Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سندھ کے بجٹ میں سماجی شعبے میں فنڈ کی کٹوتی کیوں؟

کراچی (صلاح الدین حیدر)تحریک انصاف کی نئی حکومت نے توقعات کے خلاف جو منی بجٹ  قومی اسمبلی میں پیش کیا اُس کا عوامی سطح پر خیر مقدم کیا گیا۔ ترقیاتی بجٹ میں کوئی کمی نہیں کی گئی  اور متوسط طبقے کیلئے  انکم ٹیکس کی سالانہ چھوٹ یا توبڑی حد تک کمی کی گئی ہے یا پھر اسے پرانی حد پر ہی برقرار رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر 8لاکھ روپے سالانہ آمدنی والوں پر صرف 2000روپے ٹیکس لگیں گے اور پہلے کی طرح 12سے 24لاکھ سالانہ آمدنی پر5فیصد ٹیکس لگے گا، یعنی 12فیصد آمدنی تک چھوٹ ہوگی اورصرف 60ہزارروپے تک ٹیکس دینا پڑے گا۔ عام طور پر یہی کہا جارہا تھا کہ ترقیاتی کاموں پر 400ارب کی کٹوتی کی جائیگی لیکن ایسا نہیں ہوا، ہاں پیڑول اور پٹرول کی مصنوعات پر ایکسائز ڈیوٹی میں کمی کا مطالبہ رد کردیا گیا کیونکہ حکومت نے گیس کی قیمتوں میں پہلے ہی اضافہ کردیا تھا، عوام پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں۔یہ بھی خبریں گرم تھیں کہ 5 ہزار اشیا پر 158ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے جائیں گے لیکن نئے ٹیکسز اس سے کہیں کم ہیں، صرف امیر طبقے پر زیادہ بوجھ ڈالا گیاہے۔ زیادہ قیمتوں والے سیل فون پر امپورٹ ڈیوٹی بڑھادی گئی ہے ۔ظاہرہے کہ عام لوگ ایسے موبائل یا سیل فون استعمال کرتے ہیں جن کی قیمت خرید 12ہزارسے  25ہزار ہوتی ہیں۔ بہت سے برانڈ اس وقت پاکستان میں مقبول ہیں ان میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے۔ ہاں ایپل کا آئی فون جو کہ انگلینڈ اور امریکہ میں بھی بے انتہا مہنگا ہے، امریکہ میں تو ا س کی  قیمت 800 سے 1200ڈالر تک ہے ۔ پاکستان میں اس کی قیمت  ایک لاکھ روپے سے لے کر ایک لاکھ 40 تک  ہے ۔ ظاہر ہے کہ صرف امرا اور روساء ہی ایسے فون استعمال کرتے ہیں تو ان کے لئے مزید کوئی کچھ روپے اور ادا کرنامحال نہیں ہوگا۔  وفاقی حکومت کے برعکس صوبہ سندھ نے اپنے باقی 9مہینے کے بجٹ میں تقریباً480ارب روپے تک کی کمی کردی  ہے۔ تعلیم کی مد میں 235ارب، صحت کی مد میں 144 ارب روپے ، امن و امان کی مد میں 102ارب روپے کی کٹوتی کی گئی ۔ آئین میں 18وین ترمیم کے بعد صوبوں کو اچھی خاصی خود مختاری حاصل ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے سندھ حکومت نے اپنے لحاظ سے نیا بجٹ پیش کیا  لیکن ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ تعلیم اور صحت سوشل سیکٹر میں کمی کسی طرح بھی منظور نہیں ۔ سابق وزیر اعظم نے بھی یہی غلطی کی تھی کہ سوشل سیکٹر جو کہ کسی بھی ملک اور معاشرے کیلئے انتہائی  اہم ہے، اس کی طرف کم دھیان دیا اور موٹروے، راولپنڈی، اسلام آباد کے درمیان جدید ریلوے سسٹم اور لاہور میں اورنج لائن پر ضرورت سے زیادہ توجہ مرکوز رہی جس پر ابھی تک تنقید ہوتی ہے کہ جس ملک میں 45فیصد لوگ غربت کی حد سے نیچے ہوں، وہاں تعلیم اور صحت پر زور دینا لازمی ہے، پاکستان میں بدقسمتی سے اسی وجہ سے پچھلے کئی سالوں سے نئے تعلیمی ادارے یا اسپتال نہیں کھولے گئے جس کی وجہ سے عوام کو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔جاپان کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں سالانہ بجٹ کا 6سے 7فیصد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے، جبکہ پاکستان میں یہ شرح 2فیصد سے بھی کم ہے۔ 
 

شیئر: