Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دیدارِ کعبہ ، آتش شوق میں کمی کیوں نہیں آتی

  
 آخر اس جذب و شوق میں کیا راز ہے ؟ وہ کیا اسرار و رموز ہیں جو بظاہر ایک سادہ سی عمارت میں پنہاں ہیں ؟

 
* * *مولانا محمد عابد ندوی۔ جدہ  ***
حج ، اسلام کا اہم ترین رکن ہے جس کی ادائیگی زندگی میں کم از کم ایک بار ہر اس شخص پر ضروری ہے جو بیت اﷲ شریف تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ حج کیا ہے ؟ اس کے افعال ومناسک کیا ہیں ؟ اور یہ عبادت کس طرح انجام دی جاتی ہے ؟ یہاں اس طریقہ کی تفصیل اورجزئیات و احکام کا بیان مقصود نہیں ، اجمالی طورپر حج کا خاکہ کچھ اس طرح ہے :
    دنیا جہاں میں سب سے محترم اور امن والے شہر مکہ مکرمہ میں اﷲ تعالیٰ کا ایک محترم اور قابل عظمت گھر ہے جس کی زیارت کا شوق اور دیدار کی تڑپ ہر صاحب ایمان کے دل میں ہوتی ہے۔ جب تک وہ ایک نظر اس کو دیکھ نہ لے اس کی آتش شوق سرد نہیں پڑتی۔ وہ دنیا کے جس کونہ اور گوشہ میں بھی ہو اس کا دل اس گھر کی زیارت کے لئے بے قرار رہتا ہے ۔ یوں بھی وہ روزانہ کم از کم 5  بار اپنی نمازوں میں اسی گھر کی طرف رُخ کرتا اور چشم تصور سے اس کا نظارہ کرتا ہے ، پھر جب اﷲ تعالیٰ استطاعت و توفیق دے اور وہ اس گھر تک پہنچنے کے قابل ہوجائے تو گھر بار ، کاروبار سب کچھ چھوڑ کر اور کچھ عرصہ کے لئے بیوی بچوں سے بھی جدائی اختیار کرکے گھر سے نکل پڑتا ہے۔
    خانۂ کعبہ کا طواف یعنی اس کے گرد 7چکر لگانا ، اسی طرح صفا و مروہ کے درمیان سعی اور اس کے درمیان بھی طواف کعبہ کی طرح 7 پھیرے لگانا ، منیٰ ، مزدلفہ اور عرفات کے میدانوں میں پڑاؤ ڈالنا اور متعین وقتوں میں وہاں قیام کرنا ، اسی طرح قربانی و حلق اور جمرات پر کنکریاں مارنا وغیرہ یہ وہ اعمال ہیں جو’’ عبادت ِحج ‘‘ کا خلاصہ اور اس کے ظاہری مناسک ہیں ، جن کی ادائیگی کے لئے بندۂ مومن کو استطاعت کی شرط پر کم از کم زندگی میں ایک بار موسم حج میں مشاعر مقدسہ پہنچنے کا حکم ہے۔ یہ عبادت نہ صرف بڑی فضیلت والی ہے اور اس کے مناسک پر بھی بے انتہا اجر و ثواب کی خوشخبری سنائی گئی ہے بلکہ اس عبادت کو اسلام کا اہم ترین رکن قرار دیا گیا جس کے بغیر دین اسلام کی عمارت ہی قائم نہیں رہ سکتی ۔ اس عبادت کی ادائیگی کے دوران ( حالت ِاحرام میں ) حاجی پر کچھ پابندیاں بھی ہوتی ہیں جن کا اسے لحاظ کرنا ہوتا ہے ، وہ نہ خوشبو لگاسکتا ہے ، نہ ناخن و بال تراش سکتا ہے ، نہ سلا ہوا کوئی لباس زیب تن کرسکتا ہے اور نہ بیوی سے قربت اور خواہش نفسانی کی تکمیل اس کے لئے روا ہے بلکہ اس حوالہ سے کوئی گفتگو اور بات چیت کے ذریعہ تسکین بھی اس کے لئے جائز نہیں ، نہ وہ شکار کرسکتا ہے اور نہ شکار کی طرف کسی کی رہنمائی کرسکتا ہے۔
    وہ کیا حکمت ہے جس کی وجہ سے حاجی پر یہ پابندیاں عائد کی گئیں ؟ جبکہ یہ سارے ہی کام جن سے حاجی کو روکا گیا ، عام حالات میں محرمات کے قبیل سے نہیں۔ آدمی عمدہ سے عمدہ سلا ہوا کپڑا پہنے ، خوشبولگائے ، یا شکار کرے ، عام حالات میں اس پر کوئی پابندی نہیں آخر حج کی عبادت ادا کرتے ہوئے احرام کی حالت میں ، ان کاموں کے کرنے نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ اسی طرح حج کے سارے ہی افعال بظاہر معمولی بلکہ عقل پرستوں کی نظر میں ’’ سمجھ سے بالا تر ‘‘ ہیں ، ایک چوکور سادہ سی عمارت ( خانہ کعبہ ) کے گرد پھیرے لگانا ، 2 پہاڑیوں ( صفا و مروہ ) کے درمیان چکر کاٹنا ، اسی طرح ایک ستون یا دیوار ( جمرات ) پر7،7 کنکریاں پھینکنا وغیرہ ، آخر وہ کیا اسرار و رموز اور حکمتیں ہیں جن کے سبب حاجی کو اس کا حکم دیاگیا ؟ اور انہیں انجام دینے کے لئے اس جگہ بلایا گیا ؟ اسی طرح ان افعال و مناسک کو عبادت کا درجہ دے کر اسے ’’ حج ‘‘ سے موسوم کیا گیا اور حج کو دین اسلام کا اہم ترین رکن قرار دیا گیا ؟
    اﷲ تعالیٰ حکیم ہے۔ اس کا کوئی حکم حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتا ۔یقینا حج اورمناسک ِحج کی بھی بے شمار حکمتیں ہیں اور ان میں کئی اسرار و رموز پنہاں ہیں ، اسی طرح اس عبادت کے اعلیٰ مقاصد اور اہداف ہیں جو اسی عبادت کی ادائیگی سے حاصل ہوسکتے ہیں ، ان بلند مقاصد اور حکمتوں کے پیش نظر اس عبادت کو نہ صرف مشروع کیا گیا بلکہ اسے اسلام کے اہم ترین رکن کا درجہ دیا گیا جس کا انکار تو کفر ہے ہی، اس سے بے نیازی یعنی اس عبادت کی ادائیگی میں ٹال مٹول اور کوتاہی پر بھی سوئے خاتمہ کا ڈر رہتا ہے کہ حدیث رسول اﷲ کی روشنی میں کوئی استطاعت و قدرت کے باوجود بلا عذر حج نہ کرے تو اﷲ تعالیٰ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ ایسا شخص یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہو کر ، (شعب الایمان، بیہقی )۔
     اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لوگوں میں اعلانِ حج کا حکم دیتے ہوئے فرمایا  :
     اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو ، وہ تمہارے پاس پیدل اوردبلے پتلے اونٹوں پرسوار دور دراز راستوں سے آئیں گے تاکہ اپنے فائدوں کا مشاہدہ کرلیں ( اور اس کو پالیں)(الحج27،28)۔
    قرآن پاک کی شہادت ہے کہ حج میں حجاج کے لئے بے شمار فائدے ہیں جو وہ حج کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں۔ان منفعتوں کے حصول کے لئے ہر سال موسم حج میں دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں اہل ایمان سفر کی مشقتیں اور صعوبتیں برداشت کرکے مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں ، وہ کیا فائدے اور مقاصد ہیں ؟ اسی طرح حج اور اعمالِ حج کی کیا حکمتیں ہیں ؟ یہ ایک اہم موضوع ہے جس پر بعض اہل علم اور سلف صالحین نے روشنی ڈالی ہے اور غور و فکر کے ذریعہ ان اسرار و رموز سے پردہ ہٹانے کی کوشش کی ہے جو ان مناسک میں پوشیدہ ہیں ، ان سے واقفیت ، اسی طرح حج کی روح اور اس کے بلند مقاصد کو جاننا نہ صرف مفید اورمعلومات میں اضافہ کا باعث ہے بلکہ حجاج کرام کے لئے یہ کسی حد تک ضروری بھی ہے تاکہ وہ حج جیسی اہم عبادت کو پورے اہتمام اور ذوق و شوق کے ساتھ ادا کرسکیں ، حج سے صحیح فائدہ اٹھائیں ، حج کے فوائد پانے اور اس کی برکتوں کو سمیٹنے کی بھرپور کوشش کرسکیں ۔
    اس میں شک نہیں کہ مکہ مکرمہ سے دور رہنے والے اہل ایمان کے دلوں میں اس مقدس مقام پر حاضر ہونے اور اﷲ تعالیٰ کے محترم گھر ’’ کعبۃ اﷲ شریف ‘‘ کو دیکھنے کا بے پناہ شوق پایا جاتا ہے۔ کبھی اس شوق و محبت سے مجبور ہوکر وسائل سفر سے محروم اور بے بس انسان پاپیادہ ہی نکل پڑتا ہے۔ تاریخ کے صفحات پر ایسے بے شمار واقعات محفوظ ہیں۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مقدس مقام کی حاضری سے بندۂ مومن کی طبیعت سیر نہیں ہوتی۔ دیدارِ کعبہ سے مشرف ہوکر بھی ’’ آتش شوق ‘‘ میں کمی نہیں آتی۔ وہ حج کی سعادت سے بہرہ ور ہوکر ، انوار و تجلیات الٰہیہ سے اپنا دامن بھر کر واپس اپنے وطن پلٹتا ہے تو غم فراق سے شکست خوردہ ، جدائی کے صدمہ سے نڈھال ، اشکبار آنکھوں کے ساتھ ، اس شدید تمنا اور جذبہ کو اپنے سینہ میں لئے ہوئے کہ کاش ! دوبارہ بلکہ بار بار اسے یہاں آنا نصیب ہو ، آخر اس جذب و شوق میں کیا راز ہے ؟ وہ کیا اسرار و روموز ہیں جو بظاہر ایک سادہ سی عمارت ( کعبۃ اﷲ ) میں پنہاں ہیں ؟ دنیا میں ظاہری اعتبار سے اس سے زیادہ بلند و بالا اور خوبصورت عمارتیں ہیں جو ’’ عجائبات ِعالم ‘‘ میں شمار ہوتی ہیں لیکن کسی عمارت کی طرف دلوں میں ایسی کشش نہیں پائی جاتی جو کشش اہل ایمان کے دلوں میں کعبۃ اﷲ کی طرف پائی جاتی ہے ، اہل علم نے ان اسرار کو جاننے کی کوشش کی ہے ۔
    رب کعبہ کی طرف سے اس کے دوست حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تعمیر کعبہ کا حکم ملا ، اس کی جگہ متعین کی گئی اور سابقہ بنیادوں کی نشاندہی کی گئی تو آپؑ نے اپنے سعادت مند فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مدد سے تعمیر کا کام شروع کیا ۔ شوق ومحبت سے سرشار اور رضائے الٰہی کے جذبہ سے کعبۃ اﷲ شریف کی دیواریں اُٹھاتے اور ساتھ یوں دُعا بھی کرتے جاتے: اے ہمارے پروردگار ! ہم سے اس خدمت کو قبول فرما ، بے شک آپ سننے جاننے والے ہیں (البقرہ127)۔
    اسی طرح تعمیر کعبہ سے بہت پہلے اﷲ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی حضرت ہاجرہ اور شیر خوار فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بیت اﷲ ( کی جگہ ) کے قریب بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ کر واپس جانے لگے تو یوں دُعاء کی:
    اے ہمارے پروردگار ! میں نے اپنی بعض ذریت اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے ، اے ہمارے پروردگار ! یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم کریں ، پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے اور انہیں پھلوں کی روزی عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں ( ابراہیم37)۔
    یہ معمار ِکعبہ کا خلوص اور ان کی دُعاؤں کا اثر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس گھر کو ایسی قبولیت اور مرجعیت عطا فرمائی کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں اہل ایمان دنیا کے مختلف گوشوں سے اس طرف کھنچے چلے آتے ہیں ، جس طرح شمع کے گرد پروانے جمع ہوتے اورلوہے کے ذرات مقناطیس کی طرف کھنچتے ہیں۔ یہاں بعض صحابہ و تابعین سے یہ اہم نکتہ بھی منقول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دُعاء کرتے ہوئے ’’ فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیہم ‘‘  فرمایا۔عربی قواعد کے لحاظ سے یہاں’’ من تبعیض‘‘ ( بعضیت بتلانے ) کے لئے ہے ، یعنی ’’ کچھ لوگوں کے دل ‘‘ اگر وہ ’’ فاجعل افئدۃ الناس تھوی الیہم‘‘ (پس تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے ) فرماتے تو کافر و مشرک ، یہود و نصاریٰ ، سب ہی اس طرف ٹوٹ پڑتے اور دیدار کعبہ کے لئے بے قرار اور مشتاق ہوتے ۔ آپؑ نے دُعاء میں ’’افئدۃ من الناس‘‘( بعض لوگوںکے دل ) فرمایا ، اس لئے اس دُعاء کی تاثیر اہل ایمان تک محدود رہ گئی ( تفسیر ابن کثیر)۔
    الغرض اﷲ تعالیٰ نے اس محترم گھر میں ایسی کشش اور مقناطیسی اثر رکھا ہے کہ اہل ایمان کے دل اس گھر کی طرف بے اختیار کھنچتے ہیں اور وہ دور دراز مقامات سے سفر کرکے اس گھر کی طرف آنے میں وہ راحت و سکون محسوس کرتے ہیں جس کے سامنے سفر کی صعوبتیں اور مشقتیں بے معنی ہوجاتی ہیں بلکہ وہ بھی لذت اور کیف و سرور لئے ہوتی ہیں ، یہ دور سائنسی ایجادات ، تحقیقات اور انکشافات کا دور ہے ، عصر حاضر میں سائنسدانوں کی عمر بھر کی عرق ریزی اور دن رات کی محنت اور ریسرچ سے جوسائنسی انکشافات اور حقائق سامنے آئے اور آتے رہتے ہیں ان میں سے بیشتر وہ ہیں جن کا واضح تذکرہ یا ان کی طرف اشارے قرآن و حدیث میں موجود ہیں ۔ اسلام یہ بتاتا ہے کہ وہ جگہ جہاں کعبۃ اﷲ شریف کی عمارت قائم ہے ، زمین کا وہ قطعہ ہے جس کی تخلیق سب سے پہلے ہوئی ، پھر اسی قطعۂ ارضی سے ساری زمین پھیلادی گئی اور پورا کرۂ ارضی وجود میں آیا (’’زمین کا مرکز ، گر ینچ یا مکہ‘‘ ، طارق اقبال سودھد روی، روشنی شمارہ11 ستمبر2009ء ) ۔
    اسی طرح شہر مکہ اورخاص طورپر کعبۂ مشرفہ کی جگہ روئے زمین کا مرکز ہے۔ آج سائنسی تحقیقات یہ ثابت کرچکے ہیں کہ مکہ مکرمہ کرۂ ارض کا مرکز ہے اور کعبۃ اﷲ زمین کے اس مقام پر واقع ہے جہاں زمینی مقناطیسی قوتوں کا اثر صفر ہے۔ یہ زمین مقناطیس کے شمالی اور جنوبی قطبوں کے بالکل درمیان میں ہے ، اگر یہاں قطب نما رکھ دیا جائے تو اس کی سوئی حرکت نہیں کرے گی ، اس لئے کہ اس مقام پر شمالی قطب اور جنوبی قطب کی کشش ایک دوسرے کے اثر کو زائل کردیتی ہیں ۔ نیل آرم اسٹرانگ نے اپنے خلائی سفر میں اس بات کا بھی مشاہدہ کیا تھا کہ زمین کے ایک خاص مقام سے کچھ خاص قسم کی شعائیں نکل رہی ہیں جو مسلسل اوپر کی طرف جارہی ہیں۔ اس نے اپنے آلات اور کیمروں کے ذریعہ اس خاص مقام کو جاننے کی کوشش کی تو یہ حیرت انگیز حقیقت سامنے آئی کہ وہ مکہ شہر ہے بلکہ اگر بالکل صحیح طورپر کہا جائے تو وہ کعبہ ہے جو آسمانی کعبہ ’’ بیت معمور ‘‘ کی محاذا ت میں ہے اور بیت معمور عرشِ الٰہی کے نیچے ہے۔یقینا کعبۃ اﷲ اور روئے زمین پر اﷲ تعالیٰ کے اس گھر کا ، انوار و تجلیات الٰہیہ سے خاص تعلق ہے ، ان میں وہ کشش اور انجذابی قوت ہے جو اہل ایمان کے دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے ، کعبۃ اﷲ کی طرف سفر کرنے والا جوں جوں اس مقدس گھر اور شہر مکہ کے قریب ہوتا ہے زمین کی مقناطیسی قوت اور جاذبیت و کشش کے بوجھ سے باہر ہوتا ہے جس کے سبب وہ غیر محسوس طورپر اپنے اندر عجیب توانائی اور راحت و سکون محسوس کرتا ہے ، جیساکہ کوئی انسان نہر میں پانی کے بہاؤ کی سمت تیر رہا ہو نہ کہ مخالف سمت میں۔ الغرض بعض سائنسی تحقیقات سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ مکہ مکرمہ شہر، جغرافیائی لحاظ سے ایسی جگہ واقع ہے جو روئے زمین کا اورزمینی کشش کا مرکز ہے۔ زمین کی اصل اور مرکز ہونے کی وجہ سے قرآن پاک میں مکہ مکرمہ شہر کو ’’اُم القریٰ ‘‘ بھی کہا گیا یعنی دنیا جہاں کی بستیوں کی ماں ، بچہ کا دوڑ کر ماں کی طرف آنا اور اس کی آغوش ِمحبت میں پناہ لے کر راحت و سکون محسوس کرنا ، ایک حقیقت ہے ۔بعض روایات اس مضمون کی منقول ہیں کہ اﷲ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب کعبہ پر تجلی فرماتا ہے جس کے سبب قلوب اس کی طرف مشتاق ہوتے ہیں ۔ اسی طرح یہ بھی منقول ہے کہ بنائِ کعبہ کے وقت ہی اﷲ تعالیٰ نے کعبہ کی طرف یہ وحی فرمائی کہ بے شک میں نور اُتارنے والا ہوں اور ایسے لوگ پیدا کرنے والا ہوں جو تیری طرف ایسے مشتاق ہوں گے جیسے کبوتری انڈے کی طرف ہوتی ہے اور جو تیری طرف اس طرح دوڑ کر آئیں گے جس طرح پرندہ اپنے بچہ ( چوزہ ) کی طرف دوڑتا ہے ۔
مزید پڑھیں:- - - -جب حجر اسود کا بوسہ ممکن نہ ہو !

شیئر: