Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الوداع!! کلثوم نوازالوداع

***سجاد وریاہ***
سابق خاتون اول محترمہ کلثوم نواز طویل علالت کے بعد وفات پا گئیں۔انہوں نے اپنی بیماری کے طویل عرصے کو بھی اپنی خاندانی مشکلات کے سبب بہت گمبھیر اور تکلیف دہ محسو س کیا ہو گا ۔محترمہ ایک پر وقار اور زیرک خاتون تھیں ۔اللہ پاک ان کو جنت نصیب کرے اور ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر عطا فرمائے،آمین۔
محترمہ مارچ 1950ء میں ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئیں۔ وہ مشہور زمانہ گاما پہلوان کی نواسی تھیں۔ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق تھا ۔مصری شاہ کی رہائشی تھیں۔عام آدمی کے دکھ سمجھتی تھیں اور مذہبی رجحان کے سبب صدقہ خیرات اور فلاحی کاموں میں حصہ ڈالتی رہتی تھیں۔ان کی شخصیت کی سادگی ہی دراصل ان کا حسن تھا ،امیر کبیر اور خاتون اول بننے کے باوجود ان کی سادگی اور محتاط طبیعت ان کا خاصہ رہا۔محترمہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ادب سے خاص شغف رکھتی تھیں ،ایک مکمل گھریلو خاتون تھیں ۔ان کی شخصیت مکمل طور پر غیر سیاسی تھی،خود کو کچن تک محدود رکھتی تھیں۔جنرل مشرف کے زمانے میں ان کو سیاسی میدان میں آنا پڑا تو اکثر کہا کرتیں کہ میںاس تحریک کے بعد واپس کچن میں چلی جائوں گی۔ایسا ہی ہوا کہ وہ دوبارہ کبھی سیاست میں نہ آئیں۔
محترمہ کلثوم نواز کو 3بار خاتون اول بننے کا اعزاز حاصل ہے۔پہلی بار6نومبر1990ء میں خاتون اول بنیں اور یہ مدت 18 جولائی1993ء کو ختم ہوئی۔دوسری بار 17فروری 1997ء اور تیسری بار جون 2013ء میں خاتون اول بنیں۔محترمہ کلثوم نواز کی شخصیت کا احاطہ کیا جائے تو ان کو ایک محتاط،زیرک،سادہ مزاج ،گھریلو اور بے ریا شخصیت ہی کہا جا سکتا ہے۔وہ ہمیشہ محتاط اور غیر جذباتی انداز میں سوچتی تھیں۔وہ ہمیشہ خاندان کو محاذآرائی سے دور رکھنے کی کوشش کرتیں اور فوج سے ٹکر نہ لینے کا مشوہ دیتیں۔ان کی دانشمندی اور معاملہ فہمی کا مظہر ہی ہے کہ جب نوازشریف جیل میں تھے اور کوئی شریف خاندان کا مرد باہر نہیں تھا تو انہوں نے میاں شریف کے مشورے کے ساتھ تحریک چلا کر دکھا دی۔یہ وہ وقت تھا جب آمریت کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ن لیگی قیادت سہمی ہوئی تھی اور بڑے لیڈرز سڑکوں پر آنے کو تیار نہیں تھے۔جب محترمہ ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے اپنے کارکنان کے ساتھ بڑھ رہی تھیں تو ان کو روکنے کی کوشش کی گئی ،ان کو گاڑی سے اتارنے کی کوشش کی گئی ،انہوں نے خود کو اندر سے لاک کر لیا ۔پھر کیا ہوا کہ ان کی گاڑی کو ان سمیت کرین کے ذریعے اٹھا لیا گیا ۔اس وقت ان کے ساتھ فیصل رحمان ،تہمینہ دولتانہ اور غالباًپرویز رشید گاڑی میں موجود تھے لیکن محترمہ کلثوم نواز نے عزم و ہمت کا مظاہرہ کیا ،بالکل خوفزدہ نہیں ہوئیں اور مسلسل8 گھنٹے گاڑی میں بند رہ کر ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی توجہ کو اپنی طرف راغب کئے رکھا۔اس دوران جب وہ گاڑی سے باہر نہیں آ رہی تھیں ،ان کی گاڑی کے سائلنسر میں کاغذ پھنسا کر گاڑی کا انجن بند کردیا گیا تا کہ اے سی بند ہو جائے اور گرمی کی وجہ سے وہ گاڑی کے گیٹ کھول دیں لیکن انہوں نے پھر بھی دروازے نہیں کھولے اور مسلسل اندر ہی بند ہو کر بیٹھی رہیں ،اس طرح انہوں نے ریلی سے کہیں زیادہ کامیاب احتجاج کیا اور کئی گھنٹے میڈیا اور عوام کے سامنے اپنی آواز پہنچانے میں کامیاب رہیں۔ان کی بہادری،صبر اور حکمت عملی نے حکومت وقت کو پریشان کیے رکھا اور مسلسل دبائو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئیں۔ فوجی حکومت کو مذاکرات پر مجبور کر دیا جس کے سبب وہ اپنے خاندان کو لے کر جدہ پہنچ گئیں اور پھر جلاوطنی کے کئی سال گزارے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ وہ جنرل کی حکومت کے خلاف کوئی عوامی تحریک تو نہ چلاسکیں جس سے حکومت کو جانا پڑتا لیکن جس خاص مقصد کے لیے وہ اٹھی تھیں۔ ان مخصوص حا لات میں وہ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔محترمہ کلثوم نواز کو اللہ پاک جنت نصیب کرے ،کبھی بھی عہدوں کے لالچ میں نہیں پڑیں۔جب بھی ان کو سیاست میں آنا پڑا وہ مجبوری اور حالات کے جبر کے طور پر ہی سیاست میں آئیں۔اب بھی جب نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو ان کو حلقہ120سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا ،جس پر محترمہ کلثوم نواز کو الیکشن لڑایا گیا لیکن وہ بیمار ہوگئیں اور علاج کے لیے لندن روانہ ہو گئیں۔مریم نواز نے ان کی کمپیئن چلائی اور کامیاب ہو گئیں۔کلثوم نواز کے لباس اور چال چلن کی سادگی ان کی عظمت کا ثبوت ہے کہ انہوں نے کبھی دکھاوا نہیں کیاجبکہ ان کے برعکس مریم نوازجارحانہ عزائم کی مالک ہیں ،جارحیت کا جذبہ انکی ذاتی اور سیاسی زندگی ،دونوں سطحوں پر نظر آتا ہے۔اس موقع پر میں کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتا جس سے کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچے کیونکہ مشرقی روایات اور اسلامی طرزمعاشرت میں ایسے موقع پر ایک دوسرے کو حوصلہ دیا جاتاہے۔ان کے دکھ میں شریک ہوا جاتا ہے اور انکے لئے دعائیں کی جاتی ہیں ،لیکن ایک نقطہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ کلثوم نواز نے اپنے خاندان کے اخلاقی،مذہبی ،ثقافتی،سیاسی اور فلاحی پہلو پر بے انتہا توجہ دی اور انہوں نے ان معاملات کو مناسب حد تک شفاف رکھنے کی کوشش بھی کی لیکن ایک ایسا پہلو ہے جس کو ہر سطح پر نظر انداز کیا گیا وہ ہے معاشی پہلو ،خاندان کے معاشی پہلو کو شفاف نہیں رکھا گیا۔
کاروبار کے حلال ذرائع بھی دین کی بنیادی شرائط میں سے ہیں ۔اس معاملے میں دین کی شرط پوری نہیں کی گئیں۔میں سمجھتا ہوں کہ شریف خاندان نے کاروبار ،سیاست اور معاشی معاملات میں غیر شفافیت سے اپنے لیے مشکلات اور مصائب کے علاوہ بدنامی کا طوق بھی گلے میں ڈال لیا ہے۔ایسے سوالات اٹھ چکے ہیں کہ ان کی نسلیں ان سوالوں کے جواب دیتی رہیں گی اور ندامت بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑے گی۔آج یہ موقع ہے کہ مرحومہ کے دونوں بیٹے ان کے جنازے میں شرکت کرنے پاکستا ن نہیں آرہے جو کہ کسی بھی خاندان کے لیے صدمے کی بات ہے ۔کلثوم نواز کی بطور خاندان، شریف فیملی کی یہ کوتاہی انکو کئی حوالوں سے پریشان کرتی رہے گی۔میں اس موقع پر محترمہ کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ پاک ان کی مغفرت کرے ،ان کی اگلی منزل آسان فرمائے ،ان کے درجات بلند کرے اور ان کے لواحقین کو صبر عطا فرمائے،آمین۔ان کے خاندان کے لیے اس میں سبق بھی ہو سکتا ہے کہ کفن کی جیب نہیں ہوتی ۔دولت اکٹھی کرتے رہے اور آج اپنی ماں کے جنازے میں شریک نہیں ہو رہے۔اللہ اس ماں کو ٹھنڈک اور راحت عطا کرے ،محترمہ مریم نواز کو خاص محبت ہے اپنی ماں سے کیونکہ زیادہ عرصہ ان کے ساتھ رہیں اور شادی کے بعد بھی وہ ان کے ساتھ ہی رہیں ،آج ان کے لیے بھی سبق آموز رخصتی ہے کہ وہ آخری دنوں میں اپنی ماں کے ساتھ ہونے کی بجائے جیل میں اپنے جرائم کی پاداش میں سزا کاٹ رہی ہیں۔ 
اس موقع پر پاکستان کی سیاسی قیادت کی طرف سے محترمہ کلثوم نواز کی وفات پر دکھ کا اظہار کیا گیا ہے اور تمام قائدین نے ان کی مغفرت کی دعا کی ہے ۔
یہ بہت مثبت اور امید افزا بات ہے کہ سیاسی اختلافات کو ذاتی اختلاف نہ بننے دیا اور نوازشریف کے غم میں شرکت کے چند الفاظ ادا کرکے بہترین جذبہ انسانی اور مسلمانی کا ثبوت دیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ مائیں سانجھی ہوتی ہیں،ہم بھی آج ایک ماں کے جدا ہونے پر غم زدہ ہیں اور ان کی بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں۔الوداع محترمہ کلثوم نواز الوداع ۔
 

شیئر: