Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کے بعد کراچی میں جرائم کی لہر

 کراچی (صلاح الدین حیدر )اب جب کہ نئے پاکستان کا نعرہ ملک میں عام ہوچکا ہے۔سندھ انتظامیہ کچھ سمجھ نا آنے و الی کشمکش میں مبتلا ہے۔پچھلے تقریبا ً دو سالوں سے پنجاب میں قتل وغارت گری، بچوں کا اغوا نونہالوں پر تشدد اور ان کی لاش کو چھپا دینے کا مسئلہ دردِ سر بنا ہوا تھا۔ کوئی حل نظر نہیں آتا تھا، مگر اب یہی وباءجنوبی صوبہ سندھ خاص طور پر ملک کے سب سے بڑے شہر اور کاروباری مرکز کراچی کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ یہی نہیں سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت پر بلدیہ فیکٹری میں 2012میں آج ہی کے روز لگنے والی آگ کے مسئلے کو حل کرنے کا دباﺅ بڑھتا جارہاہے۔ روزانہ ہی دل خراش خبریں اخبارات اور ٹیلی ویژن کے صفحات اور اسکرین پر نمایاں ہوتی ہیں۔ ننھے منے بچے، 4سے لے کر 7/8سال کی عمر تک لڑکیاں اور لڑکے اسکول جاتے ہوئے اغوا کرلئے جاتے ہیں۔کون لے گیا۔کیوں اٹھایا گےا۔ اغوا کنندگان کوئی تاوان بھی طلب نہیں کرتے۔ سیکڑوں سوال، پر جواب ندارد۔ پچھلے 3،4سالوں سے رینجرز کے آپریشن کے بعد قتل و غارت گری، اغوا برائے تاوان ،موٹرکار چھیننے کی وارداتوں میں تو قابل تعریف کمی ہوئی۔ اسٹریٹ کرائم اور موٹرسائےکل چھینے جانے جیسے جرائم میں اضافہ ہی دیکھا گیا۔ اعداد و شمار فوری طور پر تو ملنا محال تھا، لیکن پولیس کی ناقص کارکردگی صاف دکھائی دیتی ہے۔ پولیس سندھ میں حکومت وقت کی لونڈی بن کر رہ گئی۔اپنے فرائض سے مکمل غافل اور وزیروں، مشیروں ، اعلیٰ عہدوں کی غلامی ہی اس کا فرض اُولین ہے۔ ظاہر ہے کہ جرائم پیشہ گینگ اور مافیا کی شکل میں چہار سو اپنا کام دکھانے میں آزاد نظر آتے ہیں۔کئی ایمان دار پولیس افسران اور جرائم کو قلع قمع کرنے والے ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کو اغوا کرکے ان کے ہاتھ پیر کو ایذا پہنچا کے انہیں بھیک منگوانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ ماں باپ بے چارے پولیس اسٹیشن کے گرد چکر لگالگا کر تھک جاتے ہیں۔ کوئی سنوائی نہیں۔ایسے واقعات بھی ٹیلی ویژن پر دکھائے گئے کہ ایک شخص بینک سے رقم نکال کر اپنے گھر پہنچا ہی تھا کہ دو موٹر سائےکل سوار وںنے پستول تان کر اس سے ساری رقم ہتھیالی اور ہوا میں فائر کرتے ہوئے یہ جا وہ جا ۔شہر بھر میں کیمرے لگے ہوئے ہیں، جنہیں ٹیلی ویژن پر دکھایا بھی گیا۔ جرائم کرنے والوں کی شکلیں صاف نظر آئیں، پولیس انہیں گرفتار کرنے سے قاصر۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے مسئلے پر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بھی بلایا۔ہرزاوئیے سے جرائم کی بیخ کنی کی تجاویز سامنے آئیں۔ اتفاق ابھی تک نظر نہیں آیا۔ لوگ پریشانیوں میں مبتلا ہیں، ایک شخص سے تو پانچ لاکھ روپے لوٹ لئے گئے ۔دوسرا مسئلہ سندھ حکومت کے لئے درد سر بلدیہ فیکٹری میں 11ستمبر 2012کو آگ لگنے کا ہے جو ابھی تک کسی خاص نتیجے تک نہیں پہنچ سکا۔ کچھ لوگ گرفتار بھی ہیں ، لیکن اس میں ایم کیو ایم کے کراچی تنظیمی کمیٹی کے چیف آرگنائزر حماد صدیقی ، اور اس وقت کے وزیر صنعت و حرفت رﺅف صدیقی کے ملوث ہونے کا خدشہ ہے۔ کیس تو رجسٹر ڈ ہوئے کافی عرصہ ہوا، لیکن حماد صدیقی ملک سے مفرور ہیں، اور رﺅف صدیقی ضمانت پر ۔ ایم کیو ایم کے کچھ سیکٹر انچارج قید میں ہیں۔ قصہ بس اتنا تھا کہ ایک ایسی فیکٹری جہاں کپڑے تیار ہوتے تھے، کے مالکان کو بھتہ وصول کرنے کی دھمکی دی گئی، ان کے انکار پر فیکٹری کو آگ لگا دی گئی۔سب گیٹ بند کردئےے گئے۔ 250 افراد، جس میں سیکیورٹی گارڈ تک شامل تھے، لقمہ اجل بن گئے۔ اتنا بڑا سانحہ بھی ملک ، اور اس کی انتظامیہ کے لئے سوالےہ نشان بن کر دنیا کی نظروں میں ابھرتا ہے ، آج تک حل نہیں ہو سکا۔خدشہ یہی ہے کہ شاید اس میں کافی وقت مزید لگ جائے ۔
 

شیئر: