Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نبیٔ کریمﷺ رحمت للعالمین

 امتِ مسلمہ کے نوجوان مخالفانہ پروپیگنڈے کا تجزیہ کرکے دشمن کے عزائم کو ناکام بنا سکتے ہیں
 
حافظ محمد ادریس
  یہ پروپیگنڈے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ مکار اور شاطر لوگ ذرائع ابلاغ کو استعمال کرکے پوری دنیا کو بظاہر روشنی مگر فی الحقیقت اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں۔ ہمارے دشمن ہمیشہ ہماری تہذیب اور بنیادی اقدار پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں اور تو اور محسنِ انسانیت کی حیاتِ طیبہ اور ذاتِ عالیہ پر بھی ہمارے دشمنوں نے بہت کیچڑ اچھالا۔ آج ہماری نوجوان نسل کو مغرب و مشرق کا بے خدا، ملحد اور سیکولر میڈیا گمراہ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔
    ہمارا تجربہ ہے کہ جن نوجوانوں کی بنیادی تربیت قرآن وسنت کی روشنی میں ہوئی ہو وہ آسانی سے دشمن کے تیر کا شکار نہیں ہوسکتے۔ آج مسلمان کو دہشت گرد، انتہا پسند، بنیاد پرست، تنگ نظر اور خونخوار ثابت کرنے کیلئے سیکولر میڈیا میدانِ عمل میں کیا کیا گل کھلا رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری اپنی صفوں میں ایسے دانشور موجود ہیں جو ہیں تو مسلمان، مگر ان کا قلم اور سوچ غیروں کی فکر کے تابع ہے۔ مسلم نوجوانوں کی تربیت ایسے انداز میں ہونی چاہیے کہ وہ دشمن کے پروپیگنڈے کو سمجھ جائیں۔ ان کے اندر فکری پختگی اور جرأتِ ایمانی اس سطح پر ہونی چاہیے کہ وہ دشمن کے ہتھکنڈوں کو نہ صرف سمجھیں بلکہ اس کا توڑ بھی کرسکیں۔ الحمدللہ ایسے نوجوان دنیا بھر میں موجود ہیں اگرچہ تعداد میں تھوڑے ہیں۔
    سیرتِ نبوی  کا مطالعہ مختلف لوگوں نے مختلف انداز میں کیا ہے۔ جس نے بھی اخلاص کے ساتھ سیرتِ طیبہ کا کوئی ورق کھولا اسے ہیرے موتی ہاتھ آئے۔
    میں جنگِ بدر کے حالات کا مطالعہ کررہا تھا۔ مؤرخین نے اپنے اپنے انداز میں اس کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ نبی اکرم کو جب اس پہلے معرکۂ حق وباطل میں ایک بڑے لشکر کے مقابلے پر فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی تو پوری دنیا حیرت میں ڈوب گئی۔ اسلام دشمنوں کی امیدیں خاک میں مل گئیں۔ شیطانی قوتیں تلملا اٹھیں۔ ان میں سے ہر شخص کہہ رہا تھا کہ یہ کیسے ہوگیا ہے؟ کفار ومشرکین کے گھروں میں کہرام مچا تھا۔ منافقین اور یہود کی تمام امیدیں دم توڑ چکی تھیں۔ یہودیوں کے ہاں تو صفِ ماتم بچھی تھی اور ان کے شعرا ء اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے خلاف مسلسل زہر اگل رہے تھے۔ امتِ مسلمہ بہرحال تعداد میں قلیل ہونے کے باوجود بہت منظم اور بیدار تھی۔ آخر یہ صحابہ کرامؓ  آنحضور کے تربیت یافتہ تھے۔ ماں کی گود ہی سے حمیتِ اسلامی ان کی گھٹی میں ڈال دی جاتی تھی۔ ماؤں کی لوریاں بھی اسلام کا پیغام اور اس کی تعلیمات کا نچوڑ ہوتی تھیں  اس لئے اندر اور باہر کے سب دشمن ساری سازشوں کے باوجود بے بس ہوجاتے تھے۔ منصوبے بڑے بڑے بناتے تھے مگر ان کا مقدر رسوائی اور ہزیمت کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔
    نبیٔ مہربان جب بدر میں فتح حاصل کرچکے تو آپ نے فوراً 2تیز رفتار سواریوں پر2شہسواروں کو مدینہ کی طرف روانہ فرما دیا اور حکم دیا کہ زید بن حارثہؓ مدینہ کی بالائی جانب سے داخل ہوں اور عبداللہ بن رواحہؓ مدینہ کی زیریں جانب سے داخل ہوں۔سیدنا زیدبن حارثہؓ  کو آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار کرکے بھیجا تھا۔ ان دونوں صحابہ کی ذمہ داری لگی تھی کہ وہ اہلِ مدینہ کو فتح کی خوش خبری سنا دیں۔ ان کو روانہ کرتے ہوئے بھی آپ نے فرمایا تھا کہ مدینہ میں ہمارے اہل وعیال خواتین، بچے اور بوڑھے سب مضطرب ہوں گے کہ جنگ کا نتیجہ کیا نکلا۔ انھیں جلد از جلد یہ خوش خبری ملنی چاہیے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ نبی پاک اپنے ساتھیوں، اپنی امت اور اپنی رعایا کا کس قدر خیال رکھتے تھے اور ان کی پریشانیوں کو دور کرنے کا کیسا اہتمام فرماتے تھے۔ ہم جس واقعہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ مدینہ کے منافقین اور یہود کیا پروپیگنڈہ کررہے تھے اور مخلص اہلِ ایمان کس طرح ان کا مقابلہ کررہے تھے۔
     سیدنازید بن حارثہؓ مدینہ میں داخل ہوئے تو انھیں پہلی خبر یہ ملی کہ نبی اکرمکی پیاری لختِ جگر، سیدہ رقیہؓ جو جہاد پر روانگی کے وقت شدید بیمار تھیں، وفات پا گئی ہیں اور جنت البقیع میں جنازے کے بعد ان کی تدفین ہورہی ہے۔ فتح کی خوشی بے انتہا تھی مگرسیدنا زید بن حارثہؓ  کو اپنی بہن کی رحلت کا غم اس خوشی سے شدید تر تھا۔ اس غم کے آثار ان کے چہرے پر نمایاں ہوگئے مگر وہ لوگوں کو فتح کی خوش خبری سناتے ہوئے جنت البقیع میں آپہنچے۔ تدفین کے وقت منافقین آپس میں باتیں کررہے تھے کہ جنگ میں قریش نے مسلمانوں کو کچل دیا ہے۔ سیدنا زید بن حارثہؓ  نظر آئے تو ایک دوسرے منافق نے ردّا چڑھایا اور سرگوشی کے انداز میں کہا کہ دیکھو زید بن حارثہؓ   محمد () کی اونٹنی پر بھاگ آیا ہے، اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں، محمد () قتل ہوچکا ہے(نعوذ باللہ)۔
     سیدنا زیدبن حارثہؓ کے بیٹے سیدنا اسامہ بن زیدؓ جو اس وقت بمشکل10,9سال کے تھے، منافقین کی یہ باتیں سن رہے تھے۔ ایسے موقع پر بڑے لوگوں کے بھی اعصاب جواب دے جاتے ہیں مگر کیا تربیت اور کیا شخصیت تھی کہ سیدنا اسامہؓ   فوراً اپنے باپ کی طرف دوڑے اور ان کی اونٹنی کے سامنے کھڑے ہوکر یہ سوال کیا کہ بابا جان جنگ کا کیا نتیجہ رہا؟ انھوں نے جواب دیا کہ بیٹا! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی  اور ان کے صحابہؓ  کوشاندار فتح عطا فرمائی ہے۔
    سیدنا اسامہؓ  کو یقین تھا کہ ان کے والد سچ کہہ رہے ہیں، پھر بھی انھوں نے کہا:
    ’’ مگر آپ کے چہرے سے خوشی کیوں ظاہر نہیں ہورہی؟ ‘‘
    جواب میں سیدنا زیدؓ نے فرمایا:
    ’’بیٹا! میری بہن اور نبی اکرم کی پیاری صاحبزادی کا داغِ مفارقت دے جانا میرے لئے اتنے بڑے صدمے کا باعث ہوا کہ میری خوشی غم میں بدل گئی۔ سیدنا اسامہؓ  حقیقت کو فوراً سمجھ گئے اور دوڑ کر منافقین کی طرف آئے۔ چھوٹی عمر کے باوجود مستقبل کا یہ سپہ سالار اور قرآن و سنت کی روشنی میں تربیت پانے والا یہ ننھا مجاہد ان منافقین سے پوری جرأت کے ساتھ کہتا ہے:
    ’’تم نے ابھی ابھی اسلام اور نبیٔ محترم کے خلاف جو زہرافشانی کی ہے، اس کا پول کھل چکا ہے۔ اللہ کے نبی  فاتحانہ مدینہ کی طرف آرہے ہیں۔ وہ جونہی یہاں پہنچیں گے، میں تمہاری ساری حرکات ان کی خدمت میں عرض کردوں گا۔ تم اسلام دشمن ہو۔‘‘     منافقین گھبرا گئے ، مگر انھوں نے کہا کہ بیٹا تم بہت چھوٹی عمر کے ہو، تمہیں ہماری گفتگو سمجھ میں نہیں آئی۔ ہم نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ سیدنا اسامہؓ نے فرمایا کہ میں چھوٹا ضرور ہوں ، مگر بے وقوف نہیں ہوں۔
    یہ صفت اگر امتِ مسلمہ کے نوجوانوں میں پیدا ہوجائے کہ وہ مخالفانہ پروپیگنڈے کا تجزیہ کرسکیں، دشمن کے عزائم کو سمجھ جائیں اور اپنے مؤقف پر مضبوطی کے ساتھ ڈٹ بھی جائیں اور اسے مناسب انداز میں پیش بھی کرسکیں تو دشمن کے سارے حربے ناکام ہوسکتے ہیں۔     دورِ جدید کی ٹیکنالوجی کو نہ صرف سیکھنا چاہیے بلکہ اس میں کمال حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے مگر اس کے ذریعے اسلام دشمنوں کے اٹھائے ہوئے طوفانوں میں بہہ جانے کے بجائے اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنی چاہیے۔ اس کے ساتھ درست فیصلے تک پہنچنے کیلئے اپنے دل ودماغ اور ذہن وعلم کی سب صلاحیتوں کو عمل میں لانا چاہئیے۔
مزید پڑھیں:- - - -سچائی کی تلقین
 

 

 

 

شیئر: