Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منگنی کے بعد شادی میں تاخیر کا انجام،راہیں جدا

 تسنیم امجد ۔ریا ض
کہتے ہیں کہ اب وقت بدل گیا ہے ۔قدریں بھی وہ نہیں رہیں ۔روا یتی زندگی خواب ہو چکی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم کہیں نہ کہیں اسی پرانے دور میں موجود ہیں جسے چا ہنے کے با و جود بھی خود سے الگ نہیں کر سکتے۔آ ج کا ورق زیادہ پرانا نہیں ، اسے رقم ہوئے بس 2برس ہی ہوئے ہیں لیکن کبھی کبھی کچھ وا قعا ت ایسے بھی ہوتے ہیں جوما ضی قرار پانے کے پاوجود ماضی نہیں بن سکتے۔ ان سے جسم و رو ح کا سا رشتہ ہو تا ہے ۔جیسے کسی نے کہا ناں کہ :
 میں جو تھاکبھی وہ رہا نہیں
 میں جو ہو ں کسی کو پتا نہیں
نیلما کی منگنی اس کے کزن طا رق سے ہو ئی ۔دو نو ں خا ندا نو ں میں انتہا کی محبت تھی ۔گھر بھی قریب قریب تھے اس لئے ہر دو سرے دن شام کی چائے کااہتمام ایک سا تھ کیا جا تا ۔لڑکے وا لو ں کا لان بڑا تھا جسے انہو ں نے مو سمی پھو لو ں سے سجا رکھا تھا ۔اس لئے اکثر چائے وہیں رکھی جاتی ۔طے یہی تھا کہ ان کی تعلیم مکمل ہو تے ہی شا دی کر دی جا ئے گی ۔نیلما خا موش طبع اور شرمیلی تھی ۔طارق جب بھی اس سے بات کرتا تو وہ ہو ں ہا ں میں جواب دے کر کسی کام کا کہہ کر اندر چلی جا تی ۔فطری طور پر وہ شر میلی ہونے کے سا تھ ساتھ روایتی سوچ کی حامل شخصیت تھی ۔اس کی ماں کا کہنا تھا کہ اسے اس کی دادی نے ہی پا لا ہے ۔پلو ٹھی کی ہو نے کے ناتے انہو ں نے اسے زیادہ تراپنے پاس ہی رکھا ۔اس کا اورچھو ٹے کی عمر کافرق کم تھا تو اس لئے میں بھی ان کی مشکور تھی ۔میٹرک تک ان کی سر پر ستی میں رہی۔ اسی لئے ان کی تر بیت کا رنگ اس پر بہت پختہ چڑھ گیا جسے میں پسند نہیں کر تی لیکن سوچتی تھی کہ سسرال جا کر یقینا بدل جا ئے گی ۔
امتحان ہو ئے اور نتا ئج کا انتظار ہو نے لگا پھر طا رق کے والد نے کہا کہ لڑکے کی جاب لگ جا ئے تو پھر تا ریخ رکھتے ہیں ۔اسی انتظار میں وقت گزرنے لگا۔بہتر جاب کی بھی خوا ہش تھی ۔یہی حالات منگنی کی طوالت کا سبب بنتے رہے ۔آ خر طارق کو حسبِ خواہش جاب دوسرے شہر میں ملی ۔فا صلہ زیا دہ تھا اس لئے مہینے میں ایک ہی بار آ نا ہو تا۔ 
نیلما حسبِ معمول اس سے تھو ڑی بہت خیریت پو چھتی اور مصروفیت کا بہانہ بنا دیتی ۔اس کی یہ عادت طارق کو کھلتی تھی ۔وہ چا ہتا تھا کہ وہ اس سے خوب با تیں کرے بلکہ کہیں باہر ڈنر بھی ایک ساتھ ہو ۔اس نے اپنی ما ں سے اس کے رویے کی شکا یت کی جس پر وہ بو لیں کہ شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جا ئے گا ۔میں نیلما کو بچپن سے جا نتی ہو ں۔ وہ تمہاری بہترین شریکِ حیات ثابت ہو گی لیکن طا رق کوتو ابھی کی حسرت تھی ۔آ خر اس کا انجام یہ ہوا کہ اسے اپنے کو لیگ کی بہن بھا گئی جو اس سے ہر مو ضو ع پر خوب با تیں کیا کر تی تھی ۔ڈنر اور لنچ ایک ساتھ ہونے لگے۔اب وہ گھر آ نے میں دو تین ماہ کا وقفہ کرنے لگا ۔والدین کا ما تھا ٹھنکا اور انہو ں نے اس سے پو چھا کہ اپنی چھٹی کے بارے میں بتاﺅ تاکہ تاریخ طے کی جائے۔ اس پر اس نے بے باکی سے کہہ دیا کہ وہ نیلما سے شادی نہیں کرے گا ۔اس کی طبیعت مجھے پسند نہیں ۔یو ں دو نو ں گھر انوں میں دوری اور تناﺅپیدا ہو گیا ۔
نیلما پر اس کا بہت منفی ا ثر ہوا ۔وہ اس سے دل ہی دل میں بہت محبت کر نے لگی تھی ۔وہ اس کی بجائے کسی اور کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ اس نے والدین سے منوا لیا کہ وہ فی ا لحال ملازمت کرے گی۔ ابھی اس کے بارے میں مت سو چیں ۔اب اس کی رو ٹین کالج اور گھر کا کمرہ تھا ۔اس کی خا مو شی بڑ ھ گئی۔لیکچر تیار کرنے کا بہانہ بنا کر وہ گھر والوں سے بھی دور ہو گئی ۔طارق کی شادی کا کارڈ انہیں بھی آ یا ۔یوں نیلما اور طارق کے ہمقدم ہونے سے پہلے ہی دونوں کی راہیں جدا ہوگئیں۔
15 برس بیت گئے۔نیلما کو شا دی کے لئے کوئی را ضی نہ کر سکا ۔اب تو اس کے سر میں چاندی اتر آئی تھی جو کسی رشتے کو آ نے سے رو کنے کے لئے کا فی تھی ۔
ما ضی کے یہ صفحات ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی کا پیغام دیتے ہیں۔اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ جہا ں والدین اپنی بچیو ں کی شادی کے حوالے سے مختلف مسائل سے دوچار ہیں،و ہا ں ان کے رشتے ہو جا نے کے بعد منگنی کا طویل عر صہ سنگین مسائل کو جنم دے ر ہا ہے۔ معا شرے میں مو جود بہت سے دو سرے خو د سا ختہ رسم و روا ج کی طر ح یہ بھی ایک مسئلہ بنا دیاگیا ہے ۔بظاہر یہ خو شیو ں بھرا پیغام محسوس ہو تا ہے ۔دو خاندان اس نئے رشتے کے استوار ہو نے سے مستقبل کے حسین سپنو ں میں کھوئے اسے نیا رنگ دینے کے لئے منصوبے بناتے ہیں تا کہ سبقت لے جا ئیں ۔اکثر دھوم دھام کی منگنی کا انجام اداسی اور غمی کی شکل میں سامنے آتا ہے ۔نہ صرف لڑکا بلکہ بعض اوقات لڑکی کا ر حجان بھی بدل جاتا ہے۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ مو جودہ دور فا سٹ اور ایڈوانس ہے ۔آج لڑ کے اور لڑ کیو ںکو جو آ زادی میسر ہے ،پہلے اس کا تصور بھی نہیں تھا ۔وہ افسا نوی دنیا میں جینا چا ہتے ہیں۔شادی میں تا خیر وقت کا ضیا ع ہو نے کے ساتھ ساتھ انسانی فطرت کے بھی متضاد ہے ۔کبھی کبھی تو منگنی کے بعد کی آ زادی بھی گلے پڑ جا تی ہے ۔کچھ برا لگا یا کچھ مانا نہ گیا تو فو راً نارا ضی کے بعد انگو ٹھی منہ پہ مار دی جا تی ہے ۔اس طرح لڑ کی کا مستقبل زیادہ غیر محفوظ ہو جا تا ہے کیو نکہ معا شرہ ہمیشہ لڑکی کو ہی برا کہتا ہے اور اسے معاف نہیں کیا جا تا ۔
منگنی کی جگہ نکاح کرنے کے بعد بھی ر خصتی میں دیر نہیں کر نی چا ہئے ۔اکثر یہ سو چتے ہو ئے کہ نکا ح تو ہو ہی چکا ہے ،والدین آ نے جا نے کی کھلی چھٹی دے دیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو اس بند ھن کو بھی جب دل بھر جائے تو تو ڑ دیا جا تا ہے ۔ان حالات میں ذہنی دباﺅ لڑ کیوں اور ان کے والدین کو زندہ در گور کر ڈالتا ہے ۔ایسے میں یہ آ واز کہیں سے گو نجتی سنائی دیتی ہے کہ:
با شندگانِ شہر سے پو چھو ں گی ایک دن 
کیو ں کر محبتو ں میں ،محبت کا کال ہے 
قدریں ہیں مسخ ،وقت کا چہرہ ہے داغدار
دورِ عروج ہے کہ یہ عہدِ زوال ہے 
 

شیئر: