Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان حج رضاکار گروپ

***محمد مبشر انوار***
آقائے نامدار محمد مصطفےؐ کے دین مبین کو کرہ ارض پر آئے قریباً ساڑھے چودہ سو سال (1439)ہو چکے اور اپنی سچائی کے باعث دین اسلام دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے اور اس کے پیرو کاروں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اللہ کے پیغام کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مطہر تک مسلسل قائم و دائم رہا اورکم و بیش ایک لاکھ 24 ہزار پیغمبران  اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت بیان کرتے ہوئے ،مخلوق خدا کو ،اللہ کے احکامات کی تعمیل پر قائل کرتے رہے۔ دین اسلام کی کتنی خوبصورت اور گہری بات ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن کریم میںقبل از اسلام تمام ادیان کو باطل قرار دے کر محمد مصطفے ؐ کے دین کو اپنانے کا حکم تو دیا مگر کسی ایک بھی موقع پر اپنے پیغمبران کی پیغام رسانی سے انکار نہیں کیا بلکہ ہر جگہ یہی بیان ہوتا ہے کہ میرے بندوں/پیغمبروں/رسولوں نے اپنا کام بخوبی ادا کیا مگر ان کے پیروکار/امت ہی گمراہ رہے،مسلمانوں کو واشگاف الفاظ میں اپنے محبوبؐ سے قبل تمام انبیاء پر غیر مشروط ایمان کوہی ایمان کی بنیادی شرط قرار دیا۔ان کی تکریم و تعظیم ایمان کی بنیادی جزو قرار پائی۔ دین اسلام ،غیر مسلموں کی مسلسل ریشہ دوانیوں اور مخالفت کے باوجود انتہائی تیزی کے ساتھ پوری دنیا میں مقبول اور پھیل رہا ہے،جو ایک طرف اس کی آفاقیت و سچائی کا ثبوت ہے تو دوسری طرف اس کے امن پسند ہونے کی دلیل ہے۔ غیر مسلم اپنے مفادات کے حصول(جیسے مغلوبیت سے بچنے،عوام کو گمراہ کرنے،اسلام کی من پسند تشریح کرنے،چند انتہا پسند گروہوںکی پشت پناہی کرتے ہوئے اسلام کو متشدد ثابت کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف رہے)لیکن اس کا ردعمل برعکس ہوا کہ اقوام مغرب اسلام کی تحقیق میں مشغول ہو گئی۔ مغربی و مہذب اقوام جو پہلے حال مست تھی،اسلام کے نام سے ناواقف تھی،وہ اسلام سے نا صرف واقف ہوئی بلکہ جو حقیقت پسند اور سچ و آگہی کے متلاشی تھے،وہ دین اسلام کی پناہ میں جوق در جوق شامل ہو گئے،جو کام بڑے بڑے علماء سے نہ ہو سکا وہ خود مغرب و مہذب دنیا کے خوفزدہ حکمرانوں نے کر دیا۔ 
دین اسلام کے بنیادی ارکان میں پانچواں رکن حج،ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے،آج دین اسلام کے حلقہ میں شامل انسانوں ،دنیا کی آبادی ،کی تعداد کم و بیش ایک چوتھائی ہو چکی ہے اور دنیا بھر میں صاحب استطاعت مسلمانوں کی اکثریت پائی جاتی ہے جن کی دلی خواہش و تمنا یہی ہے کہ وہ اسلامی فرائض کی ادائیگی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ رکھیں اور اپنی پہلی فرصت میں بالخصوص حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کریں۔یہی وجہ ہے کہ ہر سال زائرین حج کی تعداد میں معتد بہ اضافہ ہوتا ہے اور سعودی حکومت کی ہر ممکن کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ زائرین کے لئے زیادہ سے زیادہ مراعات کی فراہمی کو نہ صرف یقینی بنائیں بلکہ حج کی مشقت کو سہل کیا جائے تا کہ زائرین مطمئن ہو کر مناسک حج ادا کر سکیں۔اس مقصد کی خاطر سعودی حکومت کے بیشتر افرادی وسائل ،دوران حج ،مقامات مقدسہ پر اپنے فرائض ادا کرتے نظر آتے ہیں لیکن اس کے باوجود زائرین حج کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد ،میسر وسائل (افرادی و انفراسٹرکچر)کو ناکافی کر دیتی ہے۔ انفراسٹرکچر پر سعودی حکومت کی خاص توجہ مرکوز ہے اور سعودی حکومت جدید ترین سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ہمہ وقت کمر بستہ ہے اور بہت حد تک اس میں جدت اور سہولت فراہم کر چکی ہے جبکہ اس میں ’’ھل من مزید‘‘ کے مترادف مسلسل مصروف عمل ہے۔ اصل مسئلہ افرادی قوت کا ہے کہ دوران حج مختلف ممالک سے آئے ہوئے حجاج کرام کے مسائل سے فقط سعودی افرادی قوت سے نبرد آزما ہونا کار وارد ہے کہ ہر ملک کے زائرین مختلف رویوں اور توقعات کے ساتھ حج بیت اللہ کے لئے آتے ہیں۔ بالخصوص مغربی ایشیا سے آئے ہوئے حجاج کی عمر وصحت ،کم علمی،زبان سے ناواقفیت،پہلے عالمی سفرکے پس منظر میں اراکین حج کی ادائیگی میں حد درجہ مشکلات پیش آتی ہیں،جن سے نپٹنا بسا اوقات سعودی افرادی قوت کے لئے مشکل ہی نہیں ،ناممکن ہو جاتا ہے۔ 
