Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مودی کا جادو اس مرتبہ پھر چلے گا؟

***سید اجمل حسین***
جیسے جیسے موجودہ لوک سبھا اپنے دن گن رہی ہے حزب اختلاف کی پارٹیوں کے لیڈرمودی کا جانشین بننے کی جوڑ توڑ میں اور حکومت ان میں سے کچھ لیڈروں خاص طورپرپی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے امکانات پر ضرب لگانے والی علاقائی پارٹی کے رہنما کے پیچھے مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی)افسروں کو چھوڑ نے کی منصوبہ سازی میں لگی ہے۔ جہاں تک علاقائی لیڈروں یا پارٹیوں کا تعلق ہے تو ان میں کم و بیش درجن بھر لیڈر ایسے ہیں جو کسی پارٹی کے سربراہ ہو نے کے ساتھ ساتھ یا تو مختلف ریاستوں کے وزیر اعلیٰ ہیں یا رہ چکے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو کسی پارٹی کے سربراہ یا رہنما تو ہیں لیکن وزیر اعلیٰ ہونا تو دور کی بات کسی مرکزی یا ریاستی حکومت میں وزیر تک نہیں رہے۔لیکن ہر رہنما کی پشت پر اس کی پارٹی کا پوری یکجہتی و دیانتداری کے ساتھ ہاتھ ہے۔ان لیڈروں میں سر فہرست چند ہفتے پہلے تک کانگریس صدر راہل گاندھی تھے لیکن ان کی پارٹی کے اس’’ حلفیہ بیان ‘‘ کے بعد کہ کانگریس حزب اختلاف سے وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے کسی کو بھی قبول کرنے کو تیار ہے صورت حال کافی پیچیدہ ہو گئی ہے۔کانگریس کی اس قربانی یا باالفاظ دیگر فراخدلانہ پیش کش کے بعد ، جو حاتم طائی کی سخاوت جیسی کہی جا سکتی ہے ،جو 11لیڈران وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں باقی بچتے ہیں اگر کہیں وہ 11اپنے میں سے ہی کسی کو وزارت عظمیٰ کے مشترکہ امیدوار کے طور پر لانے میں متفق نہیں ہو پاتے  تو 2019کا پارلیمانی انتخابات ان کی سیاسی موت کا باعث بن جائے گا۔کیونکہ ان لیڈروں میں راہل کے بعد اگر کوئی خود کو مضبوط دعویدار سمجھتا /سمجھتی ہے تو وہ مغربی بنگال کی ممتا بنرجی،اتر پردیش کی مایا وتی،بہار کے نتیش کمار، اڑیسہ کے نوین پٹنائک، کرناٹک کے ایچ ڈی دیوے گوڑا، اترپردیش کے اکھلیش یادو، دہلی کے اروند کیجریوال ،مہاراشٹر کے شرد پوار اور تمل ناڈو کے سیتا رام یچوری ہیں۔
یہ مختلف ریاستوں کی نمائندگی کرنے والے فی الحال بکھرے ستاروں کی مانند گجرات کے نمائندے نریندر مودی کو مسند اقتدارسے اتارنے کی نیت تو ایک جیسی رکھتے ہیں لیکن مودی کی چمک ماند کرنے کے لیے یکساں حکمت عملی ابھی تک وضع نہیں کر سکے۔ 2014میں کیے گئے وعدوں میں سے ایک بھی وعدہ نریندر مودی نے پورا نہیں کیا لیکن’’ مودی ہی گجرات اور گجرات ہی مودی ‘‘سے’’ مودی ہی بی جے پی اور بی جے پی ہی مودی ‘‘کے سفر کے دوران ابھی تک کسی سیاسی پارٹی میں ایسا رہنما تولد نہیں ہوا ہے جو کسی بھی لحاظ سے مودی کو زیر کرنا تو دور کی بات ان کے آگے ٹکنے کی بھی سکت یا صلاحیت رکھتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کسی چلتے پھرتے سے بھی اگر یہ معلوم کریں گے کہ گذشتہ سوا  چار سال کے دوران سوا ارب لوگوں کیلئے ایسا کوئی فلاحی کام نہیں ہوا جس سے عوام الناس کو کوئی فائدہ پہنچا ہواور اگر کوئی فلاحی کام ہوئے بھی ہیں یا غریبوں کو کچھ مراعات دی بھی گئی ہیں تو اس کے عوض ان ہندوستانیوں سے اتنی آمدن کر لی گئی کہ حکومتی خزانہ کو نوٹوں کی قے ہونے لگی تو کیا اس کے باوجود وہ مودی کو ووٹ دیں گے؟تو اس کا جواب یہی ہوگاکہ 60سال سے جو خرابیاں سابقہ حکومتوںنے کی ہیں انہیں مودی پانچ سال میں دور نہیں کر سکتے ۔انہیں مزید پانچ سال دینا ہوں گے۔
ملک کے عوام اب اتنے سمجھدار ہو گئے ہیں کہ ایوان اقتدار کو وہ پنچ میل دال یا کھچڑی حکومت نہیں بنا نا چاہتے۔وہ کسی ایک پارٹی کو ہی بھرپور طاقت سے ایوان اقتدار میں داخل کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ2014میں انہوں نے کیا۔ملک میں اگرچہ صدارتی طرز حکومت نہیں ہے پھر بھی پارلیمانی طرز حکومت ہونے کے باوجود2014 کے پا رلیمانی انتخابات میں ووٹروں نے اس طرح ووٹ کیے گویا وہ کسی صدر کا انتخاب کر رہے ہوں۔ووٹروں نے صرف وزیر اعظم چننے کے لیے ووٹ ڈالا اور انہیں کمل نشان کی شکل میں ہی  وزیر اعظم نظر آرہا تھا۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی زبردست اکثریت سے لوک سبھا میں داخل ہوئی۔ مودی کے دور اقتدار میں نوٹ بندش کے بعد گئو رکشا کی آڑ میں جس طرح مسلمانوں ، ہریجنوں اور آدی باسیوں کو ہجومی تشدد میں ہلاک کیا گیا اس سے سیکولر ہندو اور چھوٹے کاروباری ہندو این ڈی اے حکومت سے بدظن ہیں اس لیے مودی جادو چلنے کے باوجود شاید اس بار مودی کو قطعی اکثریت نہ مل سکے ۔ علاوہ ازیں اترپردیش میں بہوجن سماج پارٹی ، سماج وادی پارٹی ، راشٹریہ لوک دل ،کانگریس اور کچھ چھوٹی علاقائی پارٹیوں کا اتحاد،راجستھان،ہریانہ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں ووٹروں کا کانگریس کی طرف بڑھتا رجحان اور مغربی بنگال میںترنمول کانگریس اور کانگریس اتحاد اور بہار میں آر جے ڈی اور کانگریس اتحاد مودی جی کی راہیں دشوار کر سکتے ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ بی جے پی کا رتھ نصف منزل سے کافی دورہی رک جائے۔اس کے لیے مودی جی کو ابھی سے اپنی حلیف جماعتوں کو نہ صرف خوش کرنا ہوگا بلکہ اس سوا 4سال کے دوران ان پارٹیوں کے لیڈروں کو جس طرح نظر انداز کیا گیا اس کا ازالہ بھی کیا جائے تاکہ بوقت ضرورت حکومت سازی میں مودی اینڈ کمپنی کو زیادہ مغز ماری نہ کرنا پڑے اور وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کے لیے  مودی کو کسی قسم کی دقت پیش نہ آئے۔
 

شیئر: