Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”بقالوں “ کی سعودائزیشن کا وقت آپہنچا

 رمضان بن جریدی العنزی۔ الجزیرہ
سعودی شہروں اور قصبوں میں بقالے جگہ جگہ کھلے ہوئے ہیں۔ شاہراہوں ، محلوں ، اندرونی سڑکوں پر ہر جگہ کوئی نہ کوئی بقالہ کھلا ہوا ہے۔ غیر ملکی کارکن ان بقالوں کے کرتا دھرتا ہیں۔ وہ اس حوالے سے زبردست نیٹ ورک قائم کئے ہوئے ہیں۔ بقالے چلانے کیلئے منظم گروہ کام کررہے ہیں۔ 
وزارت محنت و سماجی بہبود سمیت دیگر تمام متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بقالوں پر تارکین وطن کی اجارہ داری ختم کرانے کیلئے موثراقدامات کریں۔ تارکین وطن انتہائی پیشہ ورانہ انداز، غیر معمولی ذہانت اور منفرد حکمت عملی کے بل پر بقالوں پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ متعلقہ اداروں کا فرض ہے کہ وہ ادنیٰ تاخیر اور ٹال مٹول کے بغیر بقالوں کی سعودائزیشن کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کریں۔ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بقالوں کے حقیقی مالکان تارکین ہیں اور ضمیر فروش اہل وطن ان پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں۔ غیر ملکی کارکن بقالوں کی آمدنی اربوں ریال کی شکل میں اپنے وطن بھجوا رہے ہیں۔ 
بقالوں کا کاروبار بڑا منافع بخش اورآسان ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سعودی شہری پہلی فرصت میں بقالوں کے مالک بنیں اور وہی انکا نظم و نسق چلائیں۔ سعودی شہریوں میں اس حوالے سے شعور و آگہی پیدا کریں کہ کوئی بھی جائز کام انسان کی قدرو قیمت نہیں گھٹاتا۔ سعودی نوجوان اب اس پیغام کی اہمیت کو جاننے اور سمجھنے لگے ہیں اسی لئے جگہ جگہ مختلف پیشوں میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ہمارے سامنے روشن مثال لیپ ٹاپ اور موبائل مارکیٹ کی سعودائزیشن کی ہے۔ اس مارکیٹ پر غیر ملکی چھائے ہوئے تھے۔ انہی کا قبضہ تھا۔ موبائل کی اصلاح و مرمت ہو یا موبائل سیٹ فروخت کرنے کا کام ہو ،یہ سب کچھ تارکین کے ہاتھ میں تھا۔ سعودی نوجوان اس میدان میں اترے اور اب وہ کامیابی کے ساتھ موبائل مارکیٹ کو چلا رہے ہیں۔ یہ تجربہ بقالوں پر دہرانے کی ضرورت ہے۔
اگر بقالوں کی سعودائزیشن کردی گئی تو ایسی حالت میں دسیوں ہزار سعودیوں کو روزگار مل جائیگا۔ وہ اس سے خوب دولت کمائیں گے۔ بقالوں کی دنیا میں قانونِ تجارت کی خلاف ورزی سب پر عیاں ہے۔ ہر سڑک اور ہر نکڑ پر کوئی نہ کوئی بقالہ کام کررہا ہے۔ اگر کچھ بقالے بند بھی کرنے پڑ جائیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ بقالوں کی سعودائزیشن سے منافع بخش کاروبار کو فروغ حاصل ہوگا۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پورا خاندان مل جل کر بقالے چلا سکتا ہے۔ایک خاندان کے متعدد افراد یا متعدد دوست مل کر مشترکہ کاروبار کے طو رپر بقالوں کا نظم و نسق چلا سکتے ہیں۔ وزارت محنت ، وزارت تجارت اور وزارت بلدیات و دیہی امو رکو اس سلسلے میں مشترکہ کردارادا کرنا ہوگا۔
ہمیں انسپکٹرز ، نگراں اور سعودیوں کے نام سے غیر ملکیوں کے کاروبار بند کرانے والے معاونین درکار ہونگے۔ یہ کام فوری نفاذ چاہتا ہے۔ اس میں جتنی تاخیر ہوگی اتنا ہی برا ہوگا۔ قومی خزانہ باہر جاتا رہیگا۔ اربوں ریال کی ترسیل زر ہوتی رہیگی۔ تمام متعلقہ اداروں کا فرض ہے کہ وہ اس حوالے سے مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز پر ٹیپ لگادیں۔ شکست خوردہ ذہنو ںکی باتیں نہ سنیں۔ مایوس کن دلائل کو پس پشت ڈال دیں۔ اس سلسلے میں صرف اور صرف قومی مفاد کو مدنظر رکھیں۔ معاملہ بہت ٹیڑھا نہیںمعمولی ہے، اسکے لئے بہت زیادہ ذہانت کی ضرورت نہیں۔ ریاست کے ٹھوس اقدامات اس ہدف کو یقینی بنادیںگے۔ سعودی خواتین اور حضرات بقالوں کی سعودائزیشن میں موثر ثابت ہونگے۔ اسے چیلنج کے طور پر لیا جانا ہے۔ جب جب کسی شعبے کے حوالے سے چیلنج قبول کیا گیا تب تب کامیابی نصیب ہوئی۔ ٹال مٹول اور تدریجی سعودائزیشن کا رخ نہ کیا جائے۔ یہ وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں۔ تمام متعلقہ ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فوری اقدامات کریں، وگرنہ انتہائی اہم اقتصادی ادارہ جس طرح اس وقت ہاتھ سے نکلا ہوا ہے آئندہ بھی اس کا حال یہی رہیگا۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: