Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عصر حاضر میں عربوں کا المیہ

عبدالعزیز السماری ۔ الجزیرہ
21ویں صدی کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں عرب دنیا کے متعدد علاقے بحرانوں اور آفات و مصائب سے دوچار ہوئے۔ قبائلی، نسلی ، علاقائی اور مذہبی طاقتیں اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہوئیں۔ شواہد بتا رہے ہیں کہ کئی عرب ملکوں میں تقسیم در تقسیم کا مزید عمل جنم لے گا۔ علاوہ ازیں سنی مسلمانوں اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان تاریخی بگاڑ ماضی کے کسی بھی دور کے مقابلے میں زیادہ فتنے اور زیادہ ہنگامے برپا کریگا۔ یہ انسانی تاریخ کے تاریک ادوار سے ملتا جلتا منظر نامہ پیش کریگا۔ عرب ہر روز اپنے مصائب اور اپنی غلطیوں کا تذکرہ کرکے خود اذیتی کا شوق بڑے پیمانے پر پورا کررہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ شاندار ثقافتی ورثے کے مالک خود کو فی الوقت ساحل نجات سے کہیں زیادہ دوزخ کے قریب پا رہے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ عربوں نے استعماری طاقتوںسے آزادی کیلئے جدوجہد کی۔ اپنے شاندار ماضی کے تحفظ کیلئے جہاد کیا۔ اس کے بعد زندگی کے مختلف شعبوں میں ارتقاءاور انسانیت کے کاررواں کی ہمرکابی کی دوڑ میں بری طرح سے فیل ہوگئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب دنیا کا منظر نامہ چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے۔ عربوں کو اس سیاہ منظرنامے کے حوالے سے 5بڑے چیلنج درپیش ہیں۔
پہلا چیلنج یہ ہے کہ موثر ریاستی اداروں والی خود مختار ریاستیں قائم ہوں۔ یہ ریاستیں باہم دگر تعاون کرنے والے عوام پر منحصر ہوں۔ یہ شفافیت اور خود اعتباری کے اصولوں پر قائم ہوں۔ حقوق و فرائض میں توازن پیدا کریں۔ اسی کے ساتھ اس امر کا بھی پورا اہتمام ہو کہ جھوٹے نعروں اور ناقابل تسخیر رہنما کی تشہیری مہم کو پس پشت ڈالیں۔ ترقیاتی پروگراموں پر انحصار کریں۔ پروپیگنڈے سے زیادہ سے زیادہ دوررہیں۔ جدوجہد کیلئے صبر و تحمل ، عزم و ثبات ، یقین محکم کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
دوسرا چیلنج ٹیکنالوجی اور علوم و معارف سے وابستگی کی استعداد کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا ہے۔ اس حوالے سے عربوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایجادات کے پروانو ں کا اندراج کرائیں۔ ایجاد کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ نئی صدی میں کاپی رائٹ، جدید اقتصاد کے حوالے سے آمدنی کا بنیادی ذریعہ بن چکا ہے۔ جتنی زیادہ ایجادات ہونگی اتنا ہی زیادہ عالمی اقتصاد میں مسابقت کا رتبہ بلند حاصل ہوگا۔ پوری دنیا تیزی کیساتھ ترقی کررہی ہے۔ پیداواری ذرائع کو جدید خطو ط پر استوار کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ عربوں کے پاس اس حوالے سے زریں موقع ہے۔ انکے یہاں خام مواد وافر مقدار میں موجود ہے۔دیگر اس سے محروم ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے یہاں اقتصادی اور انسانی معجزے برپا کئے ہیں۔
تیسرا چیلنج یہ ہے کہ اسلام کےساتھ شایان شان طریقے سے معاملہ کیا جائے۔ اسکا تقاضا ہے کہ پورے معاشرے کو لیکر چلنے والی قدریں رائج کی جائیں۔ مشترکہ تشخص ، باہمی تعاون کو اپنی شناخت بنایا جائے۔ تفرقہ و انتشار اور خونریزی کے سلسلے کو پس پشت ڈالا جائے۔ اقتدار میں ماضی کے طور طریقوں کی بازیابی کے کوشاں اور منصوبہ ساز شدت پسند عناصر کو الگ تھلگ کیاجائے۔ اسکے لئے تعلیم پر بھی توجہ دینا ہوگا اور محنت پربھی۔
چوتھا چیلنج یہ ہے کہ سیاسی اور اقتصادی نظام میں انقلابات برپا کرنے والے نعرے بازوں سے نجات حاصل کی جائے۔ عرب سوشل ازم کا نعرہ بڑی قوت سے لگایا گیا تھا۔ناکام ثابت ہوا۔ اسی طرح کمیونزم کے علمبرداروںنے پوری عر ب دنیا کو عرو ج و ترقی کے انقلاب کے سبز باغ دکھائے تھے۔ عملی طور پر انہوں نے عرب ممالک کو بڑی جیل میں تبدیل کردیا تھا۔
پانچواں چیلنج یہ ہے کہ جدید استعماری طاقتوں کے اثر و نفوذ اور بڑی طاقتوں کو قدرتی وسائل میں شریک بنانے سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
آخری بات یہ ہے کہ عرب ممالک ثقافتی مشن شروع کریں۔ اسکے تحت لوگوں کے حقو ق اور آزادیوں کا احترام کیا جائے۔ بہتر زندگی کے مواقع مہیا کئے جائیں۔ معاشرے کے فروغ میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیا جائے۔ موجودہ عرب منظر نامہ بڑا مختلف ہے۔ بعض قائدین کی یہ غلطی تھی کہ انہوں نے اس علاقے کو کمزور رکھنا ضروری سمجھ لیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ریاستی نظام طاقتور ہو۔ عوام پر انکی آہنی پکڑ ہو۔ پانچ عشروں کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ ڈرانے دھمکانے والے ریاستی عناصر طاقت کے نمائندہ نہیں ہوتے بلکہ داخلی شکست اور اندرونی انحطاط کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: