Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خشوع کے بغیر پڑھی جانے والی نماز ، بے وقعت

نماز میں خشوع اختیار نہ کرنے والے قابل مذمت ہیں ، ﷲ کے ہاں خشوع سے خالی نماز کی کوئی قیمت نہیں
* *  *مولانا محمد عابد ندوی۔ جدہ* * *
   ایک حدیث میں رسول اﷲنے یہ خبر دی کہ لوگوں سے جو چیز سب سے پہلے اُٹھالی جائیگی وہ خشوع ہے اور یہ کہ ایک وقت ایسا بھی آئیگا کہ پوری مسجد میں کوئی ایک شخص بھی خاشع ( خشوع سے نماز پڑھنے والا ) نہ ہوگا۔ خشوع کا اصل مقام تو دل ہے اور اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کے دل میں کس درجہ خشوع ہے ؟ تاہم خشوع کی جو علامات اور آثار ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آج ہم میں سے اکثر کی نمازیں خشوع سے خالی ہیں ۔
     نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام تو کسی حد تک بہت سے لوگ کرلیتے ہیں لیکن جو نماز کی روح اور جان ہے یعنی خشوع خضوع اس کی کوئی فکر نہیں۔ شاید اس غلط فہمی اور ناسمجھی سے کہ خشوع ایک ثانوی چیز ہے جبکہ نماز میں خشوع نہایت اہم چیز ہے اور یہ نماز کی جان ہے ، نیز خشوع والی نماز ہی پر اجر وثواب کا وعدہ اور کامیابی کی ضمانت ہے ۔
    نماز میں خشوع ، صرف سنن و مستحب اور ادب کے درجہ میں نہیں بلکہ یہ واجب اورضروری ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات میں کامیاب ہونے والے اہل ایمان کی چند خوبیوں اور خصلتوں کا ذکر فرمایا ، جس میں یہ بھی ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں ، پھر آگے ان اہل ایمان کیلئے جنت الفردوس کے وارث ہونے کی خوشخبری سنائی گئی اور ظاہر ہے جنت کا استحقاق صرف مستحبات کی ادائیگی پر نہیں بلکہ ترجیحی طورپر فرائض و واجبات کی ادائیگی سے ہوتا ہے جبکہ نوافل و مستحبات وغیرہ فرائض وواجبات کی تکمیل کیلئے اور ان میں پیدا ہونے والے نقص کو دور کرنے کیلئے یعنی اس کی تلافی کیلئے ہوتے ہیں چنانچہ سورۃالمومنون کی ابتدائی آیات میں انہی خصلتوں کا بیان ہے جو واجبات کے درجہ میں ہیں ، اسی ضمن میں خشوع کا بھی تذکرہ ہے ۔
    اسی طرح سورۃالبقرہ ،آیت45 میں یہ بات بتلائی گئی کہ نماز بڑی بھاری چیز ہے ، سوائے ان لوگوں کے جو خشوع اختیار کرنے والے ہیں ، یعنی ان پر نماز بھاری نہیں البتہ غیر خاشعین ( خشوع اختیار نہ کرنے والوں ) پر نماز بھاری ہے ۔ یقینا یہاں نماز کے اند ر کا خشوع ہی مراد ہے ، ورنہ اس کے معنیٰ بے تکے اور یہ جملہ بے ربط ہوجائیگا ، مثلاً ذرا غور کریں یہ معنی اگر ہم کریں کہ ’’ بے شک نماز بڑی بھاری ہے سوائے ان لوگوں کے جو نماز کے باہر تو خشوع اختیار کرنے والے ہیں لیکن نماز میں خشوع اختیار نہیں کرتے ‘‘ تو کیا یہ مفہوم اور معنی درست ہوں گے ؟ ہرگز نہیں ، معلوم ہوا کہ یہاں نماز کے اندر کا خشوع اور خضوع کی کیفیت ہی مراد ہے ۔ دوسری طرف یہ اُسلوب کہ فلاں چیز بھاری ہے ، قرآن میں مذمت اور برائی کا اُسلوب ہے جیساکہ سورہ شوریٰ آیت 13 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
     ’’ مشرکین پر بھاری ہے وہ جس کی طرف تم انھیں بلاتے ہو۔ ‘‘
    اسی طرح سورۃ البقرہ میں بھی مذمت ہی کے ضمن میں یہ بات بیان کی گئی کہ نماز غیر خاشعین پر بھاری ہے ۔ ظاہر ہے قرآن و حدیث میں مذمت اور برائی یا اﷲ کی طرف سے ناراضگی کا اظہار ترک و اجب اور فعل محرم پر ہی ہوتا ہے نہ کہ صرف مستحب کے ترک پر ، گویا نماز میں خشوع اختیار نہ کرنے والے قابل مذمت اور اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی کے مستحق ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں خشوع کا حصول اور اس کی فکر واجب کے درجہ میں ضروری ہے ورنہ ظاہری طورپر دنیاوی احکام کے لحاظ سے تو نماز ادا ہوجائیگی لیکن اﷲ تعالیٰ کے ہاں خشوع سے خالی نماز کی کوئی قیمت نہیں لہٰذا صرف نمازوں کا اہتمام اور اس کی ادائیگی کا التزام ہی کافی نہیں بلکہ اس بات کی بھرپور کوشش ہونی چاہئے کہ ہماری یہ نمازیں خشوع کیساتھ ادا ہوں تاکہ اجر و ثواب کے حصول کے ساتھ اﷲ کے ہاں شرف قبول پاسکیں اور قرب الٰہی کا ذریعہ بن سکیں ۔
    جمہور اہل علم کی رائے یہی ہے کہ نماز میں خشوع کا اہتمام واجب کے درجہ میں ہے ۔ مشہور مفسر علامہ قرطبی ؒلکھتے ہیں:
      ’’ خشوع کے سلسلے میں لوگوں کا اختلاف ہے کہ وہ نماز کے فرائض میں سے ہے یا کہ صرف فضائل سے اس کا تعلق ہے ؟ صحیح قول یہ ہے کہ خشوع نماز کے فرائض میں سے ہے اور اس کا محل قلب ہے اور سب سے پہلا عمل ہے جو لوگوں سے اُٹھالیا جائے گاـ۔ ‘‘ ( الجامع لاحکام القرآن)۔
    جو لوگ نماز میں غفلت برتتے ہیں ، خشوع اختیار نہیں کرتے ان کیلئے قرآن و حدیث میں شدید وعید آئی ہے ، جیسے سورۃ الماعون میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ان نمازیوں کے لئے ہلاکت و بربادی ہے جو اپنی نمازوں میں غفلت برتتے ہیں ۔ اسی طرح نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنا یا نگاہوں کا دائیں بائیں جانب یا آسمان کی طرف اُٹھانا خشوع کے منافی ہے  جس پر یہ وعید حدیث رسول میں آئی ہے کہ ایسے لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں وہ بینائی سے محروم نہ کردیئے جائیں۔ حضرت انس بن مالک ؓ، رسول اﷲ   کا یہ ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں :
    ’’ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ اپنی نگاہیں اپنی نماز میں آسمان کی طرف اُٹھاتے ہیں، وہ اس سے باز آجائیں یا پھر ان کی نگاہیں اُچک لی جائیں گی۔ ‘‘ ( متفق علیہ )۔
     ظاہر ہے قرآن و حدیث میں ایسی شدید وعید صرف ترکِ فضیلت یا ترک مستحب پر نہیں ہوتی بلکہ ترک واجب اور ارتکابِ حرام پر ہوتی ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نمازوں میں خشوع کا اہتمام لازم اور ضروری ہے، اس سے غفلت درست نہیں ۔
    نماز کا حکم دیتے ہوئے اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
     ’’ اور نماز قائم کرو میری یاد کیلئے۔ ‘‘ (طٰہٰ14) ۔
    ظاہر ہے یہ واجب اور ضروری ہے کیونکہ کسی چیز کا حکم اصلاً وجوب ہی کیلئے ہوتا ہے جبکہ کسی چیز سے روکنا اور منع کرنا اصلاً اس کی حرمت پر دلالت کرتا ہے،یاد اور غفلت میں تضاد ہے ۔جو شخص نماز میں غافل ہو اس کے بارے میں کیسے کہا جائے گا کہ اس نے اﷲ کی یاد کیلئے نماز پڑھی۔ اسی طرح صبح و شام اﷲ کو یاد کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ تم غافلین میں سے نہ ہوجاؤ ( ملاحظہ ہو : الاعراف 205) ۔
    حدیث میں نمازی کے بارے میں فرمایا گیا کہ وہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے۔مناجات کا تقاضا یہ ہے کہ دل حاضر ہو ، غفلت کے ساتھ گفتگو اور کلام ہرگز مناجات نہیں ہوسکتی چنانچہ اسی حدیث میں یہ بھی ہے کہ نمازی کو چاہئے کہ وہ اس بات میں غور و تدبر کرے کہ اپنے رب اور پروردگار سے کیا مناجات کررہا ہے ؟ اس طرح کی آیات و احادیث سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ نماز میں خشوع کا اہتمام نہایت ضروری امر ہے ، اس سے غفلت درست نہیں ۔
    ایک حدیث میں رسول اﷲ   کا ارشاد گرامی ہے:
     ’’ بندہ کیلئے نماز کا وہی حصہ ہے جسے اس نے سمجھ بوجھ کر ادا کیا۔ ‘‘
     ایک اور روایت اس طرح مروی ہے :
    ’’ بندہ نماز تو پڑھتا ہے لیکن اس کی نماز ( کی ادائیگی ) نہیں لکھی جاتی مگر آدھی نماز ، ایک تہائی،ایک چوتھائی یا نماز کا پانچواں حصہ ، چھٹا حصہ ، ساتواں حصہ ، آٹھواں حصہ ، نواں حصہ اور دسواں حصہ۔‘‘
    یعنی جتنی نماز خشوع خضوع ، حاضر دماغی اور دلجمعی سے ادا کی جائیگی اتنا ہی حصہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول ہوگا ۔
     ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ کتنے ہی نماز پڑھنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے حصہ میں سوائے مشقت اور تکان کے کچھ نہیں آتا یعنی غفلت اور بے توجہی کے سبب وہ نماز کے اجر وثواب سے محروم رہتے ہیں ۔
    اب سوال یہ ہے کہ کوئی شخص بغیر خشوع کے نماز پڑھے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے ؟ کیا اس کی نماز صحیح و درست اور ادا ہوجائیگی یا نماز کا اعادہ ضروری ہوگا ؟ اس سلسلے میں بعض اہل علم کی رائے یہی ہے کہ اگر نماز کا اکثر حصہ غفلت ، بے توجہی اور عدم خشوع کی نذر ہوجائے تو ایسی نماز کا کوئی شمار نہیں ، نماز کا اعادہ لازم اور ضروری ہوگا۔ سفیان ثوری ؒسے منقول ہے کہ جو شخص نماز میں خشوع نہ اختیار کرے اس کی نماز فاسد ہے ۔ اسی طرح امام غزالیؒاور فقہائے حنابلہ میں مشہور صاحب علم ابو عبد اﷲ حسن بن حامد ؒنے بلا خشوع نماز کو فاسد اور اس کا اعادہ واجب قرار دیا۔ ان ہی روایات کی بناپر نمازمیں خشوع کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اوراس کا اہتمام ضروری معلوم ہوتا ہے ۔
    دوسری طرف جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ شرعی احکام کی 2 حیثیتیں ہیں۔ایک ظاہری افعال کی ادائیگی اور دوسرے باطنی حقائق پر ایمان و یقین ۔دنیاوی احکام کا تعلق اکثر ظاہری افعال پر ہوتا ہے جیساکہ منافقین کے ظاہری زبانی اقرار کو تسلیم کرکے ان کیساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ کیا جاتا تھا۔ اسی طرح کوئی شخص غفلت ولا پروائی اور بے توجہی سے بھی نماز پڑھ لے تو دنیاوی احکام کے لحاظ سے اس کو نماز پڑھنے والا سمجھا جائے گا ۔ وہ ’’ تارک صلاۃ ‘‘ ( نماز چھوڑنے والا ) نہ ہوگا ۔
     اسی طرح نماز کا اعادہ اس شخص پر واجب نہ ہوگا جیساکہ ایک حدیث میں یہ مضمون بیان ہوا کہ شیطان نماز میں خلل انداز ہوتا ہے اور نمازی کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالتا ہے اور دنیا جہاں کی باتیں نمازی کو یاد دلاتا ہے ، یہاں تک کہ نماز پڑھنے والا بھول جاتا کہ اس نے کتنی رکعت نماز پڑھی ؟ اگر ایسا ہوتو حدیث میں نماز کے اعادہ کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ سجدۂ سہو کا حکم دیاگیا اور بھول و غفلت کے سبب ان 2 سجدوں کو شیطان کی رسوائی و تذلیل قرار دیا گیا۔ اگر غفلت و لاپروائی کے سبب نماز باطل ہوتی تو نماز کے اعادہ کا حکم دیا جاتا ۔
    ہاں یہ حقیقت اپنی جگہ مُسلَّم ہے کہ نماز کا جو حقیقی فائدہ اور مقصد ہے ، یعنی اﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی ، اجر و ثواب کا حصول ، ایمان کی روشنی اور قوت میں اضافہ ، عبادت میں مٹھاس ، بے حیائی اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق اور آخرت میں فلاح و کامیابی ، یہ دنیوی اور
 اُخروی فوائد اسی نمازی کو حاصل ہوں گے ، جو خشوع خضوع سے نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام کرے ۔
مزید پڑھیں:- - - -ہمارے اسلاف ، ایام حج میں

شیئر: