریکہ فلسطینیوںکیخلا ف اسرائیل کی طر ف سے حقوق کی پامالی کی حمایت کر تا ہے اسی طر ح کشمیر میں ہندوستانی پالیسیو ں کا حامی ہے اور ہند کی جا نب سے انسانی حقوق کی کشمیر میں خلا ف ورزیوں پر اعتنا ء نہیں برتا بلکہ ہند سے اعتنا ء کیے ہو ئے ہے ۔
 
 

شیئر: