Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی ٹیم کی نمبر ون پوزیشن خطرے میں

 
ہرارے:کرکٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں جب کبھی پاکستان نے جنوبی افریقہ یا آسٹریلیا کا دورہ کیا تو ہر بار پاکستانی بیٹنگ پہ سوالیہ نشان کھڑے ہوئے۔ باونسی وکٹوں پہ گیند کانخرہ ایشین وکٹوں سے یکسر مختلف ہوتا ہے، سو وہاں کا باونس اور سیم ایشین بلے بازوں کے لیے ہمیشہ درد سر ہی رہالیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ زمبابوے کے دورے پہ پاکستانی بیٹنگ کے یوں طوطے اڑ گئے ہوں وجہ صرف یہ نہیں کہ زمبابوے کی ٹیم ہمیشہ ہی بی کیٹیگری میں رہی ہے یا زمبابوے کی بولنگ میں کبھی کوئی دم خم نہیں رہا۔درحقیقت زمبابوے کی وکٹوں کا مزاج قریب قریب وہی ہے جو ایشین کنڈیشنز کا ہوتا ہے۔ میزبان کے خلاف میچ میں بھی کسی پاکستانی بیٹسمین کو کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا اور پاکستان نے ایک بھاری بھر کم ٹوٹل ترتیب دیا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کے خلاف اچانک ایسا کیا ہوا کہ ہرارے ہی پاکستان کے لئے پرتھ کی وکٹ بن گئی۔ ٹاپ آرڈر بالکل کنفیوز نظر آیا۔ گیند بلے سے چھو کر وکٹ کیپر کے گلوز میں جاتی رہی۔ پاکستان ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں نمبرون ہے۔ پچھلے8 ٹی ٹوئنٹی لگاتار جیت کر اس میچ میں نمبر ون ٹیم کی بیٹنگ لائن یکسر مختلف نظر آئی، کوئی تو ایسی بنیادی غلطی ہوئی کہ یوں شیرازہ بکھر گیا۔محمد حفیظ نے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور اوپنر کیا تھا۔ پھر وہ ون ڈاون بھی کھیلنے لگے۔ پھر کہیں کہیں چھٹے ساتویں نمبر پہ بھی کھیلے۔ وہ کس پوزیشن پہ سب سے زیادہ موثر تھے اس کا ادراک اگر انھیں نہیں تو کم از کم ٹیم مینجمنٹ کو تو ہونا چاہئے۔اس کے باوجود اگر وہ اوپننگ کر رہے ہیں تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ زمبابوے کے خلاف میچ میں وہ کافی عرصے بعد اوپننگ کرتے نظر آئے اور حسب خدشات ناکام بھی ہوئے۔ آسٹریلیا کے خلاف پھر وہ اوپننگ کرنے ہی آئے اور ایک بار پھر ناکام ہوئے۔پاور پلے کے آغاز میں ہی جب یوں دو وکٹیں گر جاتی ہیں تو مڈل آرڈر کے لیے بہت دشواری پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ نئے گیند کو کھیلنا مڈل آرڈر کے مزاج کا حصہ ہی نہیں ہوتا۔ ویرات کوہلی دنیا کے نمبرون بیٹسمین ہیں لیکن ابھی بھی سیمنگ کنڈیشنز میں وہ نئی گیند کے سامنے پراعتماد نظر نہیں آتے۔ پاکستان کی بنیادی غلطی محمد حفیظ سے اوپننگ کروانا تھی۔ 90 کی دہائی کے اواخر میں جب شاہد آفریدی اوپننگ کرتے تھے تب بھی پاکستانی مڈل آرڈر بہت جلدی ایکسپوز ہو جاتا تھا اور اب بھی ویسا ہی کچھ ہوا۔بلی اسٹین لیک نے جس رفتار کے ساتھ گیند کو باونس کیا وہ کسی بھی پاکستانی بیٹسمین کے لیے متوقع صورت حال نہیں تھی۔ اس کے بعد جس طرح پاکستانی بیٹسمین کھیلے وہ پاکستانی شائقین کے لیے بھی متوقع صورتحال نہیں تھی۔اگر آسٹریلیا کی ٹیم کے حالیہ سفر کو دیکھا جائے تو جس بری طرح ان کا اعتماد مجروح ہو چکا ہے اس کے بعد نمبر ون ٹیم کے خلاف ایسی کارکردگی سبھی کے لیے چشم کشا ہے اور اگر یہی ٹیمپو برقرار رہا تو پاکستان کی نمبرون رینکنگ یقیناً خطرے میں ہے۔ پاکستان کا میچ گیارہ اوور میں ہی ختم ہونے کے باعث ٹیم انتظامیہ کو اتنا وقت مل گیا تھا کہ وہ یہ سوچ سکے کہ اس کا بیٹنگ آرڈر کیا ہونا چاہیے اور بلی اسٹین لیک جیسے خطرے سے کیسے نمٹنا ہے۔ یہ نہ ہو کہ ٹورنامنٹ گزر جائے اور پاکستانی بیٹسمین سوچتے ہی رہ جائیں کہ یہ بلی ا سٹین لیک کون ہے۔
 

شیئر: