ایاد ابو شقرا ۔ الشرق الاوسط
صورتحال کا منطقی جائزہ بتا رہا ہے کہ اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے” قومی ریاست “ کے قانون کا اجراءغیر متوقع نہیں بلکہ توقع کے عین مطابق ہے۔اس کے بموجب اسرائیل کو یہودی ریاست بنادیا گیا ہے جبکہ وہاں آباد عرب اقلیت کو عملی طور پر دوسرے درجے کے شہری میں تبدیل کردیا گیا۔
مقامی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر تمام تبدیلیاں کسی استثنیٰ کے بغیر اسی جہت میں چل رہی تھیں۔ حد تو یہ ہے کہ سفارتی زبان بھی انتہائی باریک بینی سے استعمال کی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹیوڈور ہیروڈز نے جو 122برس قبل خواب دیکھا تھا اب وہ مختلف شکل اختیار کر گیا ہے۔ وہ قوم جو مشرق، مغرب ، شمال اور جنوب میں مجبور و مظلوم سمجھی جارہی تھی اب ویسی نہیں رہی۔
اب یہ خصوصیت یہودیوں کے بجائے دوسری قوم کے نصیب میں آگئی ہے۔ مسٹر بلفور نے جو زبان یہودیوں کو تاریخی سہولت فراہم کرنے کیلئے استعمال کی تھی اب اس کی حیثیت اس روشنائی کے بقدر بھی نہیں رہ گئی جو اس تحریر میں استعمال کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملکہ برطانیہ کی حکومت یہودی عوام کیلئے قومی وطن کے قیام کو ہمدردانہ انداز میں دیکھ رہی ہے او راس مقصد کے حصول کو آسان بنانے کیلئے ہر ممکن جدوجہد کریگی۔ اس بات کا پورا خیال رکھا جائیگا کہ ایسا کرنے پر فلسطین میں مقیم غیر یہودی فرقوں کے مذہبی اور شہری حقوق پر کسی طرح سے کوئی فرق نہیں پڑیگا اور نہ ہی کسی ملک میں یہودیوں کو حاصل سیاسی حقوق اور سیاسی پوزیشن متاثر ہوگی۔
فلسطین پر برطانوی اقتدار کے زمانے میں ”قانون اراضی“ کے تحت بہت سارے اقدامات کئے گئے۔ تیزی سے یہودیوں کو دنیا بھر سے فلسطین منتقل کیا گیا۔ 1936ءکے انقلاب کا مقابلہ کیا گیا۔ ان اقدامات نے سچ مچ اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی۔
اسکیم شروع ہی سے واضح تھی۔ بعد میں مزید واضح ہوگئی البتہ عرب اور فلسطینی اس اسکیم کی حقیقت جاننے اور اس اسکیم کے حامی ممالک کے وسائل سے واقفیت کیلئے تیار نہیں تھے۔ فلسطینی اور عرب حالات اور واقعات کو غلط طریقے سے سمجھتے او ر ردعمل دیتے رہے۔ بحران پر بحران پیدا ہوتے رہے۔ عربوں کے مزید علاقے انکے ہاتھ سے نکلتے رہے۔ یہودی آباد کاروں کی تعداد بڑھتی رہی۔ ساتھ ہی ساتھ انتہا پسندانہ عمل میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔
شروع شروع میں اسرائیل آنے والے بیشتر یہودی کاشتکار شاعرانہ مزاج رکھنے والے اور لیبر یونینوں کے نمائندے تھے۔ وہ ان معاشروں سے نقل مکانی کررہے تھے جہاں ان پر جبر و تشدد روا رکھا جارہاتھا۔ یہ آباد کار اجتماعی زرعی فارموں اور کوآپریٹو سوسائٹیوں کے سائبان تلے جمع ہوگئے۔ ان کے لئے زمینیں یہودی ایجنسی اور صہیونی ادارو ںنے حاصل کی۔ ان اداروں نے فلسطین پر برطانوی انتداب کے قوانین ملکیت سے ناجائز فائدہ اٹھایا۔
یہ درست ہے کہ 1936ءکے انقلاب نے تلخیوں کو اجاگر کیا۔ یہودیوں کی نقل مکانی پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔
آگے چل کر اسرائیل میں عربوں کے خلاف جنگ کی علمبردار نسل نے سر اٹھایا۔ انکے یہاں اپنے اطراف موجود عربوں سے شدید نفرت کا کھل کر اظہار کیا گیا۔ عربوں کی موجودگی کو یہودی قومیت کیلئے پرُخطر قرار دیا گیا۔ 1967ءکے المیے کے بعد مسلح فلسطینی تحریک مزاحمت کے ساتھ ساتھ عربوں سے نفرت بڑھتی چلی گئی۔اسرائیل کی نئی نسل میں پرامن بقائے باہم کا امکان مشکوک ہوگیا۔ آگے چل کر بائیں بازو کے فلسطینیوں اور عربوں کے رجحانات میں بھی پسپائی دیکھنے میں آئی۔ اسرائیلی ووٹر فوج کے جنرلوں کے قبضے میں چلے گئے۔ آباد کارصہیونی جماعتوں نے زیادہ متعصبانہ موقف اختیار کرلیا۔ دوسری جانب عوامی جنگ آزادی کے فارمولے خزاں کے پتوں کی طرح گرتے چلے گئے۔ اسرائیل کے بائیں بازو کے رہنماﺅں کے ساتھ گفت و شنید کی استعداد رکھنے والی فلسطینی تنظیمیں بھی ناپید ہوگئیں۔
اسرائیل کو یہودی ریاست بنانے کا فیصلہ دائیں بازو کے عناصر اور ہر جگہ نسلی تفریق کے علمبردار لوگوں کی فتوحات کا حتمی نتیجہ ہے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ وہ ریاست جو مذہب کی بنیاد پر قائم ہوئی اسے کیونکر مکمل مذہبی ریاست بنائے جانے پر کسی کو حیرت ہو۔ خاص طور پر جبکہ ایسی حالت میں یورپی ممالک کے بڑے رہنما خصوصاً یورپی تمدن کی اولاد امریکہ کو مذہبی اور نسلی تفریق کے نعروں سے کوئی شرم بھی نہیں آرہی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