اس پس منظر میں ،جدہ میں مقیم چند پاکستانیوں نے حجاج کی مشکلات کو ذہن میں رکھتے ہوئے،ضیوف الرحمن کی خدمت کے ساتھ ساتھ سعودی حکومت کی مدد کرنے کا بیڑا اٹھایا،اور 2011میں مختلف مکاتب فکر و شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے 85افراد نے مل کرپاکستان حج رضا کار گروپ تشکیل دیا،جس کا اولین بنیادی مقصدپاکستان سے آئے ہوئے حجاج کی مدد کرنا تھا ،ان کی مشکلات کو سہل کرنا تھا تا کہ وہ یکسوئی سے مناسک حج ادا کر سکیں،جبکہ ثانوی طور پر اس کا مقصد خادم حرمین شریف اور سعودی افرادی قوت سے کام کے بوجھ کو کم کرنا تھا۔ ابتداء میں اس رضا کار گروپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر بتدریج آج یہ رضا کار گروپ ہر متعلقہ محکمہ میں ،اپنی بے لوث خدمات کے باعث،قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور سعودی حکومتی کارپرداز دوران حج اس رضاکار گروپ کو اپنا دست و بازو سمجھتے ہیں۔ پاکستان حج رضا کار گروپ ،جو اولاً صرف جدہ سے 85اراکین کی مدد سے روبہ عمل ہواتھا،کی تعداد اس وقت ہزاروں سے تجاوز کر چکی ہے اور کام کی ضرورت کے حوالے سے اس میں مزید رضاکاروں کی شمولیت کا امکان ہمہ وقت موجود رہتا ہے ۔ اس وقت سعودی عرب کے مختلف شہروں سے اس گروپ میں رضاکار شامل ہیں جنہیں نہ صرف پاکستانی سفارتخانے، قونصلیٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان حج مشن کا تعاون حاصل ہے بلکہ چند ایک سعودی غیر سرکاری تنظیمیں بھی اس کی سر پرستی کرتی رہی ہیں۔ گروپ کا بنیادی مقصد و منشور اس امر کا تقاضہ کرتا ہے کہ رضاکار کلیتاً رضائے الہی کی خاطر ضیوف الرحمن کی خدمت کے جذبے سے سرشار،زائرین حج کی خدمت میں مشغول رہیں گے،اور اس رضا کار گروپ کا رکن بننے کی اہلیت صرف وہ لوگ ہوں گے،جو خود حج ادا کر چکے ہوں،مناسک حج سے کلیتاً واقفیت رکھتے ہوں،منیٰ و مزدلفہ و عرفات سے واقف ہوں،تا کہ نہ صرف زائرین کو مناسک حج سے متعلق رہنمائی کر سکیں بلکہ انہیں مقامات مقدسہ میں کھو جانے پر ان کے خیمہ جات پر بآسانی پہنچا سکیں،مریضوں کو ہسپتال پہنچانا، زائرین کے بیمار ہونے پر انہیں وہیل چیئر پر طواف زیارہ کی سہولت فراہم کرنا بھی اس خدمت کا حصہ ہے۔ اس مقصد کی خاطر ان رضاکاران کی باقاعدہ تربیتی نشستیں منعقد کی جاتی ہیں،سینئر اراکین کی مجلس عاملہ مکہ کے علاقہ عزیزیہ میں اپنا ہیڈ آفس بنا کر ہمہ وقت اپنے رضاکاروں کی پشت پناہی کو میسر ہوتی ہے۔ سینئر اراکین کی مجلس عاملہ اور رضاکار بنیادی طور پر 2 شفٹوں میں کام کرتے ہیں لیکن کام کی زیادتی اور جذبے کے باعث ان کی یہ ڈیوٹی بعض اوقات12گھنٹے سے بھی تجاوز کر جاتی ہے،جس کی انہیں چنداں کوئی پروا  نہیں ہوتی کہ ان کے نزدیک اہمیت اس بے لوث خدمت کی ہے جو وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے مہمانوں کی کر رہے ہیں۔ حج 1436میں،منی میں ہونے والے حادثے پر، ان کی خدمات کو ہر جگہ سراہا گیا۔
اللہ رب العزت کے مہمانوں کی بے لوث خدمت کرنے کے جذبے سے بنی یہ تنظیم ہر گزرتے وقت کے ساتھ اپنی اہمیت ثابت کر رہی ہے کہ گذشتہ سال ہی سعودی فلاحی تنظیم مراکز الاحیاء کی سرپرستی بھی حاصل ہو چکی ہے، جبکہ یہ تنظیم اس وقت کلیتاً مخیر حضرات کے مالی تعاون سے مصروف عمل ہے گو کہ اپنے آپریشن کے دوران کوئی بھی ممبر کسی بھی قسم کے اعزازیہ کا حقدار نہیں لیکن دیگر امور کی انجام دہی(رضاکاران کے قیام و طعام)کے لئے اس کو مالی تعاون کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں اس میں شامل رضا کار،ہر علاقے،رنگ،زبان،نسل ،مسلک کی تفریق سے بالا یکجا ہو کر کام کر رہے ہیں۔مزیدبرآں اپنی ذمہ داریوں سے بطریق احسن عہدہ برآء ہونے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کیا جارہا ہے۔پاکستان حج رضاکار کے انجینئرز نے منی لوکیٹراور حج نیوی گیٹر کے نام سے دو ایپلیکیشنز بھی متعارف کروائی ہیں،جو بلامعاوضہ زائرین کے لئے سہولت فراہم کر رہی ہیں۔خواہش ہے کہ جس طرح پاکستان حج رضاکار گروپ ہر طرح کے تعصب و وابستگی سے بالا تر ہو کر اللہ کے مہمانوں کی خدمت کر رہے ہیں،پاکستانی اشرافیہ بھی اسی جذبے سے پاکستان اور پاکستانی عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں