Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سادگی میں خوشیاں زیادہ تھیں، تصنع نے بہت کچھ چھین لیا، میمونہ شاہد

زینت شکیل۔جدہ
علام الغیوب مخلوق کے ہر ظاہر و باطن کو جاننے والا ہے۔ جب مالک حقیقی نے ثمود کی طرف سیدنا صالح علیہ السلام کو بھیجا تو انکی قوم نے خاص معجزے کی درخواست کی کہ اس پتھر میں سے ایک اوٹنی پیدا ہو تو ہم ایمان لائیںگے چنانچہ سیدنا صالح علیہ السلام کی دعا سے ایسا ہی ہوا کہ پہاڑ پھٹا اور اسکے اندر سے ایک بڑی اونٹنی نکلی۔ اس واقعے کا ذکر قرآن کریم کی سورہ الاعراف میں موجود ہے۔ یہ معجزہ لوگوں کے دلوں کی کیفیت ظاہر کردینے کا سبب بنا۔
ہوا کے دوش پر ہماری گفتگو محترمہ میمونہ شاہد اور ان کے شوہر محترم شاہد ہاشمی سے ہوئی۔جناب اشتیاق حسین اور رضیہ سلطانہ صاحبہ  کے گھر کی سب سے پہلی اولاد ہونے کے ناتے میمونہ صاحبہ کی خوب آﺅ بھگت کی گئی ۔والد صاحب کا میونسپل کمیٹی، بہاول پور ڈویژن کے چیف آفیسر کی حیثیت سے سرکاری ذمہ داریوں کے سلسلے میں مختلف شہروں میں تبادلہ ہوتا رہا ۔اس طرح میمونہ صاحبہ نے بھی اپنے والدین کے ہمراہ اپنے ملک کے کئی علاقے دیکھے۔ وہاں کی مقامی ثقافت سے آگاہی حاصل ہوئی۔ انہیں نئی نئی جگہوں کی سیر کا موقع بھی ملا ۔ جب اسکول کی تعلیم مکمل ہوئی تو بہاول پور کے ہی کالج میں داخلہ لے لیا ۔ وہیں رہائش بھی رہی۔ بہاول پور سے ہی تاریخ کے مضمون میں ماسٹرز کا امتحان بھی دیا اور بہاول پور کی اسلامیہ یونیورسٹی میں سیکنڈ پوزیشن آئی۔ حکومت کی جانب سے چاندی کا میڈل بھی ملا۔
میمونہ شاہد نے کہاکہ امی ہماری گھریلو خاتون تھیں۔ کھانا پکانا ، سلائی کرنا، کروشیے کاکام وغیرہ سب کچھ کرتی تھیں ۔وہ بیڈ شیٹس اور میزپوش بھی بنالیتی تھیں۔ جب وہ سویٹر بنتیں تو اس میں نہ صرف انتہائی ماہرانہ انداز میں مشغول رہتیں بلکہ خوشی کا ایک احساس چہرے پر رہتا کہ جس کے لئے سویٹر بُنا جا رہا ہے، یہ تیار ہو جائے تو فوراً اسے پہنادیا جائے۔ کہیں کوئی نیاڈیزائن دیکھتیں تو اسے اون سلایوں پر اتار لیتیں ۔ اس طرح یہ پوچھنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی تھی کہ اس ڈیزائن کو کیسے بُنا جائے گا، کتنے خانے نوں کے بعد اس کو کیسے بنتے چلے جانا ہے کہ یہ ڈیزائن نمودار ہو سکے ۔ ایسی کسی تفصیل کی ضرورت نہ رہتی اور نئے ڈیزائن کا سویٹر تیار ہوجاتا ۔کروشیے کا کام بھی ہوتا رہتا۔ کبھی چادر تیار ہوتی، کبھی ٹیبل کور اور کبھی دوپٹے کے لئے خوبصورت رنگوں کے امتزاج سے بیل بنائی جاتی ۔ہمیں چونکہ پڑھائی کے لئے وقت دینا ہوتا تھا چنانچہ زیادہ کام نہیں سیکھا لیکن چونکہ ہر وقت امی جان کو یہ سب کا م کرتے دیکھا تو سوٹ کی سلا ئی کی حد تک سیکھ لیاتا کہ اپنے کپڑے کبھی درزی سے سلوانے کا وقت نہ ہو تو خود ہی گھر پر بھی سلائی کر کے سوٹ تیار کر سکتے ہیں۔کہیں جانا ہوتو آسان سے ڈیزائن والا جوڑا دو گھنٹے میں تیار ہوجاتا ہے۔ کھانا بنا نا بھی سیکھا اور گھر پر خود ہی بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ دعوتی کھانے بنانے کی بھی خوب پریکٹس ہوگئی۔ امی جان کو کسی کے ہاتھ کی سلائی پسند نہیں آتی تھی۔ اس لئے وہ اپنا ہر جوڑا خود ہی تیار کرلیتی تھیں۔ 
اسے بھی پڑھئے:شوہر افسانے کو سراہتے ہیں، میں ہواﺅں میں اڑنے لگتی ہوں،سیمیں
میمونہ شاہد کے بھائی اشفاق حسین نے بیچلرز پروگرام کے بعد 2سالہ آئی ٹی کا کورس مکمل کیا ۔شادی کے بعد کراچی میںرہائش اختیار کی ۔ایک بیٹی اورایک بیٹے کے بعد دو ننھی بیٹیاں رونق بڑھانے چلی آئیں۔ بہن صالحہ تبسم کی شادی گریجویشن کرتے ہی بہاول پور میں ہی ہوگئی ۔وہیں سسرال بھی ہے ۔ دو بچیوں نے ان کی مصروفیت میں اضافہ کر دیا۔
فوزیہ تبسم جدہ میں رہتی ہیں۔ ایک بیٹا ہے اور اپنی بی اے کی ڈگری کا استعمال کرتے ہوئے وہ بیٹے کو ٹیوشن پر نہیں بھیجتیں بلکہ خود ہی گھر پر پڑھاتی ہیں۔شائق کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کے حامل ہیں بیگم بھی تعلیم یافتہ ہیں اور دونوں اپنی دونوں صاحب زادیوں کی تربیت کے لئے وقت نکالتے ہیں۔ کامران اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز ہیں۔ بہاول پور میں رہتے ہیں۔ بیگم بھی ایم ایڈ ہیں، جاب کرتی ہیں۔
میمونہ شاہد نے بتایا کہ چونکہ پہلی اولاد تھی تو شادی کی رسومات میں گھر کی پہلی شادی پر خوب گیت گائے گئے ۔بہاولپور میں ایک مہینہ پہلے سے ہی مایوں کی رسم شروع کر دی گئی ۔روزانہ ہی سہیلیاں شام میں جمع ہوکر بابل کے گیت گاتیں۔یوں سمجھ لیں کہ روزانہ ایک محفل ہوتی،ڈھولکی بجتی ، سہیلیوں کی دوٹیمیں بن جاتیں ، خوب جوش سے مقابلہ ہوتا ، گیت گائے جاتے :
 میرے نیہر سے آج مجھے آیا 
یہ پیلا جوڑا ،یہ ہری ہری چوڑیاں
اس سوال پر کہ کیا شادی کی رسموں میں آرسی مصحف کی رسم بھی ہوتی تھی، انہوں نے اس کاتکنیکی جواب یوںدیا کہ چونکہ پہلے زمانے میں لوگ بہت دور دراز مقامات پر رہا کرتے تھے اس لئے آرسی مصحف کی رسم میںدولہا اور دلہن کو نکاح کے بعد آئینے میں ایک دوسرے کو دکھایا جاتا تھا لیکن اب تو فاصلے سمٹ گئے ہیں۔سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے بھی ہیں اور جب رشتہ دار ہوں تو کسی نہ کسی موقع پرکبھی نہ کبھی دونوں نے ایک دوسرے کودیکھا بھی ہوتا ہے اس لئے آرسی مصحف کی رسم اب تقریباً معدوم ہو چکی ہے ۔
ابٹن سب سہیلیاں لگاتیں، گیت گاتیں، اس طرح ایک ماہ کے دوران نجانے کتنے ہی گیت جو ڈائری میں لکھے ہوئے تھے، گا گا کر میری سہیلیوں کوزبانی یاد ہوگئے اور مجھے بھی روزانہ یہ گیت سن سن کر رٹ گئے ۔ اب تو اتنا وقت بھی نہیں ہوتاکہ کہیں چلے جائیں۔ اب تو ایک دن وقت نکال کر سب ساتھ مل کر سسرال والوں کے ہاں چلے جائیں،تو بڑی بات ہے ۔ آج کل گھروالوں کے سوا دوسرے مہمانوں سے ملنے کے لئے تو شادی ہال میں ہی ملاقات کی جاتی ہے ۔ آج جس قدر زندگی میں سہولتیں ہیں، اسی قدر مصروفیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کہیں جانا ہو تو ٹریفک میں ہی اتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے کہ تکان اور بوریت کا احساس ہونے لگتا ہے۔ یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں لوگوں کی مجبوریاں بن گئی ہیں۔ بڑے شہروں میں ویسے بھی حالات ہر وقت سازگار نہیں رہتے ۔پہلے تو لوگ کسی تقریب کا انعقاد کرتے تھے تو یہی خواہش کرتے تھے کہ تمام لوگوں سے اچھی ملاقات ہو، کھانا مزیدار ہو ،تقریب یادگار ہو ،دور دور سے آئے ہوے مہمانوں کیلئے سہولت کی تمام چیزیں موجود ہوں۔ لوگوں میں آپس کی محبت میں اضافہ ہو، یکجہتی کا بول بالا ہو اورآج یہ خواہش کرتے ہیں کہ شہر کے حالات اچھے ہوں، جلسہ جلوس کے باعث کوئی سڑک بند نہ ہو، ٹریفک جام میں کئی گھنٹے ضائع نہ ہوں۔ جن جن مہمانان گرامی کو دعوت نامے جاری کئے گئے ہیں ،وہ اپنی دیگر مصروفیات میں منہمک نہ ہوں، تمام قریبی رشتہ دار وطن میں موجود ہوں اور انکے بچوں کی طبیعت بھی ٹھیک ہو۔ تقریب میں آنے اور جانے میں وہ اپنی قیمتی اشیاءسے ہاتھ نہ دھوبیٹھیں ۔ 
ستم ظریفی یہ ہے کہ پہلے زمانے کے مقابلے میں آج پہلے سے کہیں اچھے وینیو میںتقریب انجوائے کرتے ہیں۔ جس وقت پہنچتے ہیں اسی وقت سے لذت کام ودہن کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کہیں فوڈ اسٹال کے نزدیک بچوں کی تفریحی جگہ مختص کی جاتی ہے ۔وہاں خدام ان کا خیال رکھتے ہیں کہ انہیں کھیل کے دوران کوئی چوٹ وغیرہ نہ لگے ۔شرکت کرنے والوں کو مہنگے تحائف سے بھی نوازا جاتا ہے۔ اس کے باوجود آج لوگ ایک دوسرے کی تقریب سے واپسی پر خوش نظر نہیں آتے۔ کوئی نہ کوئی اعتراض کہ وجہ انہیں مل ہی جاتی ہے۔متعدد ممالک کے کوئزین سے لطف اندوز ہونے کے بعد بھی انہیں کسی نہ کسی چیز کی کمی کا احسا س نجانے کیوں ہوتا ہے؟
کہنے کا مطلب یہ کہ سادگی میں خوشیاں زیادہ تھیں، تصنع نے بہت کچھ چھین لیا، اب ہر چیز کی فراوانی میں بھی کمی کا احساس باقی رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔
محترم محمد شاہد ہاشمی نے این ای ڈی یونیورسٹی سے مکینیکل انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور معروف کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔ مملکت میں بھی منیجر کی پوسٹ پر خدمات انجام دیتے رہے اور اب پاکستان میں بھی یہی عہدہ انہیں حاصل ہوا ہے۔اس کے لئے وہ مالک حقیقی کے شکر گزار ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ رزق تو قسمت میں لکھا ہوتا ہے، ہمیں تو کوشش کرنے کا حکم فرمایاگیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ بچوں کی تربیت میں بیگم کا زیادہ کردار رہا ۔ وہ انہیں بہترین تعلیم دلانے کے لئے بھی کوشاں رہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بڑی صاحبزادی ایمن نے جناح میڈیکل یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کیا۔ اب رزلٹ کے بعد ہاﺅس جاب شروع ہوگا۔ داماد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ۔میڈیکل کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ نیک والدین کی تربیت نے انکی شخصیت میں دینی شعور اجاگر کیا ہے۔ اپنے والدین کے فرمانبردار ہیں۔ خوش اخلاق ہیں۔ میمونہ شاہد صاحبہ کے صاحبزادے انجینیئرنگ کے فائنل ایئرمیں ہیں پھر انکا ارادہ ماسٹرز پروگرام میں داخلہ لینے کا ہے۔ دوسری بیٹی صاحبہ نے آج کے ماڈرن دور کے تقاضے پورے کرنے کی ٹھانی ہے یعنی گھر کی خوبصورتی میں جہاں انٹیریئر ڈیکوریٹرز کا کام ہوتا تھا، اب وہیں انٹیریئر ڈیزائنر کا کام بھی تعمیرات کی ایک نئی جہت ہے گھر، تعلیمی ادارہ یا کوئی بھی عمارت آرکیٹیکٹ کے علاوہ ڈیزائنر کی مہارت کا بھی منہ بولتا شاہکار ہوتا ہے اس کے لئے کئی سالہ کورس دراصل اسٹوڈنٹس کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کاسبب بنتا ہے۔ دنیا بھر کے آئیڈیاز پر کام ہوتا ہے اور طالب علموں کو سیکھنے کا ایک مکمل میدان میسر آتا ہے۔
ادب پر بات ہوئی تو میمونہ شاہد صاحبہ نے کہا کہ ہمیں تو زیادہ وہی کچھ پڑھنے کو کہا جاتا تھا جو ہمارا اہم مضمون ہوتا تھا لیکن یہ ہے کہ 
 اخبار بینی کی عادت نے کئی چیزوں سے روشناس کرایا۔ پرانے ڈرامے سبق آموز ہوتے تھے۔ ڈرامے میں مصنف نے سماجی مسائل کی نشاندہی کی اور اس کا حل بھی پیش کیا تو ایسے ڈراموںکو نہ صرف مقبولیت حاصل ہوئی بلکہ ان سے مسائل کا ح ل بھی میسر آیا۔ کہا جاتا ہے کہ فلاں کردار بہت زبردست اور حقیقت سے قریب تھا۔ فلاں نے اچھا کیا تواس کے ساتھ اچھا ہوا اور جس نے اچھا نہیں کیا اس کا انجام بھی برا دکھایاگیا ۔انور مقصود، معین اختر اور بشریٰ انصاری کامثلث بہت کامیاب رہا ۔کام تو اب بھی ہو رہا ہے لیکن جو پروگرام پہلے بن چکے، وہ اب کلاسک کے درجے کو پہنچ چکے ہیں۔
کھانا بنا نے کی بات ہوئی تو میمونہ نے کہا کہ یہاں دعوتیں بھی خوب ہوئیں اور کچھ شاہد صاحب میں مہمانداری کا جذبہ بھی زیادہ ہے تو بہت مہمان داری رہی ۔ بریانی، قورمہ، پلاﺅ، آلو گوشت، قیمہ، کوفتے یہ سب روایتی کھانے شوق سے بناتی ہوں اور اکثر تعریف بھی ہوتی ہے۔ میمونہ صاحبہ کا کہنا ہے کہ شاہد صاحب اپنی والدہ کے فرمانبردار ہیں۔ سب بھائیوں سے میل جول ہے ۔مشترکہ خاندانی نظام کی خوبیاں بہت ہیں۔ سب ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ علامہ اقبال کہ دعا جسے ہم لگ اپنے اسکول میں صبح اسمبلی میں پڑھا کرتے تھے، خواہش ہے کہ یہ بہترین روایت ہر جگہ اپنائی جائے۔
 
 

شیئر: