Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسجد الفتح اور آثار رسالت کا تحفظ

عاصم حمدان ۔ المدینہ
سب سے پہلے تو میں وزیر اسلامی امور و دعوت و رہنمائی شیح عبداللطیف آل الشیخ کو مبارکباد دینا چاہوں گا ۔ انہوں نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر ادارے کی سربراہی کے دوران صبر آزما وقت گزارا۔ ان کی میانہ روی، اعتدال پسندی اور اسلامی شریعت کے مقاصد کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی شناخت نے انہیں شدت پسند عناصرکے حلقوںمیں ناپسندیدہ بنادیا تھا۔ راقم سطور کومعروف ادیب عبدالمقصود خوجہ کے اعزازکیلئے منعقد ہ پروگرام میں آل الشیخ سے ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ میں نے انہیں منکسر المزاج، تہذیب یافتہ اور اعلیٰ اخلاق کا مالک انسان پایا۔ وہ علوم اور اخلاقیات کے علمبردار خاندان سے نسبت رکھتے ہیں۔ اس تناظر میں انکی مذکورہ پہچان توقع کے عین مطابق ہے۔
اب وہ وزات اسلامی امور کی قیادت کررہے ہیں۔ انہیں یہ قیادت ایسے دور میں تفویض کی گئی ہے جبکہ مملکت میں زندگی کے تمام شعبوں میں اصلاحات کا عمل چل رہا ہے۔ میں اس موقع پر ایسا موضوع پیش کرنا چاہوں گا جسے علماءاور کالم نگار بسا اوقات اٹھاتے رہے ہیں۔ مخالف موافق حلقوں میں منقسم ہیں۔ البتہ نئے ماحول نے بہت سارے لوگوں کے ذہنوں میں موجود خلفشار دور کردیا ہے۔ میری مراد سیرت طیبہ سے تعلق رکھنے والے آثار سے ہے۔ دونوں مقدس شہر خصوصاً©© اور مملکت کے دیگر علاقے عموماً سیرت طیبہ کے آثار سے مالا مال ہیں۔سیرت طیبہ سے تعلق رکھنے والے بعض آ ثار قدیمہ انجانے اسباب کے تحت ختم کردیئے گئے۔ بعض حرمین شریفین کے توسیعی منصوبے میں شامل کردیئے گئے۔ مثال کے طور پر مکہ مکرمہ میں دارالارقم اور مدینہ منورہ میں دار ابی ایوب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ حرمین شریفین کے توسیعی منصوبوں کا حصہ بن گئے۔ متعدد آثار قدیمہ ایسے ہیں جن سے کئی ادارے ہاتھ جھاڑے ہوئے ہیں حالانکہ انکی ذمہ داری تھی کہ وہ انکا دھیان رکھیں۔ انکی موجودگی سیرت طیبہ کا گہرائی اور گیرائی سے جائزہ لینے کے لئے بھی ناگزیر ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی مدینہ میں بنی قریضہ کی مسجد ، شمالی مدینہ میں سقیفہ بنی ساعدہ، مساجد سبا، خصوصاً مسجد الفتح پر توجہ از حد ضروری ہے۔ ان مقامات سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی انمول تاریخی یادیں اور واقعات جڑے ہوئے ہیں۔
بعض حضرات اس وہم میں مبتلا ہیں کہ آثار قدیمہ پر توجہ دینے سے بدعات و خرافات کا در کھلے گا۔عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی۔ اسکی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی وہ حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تمہاری قوم کے لوگ نومسلم نہ ہوتے تو میں کعبہ کو منہدم کرکے از سرنو تعمیر کرتا اور حطیم کے حصے کو خانہ کعبہ میں شامل کردیتا“۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہا ں مفاد عامہ کو ترجیح دی ہے جو اسلامی شریعت کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ میں ڈاکٹر عبداللطیف سے امید کرتا ہوں کہ وہ مسجد الفتح میں لگے تالے کھلوا کر اسے بحال کریںگے۔ شاہ فہد نے یہ مسجد دیگر تاریخی مساجد کی طرح از سر نو تعمیر کرائی تھی۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: