Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

احساسِ ندامت نے اسے زندہ در گور کر دیا

تسنیم امجد ۔ریاض
کتابِ ماضی کی ورق گردانی سے کا اصل مقصدوہ آ گہی دینا ہے جس سے دوسروں کے تجربات ،اپنے کسی بگاڑ کو سنوارنے کا سبب بن جا ئیں۔صبح ا لکا فیہ گیدرنگ میں جانا تو کھلتا ہے کیو نکہ نیند قربان کرنی پڑتی ہے ۔اس دن کا لنچ بھی بنا کر جا نا پڑ تا ہے لیکن دائیں با ئیں کی خبر گیری اور معلومات بھی خوب ہو جاتی ہے ۔تازہ خبروں کا یہ اچھا ذریعہ ہے ۔
راحیلہ کی شا دی کو دس برس ہی ہوئے تھے کہ اسے طلاق ہو گئی ۔سبھی شر کاءاداس تھے۔اس کی زندگی بظاہر خو شگوار تھی ۔گفتگو آ گے بڑھی تو معلوم ہوا کہ محتر مہ اکثر گھر میں اکھڑی اکھڑی رہتی تھیں ۔شوہر کی ہزار کوششوں کے با وجودان کا مزاج نہ بدلتا ۔وہ اپنی قریبی سہیلیو ں سے شکایات کا دفتر کھولے رکھتیںجسے مزید ہوا دی جاتی اور الٹے سیدھے مشوروں سے نوازا جاتا۔ سو جھ بو جھ دینا تو ناممکن تھا کیو نکہ حلقہ بھی انہی کے مزاج کا تھا ۔دو بچے بے چارے باپ کے ساتھ ہی تھے جو بضد تھے کہ ماما کو لینے چلو ۔
راحیلہ وقوعہ کے روز لڑ جھگڑ کر صبح ہی بچو ں کوا سکول بھیج کر میکے اس خوش فہمی میں روانہ ہو گئی کہ شو ہر منانے آ جائے گا لیکن اس دن بدقسمتی سے شو ہر کا پارہ بھی خوب چڑھ گیا اور اس نے بھی اس روز روز کے جھگڑے کو ختم کرنے میں بھلائی جا نی ۔اکثرخواتین را حیلہ کو ہی برا کہہ رہی تھیں۔یہاں تک کہ اس کی وہ جگری سہیلیاں بھی جو اسے الٹے سیدھے مشورے دے کی جلتی پہ تیل کا کام کر تی تھیں،دوسروںکی ہاں میں ہا ں ملا کر راحیلہ کے شو ہر کوبے چارہ کہہ رہیں تھیں ۔اس طرح خامو شی سے سبھی بو جھل قدمو ں سے گھرو ں کو لو ٹے ۔
ایک دن صبح ہی صبح دروازے پر گھنٹی ہو ئی۔کوئی بر قع پوش کھڑی تھی ۔ہم نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھو لا تو اس نے نقاب پلٹ دیا۔را حیلہ سامنے تھی جواجڑی ہوئی صورت لئے کھڑی تھی ۔بے سا ختہ ہمارے گلے لگ کر سسکیاں لینے لگی۔ہم نے دلاسہ دیتے ہوئے اس سے حال احوال پو چھا تو بو لی کہ پہلے میرے بچوں کو مجھ سے ملا دو ۔میں ان کے لئے تڑپ رہی ہوں ۔میکے میں بھی اکثر مجھے ہی سننی پڑتی ہیں ۔صرف ماں شاید رحم کھا کر نرمی سے بات کر لیتی ہیں ۔بچے.......میں منہ ہی منہ میں بڑ بڑائی کہ کہاں سے ملاﺅں ؟آ خر ہمت کر کے اسے بتا یا کہ کلیم صا حب تو چند روز کے بعد ہی محلہ چھو ڑ کر چلے گئے تھے ۔سننے میںآ یا ہے کہ وہ پنجاب چلے گئے ہیں ۔را حیلہ کی حالت یہ سنتے ہی غیر ہو گئی ۔ہم نے بڑی مشکل سے اسے حو صلہ دیا ،کھا نا کھلایا ۔اس کے بعد اس نے گھر جانے سے انکار کر دیا ۔صورتِ حال سنبھا لنی بہت مشکل ہو رہی تھی ۔
آج راحیلہ اجڑی اجڑی صورت لئے مو نٹیسوری میں ملازمت کر رہی ہے ۔اسے ہر بچے میں اپنے بچے نظر آ تے ہیں ۔ اس کا کہنا ہے کہ کاش ان کی قریبی سہیلیاں اسے مثبت سوچ دیتیں ۔ان کے غلط سلط مشوروں نے اس کا گھر اجاڑ دیا ۔اس کا کو ئی مدد گار نہیں ۔کیسے وہ بچوں کو مل پائے گی ؟نہ جانے وہ کہاں اور کس حال میں ہو ں گے ۔احساسِ ندامت نے اسے زندہ در گور کر دیا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ آج اکثر خواتین کی محافل میں گھریلو مسا ئل ،سسرال اور شو ہر ہی زیرِ بحث ہو تے ہیں ۔سو جھ بو جھ دینے والی خواتین کم ہی ہیں جبکہ جلتی پر تیل ڈال کرآگ بھڑ کانے والی زیادہ ہیں ۔اکثر گھروں کے اجاڑ کی یہی وجہ ہے ۔ہمیں دراصل اپنے محا سبے کی ضرورت ہے جس کے لئے عمر اور وقت کی کو ئی قید نہیں ۔شوہروں کے سلسلے میں اکثر گلفام ہی آ ئیڈیل بنا لئے جا تے ہیں ۔ذرا سو چئے آئیڈیل ہی ملنے لگیں تو پھر شکایت کیسی ۔زبان کے چٹخارے کی خا طر دوسروں کی زند گیوں میں مدا خلت بھی تباہی کی بڑی وجہ ہے ۔
ہمیں روز مرہ کی زندگی میں ایسے چہرے بھی نظر آتے ہیں جو وا جبی سے حُسن کے حامل ہو تے ہیں لیکن ان کی ازدواجی زندگی بے مثال ہو تی ہے ۔ان کی سوچ و اخلاق ہی ان کے مقدر کی خو بصورتی کا با عث بنتا ہے ۔دوسری جانب مرد حضرات کو بھی اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے ۔اکثر گھرانوں میں مردوں کے تلخ رویے بھی نا قا بلِ بر داشت ہو تے ہیں۔ ان کے دھتکارنما لہجے عورت کو کر چی کر چی کر کے رکھ دیتے ہیں ۔مردوں کی انا انہیں یہ احساس ہو نے ہی نہیں دیتی کہ غلطی ان کی بھی ہے ۔عورت کی خاموشی پر وہ پھو لے نہیں سماتے جبکہ اس کی خامو شی کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ وہ سر ٹکرا ٹکرا کر تھک چکی ہے۔ اس کی تمام توقعات مٹ چکی ہیں ۔
ازدواجی زندگی میں مزا جو ں کے اتار چڑ ھا ﺅ سے وا سطہ رہتا ہے ۔غصے میں کسی قسم کا ر دِ عمل اپنے اندر ایک طو فان رکھتا ہے جو کسی بھی وقت نقصان پہنچا سکتا ہے ۔اس مزا جی کیفیت پر ماہرین کی تحقیقات مضا مین کی صورت میں مو جود ہیں ۔ہمارے نزدیک ان کی کو ئی حقیقت نہیں۔ایک سر سری سی نظر ماری اورایک طرف پٹخ ڈالا ۔
مسائل کو چار دیواری سے باہر نہیں نکلنا چا ہئے۔دو سرو ں کو اپنے معا ملات میں د خل اندازی کا مو قع نہیں دینا چاہئے۔ اس طر ح حالات زیادہ خراب ہو تے ہیں ۔شو ہر اور بیوی دو نو ں کو حالات کی تہہ میں جانا چا ہئے ۔تالی دو نو ں ہا تھو ں سے بجتی ہے ۔انہی حالات کے لئے شا عر نے خوب کہا ہے :
یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے
ہم خواب بیچنے سر با زار آ گئے
اب دل میں حو صلہ نہ سکت با زوﺅ ں میں ہے 
اب کے مقا بلے میں میرے یار آ گئے
آ واز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے
 

شیئر: