Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حسنین کریمینؓ کی محبت ،جزو ایمان

 سیدنا حسن اور حسین ؓکی فرمائش پر حضرت بلالؓ نے اذان دی تو مدینہ میں کہرام مچ گیا،مرد ،خواتین، بچے روتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آئے
 * * * عبد المالک مجاہد ۔ ریاض* *  *
سیدنا حسن بن علی اور سیدنا حسین بن علی ؓدونوں سید زادے دنیا میں’’ ریحا نۃ الرسول‘‘ تھے۔ مدینہ طیبہ میں ان کے نانا محترم کے علاوہ بے شمار لوگ تھے جو ان سے شدید محبت کرتے تھے۔ مدینۃ الرسول میں آپ کی ازواج مطہرات تھیں جو ان سے محبت کرتیں۔ ان کی خالائیں بھی تھیں۔ دیگر رشتے داروں کے علاوہ مدینہ طیبہ میں مہاجرین اور انصار تھے جو ان کی ایک ایک ادا پر دل وجان سے فدا تھے۔ سیدنا حسن و حسینؓ اُن خوش قسمت نفوس میں سے تھے جن کی تربیت خود اللہ کے رسول نے فرمائی۔ ان کو ہمیشہ لقمۂ حلال ہی کھانے کو ملا۔
    ذرا اِس حدیث نبویؐ پر غور فرمائیے۔
     مسجد نبوی ؐمیں صدقے کی کھجوروں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ سیدنا حسن اور حسینؓ ابھی چھوٹے تھے، وہ کھجوروں کے ڈھیر سے کھیلنے لگ گئے، ان میں سے ایک نے کھجور لی اور اپنے منہ میں ڈال لی۔ اللہ کے رسول اپنے ننھے سے نواسے کو دیکھ رہے تھے، آپ نے ان کے منہ میں انگلی ڈال کر اسے باہر پھینک دیا اور فرمایا: بیٹا ’’کِخْ کِخْ‘‘! اس کو نکال دو، تھوک دو۔ہم بنو ہاشم ہیں، ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں ۔
    نبی کریم کی حیات طیبہ کو اگر غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ آپ بحیثیت باپ، خاوند، نانا، سسر، دوست، سب لوگوں سے زیادہ افضل تھے۔ امت کی خیر خواہی میں ہر وقت مصروف رہنے والے محمد کی زندگی کے شب وروز کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کبھی کبھار اپنی بیٹی سیدہ فاطمہؓ کے گھر میں تشریف لے جاتے، ان کے احوال دریافت کرتے اوران کے بچوں کے ساتھ کھیلتے۔ سیدنا حسن بن علی  ؓ آپ کے سب سے بڑے نواسے تھے۔ آپ کو ان سے بے حد محبت تھی۔
     جب سیدہ فاطمہ ؓکی شادی ہوئی تو ایک عرصہ تک سیدہ کا گھر بنو قینقاع کے بازار کے اطراف میں واقع تھا۔ یہ گھر انہوںنے غالباً حارثہ بن نعمان سے کرایہ پر لے رکھا تھا۔رسول اللہ نے ایک دن اپنے شاگرد سیدنا ابوہریرہ  ؓ سے ارشاد فرمایا: ابوہریرہ! میرے ساتھ چلو۔ یہ نماز ظہر سے پہلے کا وقت تھا۔ مدینہ میں اُس روز قدرے زیادہ گرمی تھی۔ مدینہ کا موسم گرمیوں میں گرم اور سردی کے موسم میں خاصا ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ اس واقعہ کو سیدنا ابوہریرہؓ  یوںبیان کرتے ہیں :
    میں ایک دن مسجد نبوی میں بیٹھا تھا۔ دن روشن ہوچکا تھا، رسول اللہ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اس پر قدرے دباؤ ڈال کر مجھے ایک طرف چلنے کا اشارہ کیا۔ میں آپ کے ہمراہ چل پڑا۔ اللہ کے رسول کا رخ اپنی بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہرا  ؓ کے گھر کی طرف تھا۔ اُن دنوں سیدہ فاطمہ  ؓ مسجد نبوی کے مشرق میں واقع بنو قینقاع کے بازار کے گرد و نواح میں رہائش پذیر تھیں۔ بنو قینقاع کا یہ بازار بقیع الغرقد کی طرف تھا۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں: ہم دونوں خاموشی سے کوئی گفتگو کیے بغیر بازار کے قریب سے گزرے۔اللہ کے رسول بازار میں داخل ہوئے، اسے ایک نظر دیکھا… پھر وہاں سے چل دئیے۔ میں بھی آپ کے ساتھ ساتھ تھا۔ آپ سیدہ فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے،صحن میں تشریف فرما ہوئے اور ارشاد فرمایا: اَ یْنَ لُکَعُ؟’’چھوٹو کدھر ہے؟‘‘ پھر فرمایا: اَ یْنَ لُکَعُ؟’ ’چھوٹو کدھر ہے؟‘‘ پھر تیسری مرتبہ ارشاد ہوا: ’’چھوٹو کدھر ہے؟‘‘ ۔یہ الفاظ آپ اپنے نواسے سیدنا حسن بن علیؓ کے بارے میں فرما رہے تھے۔
    سیدناابوہریرہؓ  کا بیان ہے: اِدھر سیدہ فاطمہؓ اپنے صاحبزادے کو تیار کررہی تھیں، اس لیے کوئی جواب نہ آیا۔ ہمیں اندازہ ہوگیا کہ وہ سیدنا حسن کو نہلا کر اچھا لباس پہنا رہی ہیں۔ اللہ کے رسولاور میں تھوڑی دیر کے بعد واپس مسجد نبوی میں آگئے۔
    جب ہم مسجد میں آئے تو اللہ کے رسول تشریف فرما ہونے کے بعد پھر فرمانے لگے: اَیْنَ لُکَعُ؟ ’’چھوٹو کدھرہے؟‘‘ تھوڑی دیر گزری تھی کہ سیدنا حسن اپنے گلے میں ہار پہنے دوڑتے ہوئے آئے۔ اللہ کے رسول نے پیارے نواسے کو دیکھا تو اپنے بازؤوں کو کھولتے ہوئے ان کا استقبال فرمایا۔ ادھر سیدنا حسن نے بھی اپنے بازو پھیلا دئیے اور کہا: ایسے، پھر وہ اللہ کے رسول کی گود میں کود گئے۔ آپ نے حسن کو چوما، انہیں اپنے سینے سے لگایا۔ اُدھر حسن اپنے ننھے منے ہاتھوں سے داڑھی مبارک سے کھیلنے لگے۔ اللہ کے رسول نے حسن کو چومنا شروع کردیا۔ پھر اُن کے لیے دعا فرمائی: اَللّٰہُمَّ إِنِّي أُحِبُّہُ فَأَحِبَّہُ وَأَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہُ ’’اے اللہ! میںبے شک اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے بھی محبت فرما‘‘۔سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں : اللہ کے رسول نے یہ دعا 3 مرتبہ فرمائی۔
    قارئین کرام! آپ نے دیکھا کہ اللہ کے رسولپنے اس نواسے سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ آپ سیدنا حسن سے پیار کررہے تھے، انہیں چوم رہے تھے کہ بنو تمیم کا سردار اقرع بن حابس اس منظر کو دیکھ کر کہنے لگا:یارسول اللہ ! میرے10 بیٹے ہیں، مگر میں نے تو اپنے کسی بیٹے کوکبھی نہیں چوما۔ ارشاد ہوا : مَنْ لَا یَرْحَمْ لَا یُرْحَمْ ۔’ ’جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔ ‘‘
    سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ جب سے میں نے اللہ کے رسول کو سیدنا حسنؓ سے اس درجہ محبت کرتے دیکھا اور آپ کی یہ دعا بھی سنی :وأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّہُ۔’’ اللہ! تو اس سے محبت کر جو حسن سے محبت کرتا ہے ‘‘ ۔تو میں سیدنا حسن سے بے پناہ محبت کرنے لگا۔پھر ان کی محبت کی کیفیت یہ ہو گئی کہ فرماتے ہیں: مَا رَأَیْتُ حَسَنًا قَطُّ إِلَّا فَاضَتْ عَیْنَايَ دُمُوعًا۔’’میں نے جب کبھی حسن کو دیکھا فرط محبت سے میری آنکھوں میں آنسو آجاتے‘‘۔ ایک اور روایت کے مطابق سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول کی یہ محبت دیکھنے کے بعد میری نگاہ میں سیدنا حسنؓ سے زیادہ محبوب کوئی نہ تھا۔
    سعید بن ابی سعید المقبری کہتے ہیں:     ایک مرتبہ ہم سیدنا ابو ہریرہ ؓکے ساتھ تھے۔اسی دوران سیدنا حسن بن علیؓ  آتے ہیںاور ہمیں سلام کہتے ہیں۔ ہم نے انہیں سلام کا جواب دیا۔سیدنا حسنؓ وہاں سے چل دئیے، مگر ان کی تشریف آوری کا سیدنا ابو ہریرہؓ کو پتہ نہ چل سکا۔ہم نے انہیں بتایا کہ یہ سیدنا حسن بن علی ہیں جو یہاں تشریف لائے تھے اورہمیں سلام کہنے کے بعد اب واپس جا رہے ہیں ۔ابو ہریرہ ؓ  فورا ًاٹھے، ان کے پیچھے گئے اور عرض کی :وَعْلَیْکُمُ السَّلاَمُ یَا سَیِّدِي۔ ’’میرے آقا!میرے سردار! آپ پر بھی سلامتی ہو‘‘،پھر سیدنا ابو ہریرہؓنے کہا: میں نے اللہ کے رسول کی زبان اقدس سے سنا ہے ، آپ فرما رہے تھے: إِنَّ ابْنِي ہٰذَا سَیِّدٌ  ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے۔‘‘
    قارئین کرام! اگر اللہ کے رسول سیدنا حسن سے محبت کرتے ہیں تو وہ بھی اپنے نانا جان سے از حد محبت کرتے ہیں۔ وہ اپنے بازو پھیلا دیتے ہیں۔ آپ کی گود میں بیٹھتے ہیں۔ آپ کی داڑھی سے کھیل رہے ہیں۔ نانا جان اور نواسے کی یہ محبت صرف ایک مرتبہ کی بات نہیں ، نہ ہی یہ کوئی پہلا موقع ہے بلکہ یہ محبت اور پیار شروع د ن سے چلا آرہا ہے۔ اللہ کے رسول نے اپنے اس نواسے کو گھٹی دی تھی۔ ان کا نام رکھا تھا۔ ان کے لیے دعائیںکی تھیں۔ انہیں سید شباب اہل الجنۃ کے لقب سے نوازا تھا اور ان کے لیے پیش گوئی فرمائی تھی کہ وہ مسلمانوں کے 2 عظیم گروہوں کے درمیان صلح کروائیں گے۔اللہ کے رسول نہ صرف اس نواسے سیدنا حسن ؓسے محبت کرتے تھے بلکہ دوسرے نواسے سیدنا حسینؓ سے بھی بہت محبت کرتے تھے۔ آپ ان کے ہونٹوں کو بھی چومتے تھے۔
    ایک دن اللہ کے رسول لوگوں کو نماز پڑھارہے تھے۔ سجدہ میں گئے تو سیدنا حسن کھیلتے ہوئے آئے اور نانا محترم کو دیکھاکہ سجدہ میں گئے ہیں تو اپنے نانا کی پشت پر سوار ہو گئے۔
    معزز قارئین! کائنات نے اس سے زیادہ محترم، خوبصورت سوار اور سواری نہ دیکھی ہوگی۔ اللہ کے رسول کی اپنے پیارے اور لاڈلے نواسے کے ساتھ محبت کو ملاحظہ کیجیے کہ آپ نے اپنے سجدے کو طویل کردیا کہ بچہ کھیل رہا ہے۔پھر جب اپنی مرضی سے سیدنا حسنؓ  آپ کی پشت مبارک سے نیچے اترے تو آپ نے اپنا سر مبارک سجدہ سے اٹھایا۔ نماز مکمل فرمائی تو صحابہ کرام ؓنے نہایت ادب سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آج آپ نے خلاف معمول بہت لمبا سجدہ کیا ہے؟! آپ نے فرمایا: میرے اس بیٹے نے میرے سجدہ کو لمبا کردیا۔ یہ میری پشت پر سوار ہوگیاتھا،میں نے جلدی کرنا مناسب نہ سمجھا۔ میں نے اسے موقع دیا کہ وہ کھیل لے اور جب وہ اپنی مرضی سے نیچے اترے تو میں نے اپنا سر سجدہ سے اٹھایا۔
    قارئین کرام! ذرا غور فرمائیں کہ نانا جان محترم اورپیارے نواسے کے درمیان کس قدر محبت اور پیار ہے، وہ آپس میں کتنے مانوس ہیں۔ بچوں کے ساتھ یہ محبت اور پیار ایک دن کی بات نہیں ہوتی بلکہ یہ مسلسل محبت وشفقت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مسجد نبویؐ نے ایک منظر اور بھی دیکھا کہ سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین اپنے گھر سے مسجد نبوی میں داخل ہوئے ہیں۔ اللہ کے رسول کے یہ دونوں پھول، سرخ رنگ کے لباس پہنے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اپنے نانامحترم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
    کائنات کے امام اس وقت منبر پر تشریف فرما ہیں۔آپ خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں۔ لوگ ان معصوم بچوں کے لیے راستہ چھوڑتے جارہے ہیں۔ آپ نے دونوں نواسوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو آپ نے خطبہ چھوڑ دیا، منبر سے نیچے ترے اور اپنے نواسوں کو اپنے مبارک ہاتھوں میں اٹھالیا۔ ارشاد ہوا :اللہ تعالیٰ کافرمان بلا شبہ سچ ہے : إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃُ  ’’ تمہارے اموال اورتمہاری اولاد آزمائش ہے۔‘‘ میں نے اپنے نواسوں کو دیکھا تو صبر نہ کرسکا۔
    قارئین کرام! یہ بات بتانے اور لکھنے کی ضرورت نہیں کہ اللہ کے رسول ان کو چومتے،پیار کرتے اور اپنے سینے سے لگا تے رہے، پھر دوبارہ منبر پر تشریف لے گئے اور اپنے خطبے کو مکمل کیا۔
    یہاں ایک اور قابل غور وفکر بات ہے کہ سیدنا حسن اور حسین ؓ  آپ کے پوتے نہیں نواسے ہیں۔ آپ کی بیٹی سیدہ فاطمہ کی اولاد ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں بیٹی کو عار سمجھا جاتا تھا، اسے زندہ در گور کر دیا جاتا تھا۔ اللہ کے رسول بیٹی کو کتنا مرتبہ اور مقام دیتے ہیں کہ اسکے بیٹوں کے متعلق فرما رہے ہیں: ہٰذَانِِ ابْنَايَ وَابْنَا بِنْتِي  ’’یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔‘‘
    امام احمد فضائل الصحابہ میں یعلیٰ عامری سے روایت کرتے ہیں :
    ایک مرتبہ ایک دعوت پر اللہ کے رسولکے ساتھ میں بھی تھا۔نبی کریم سب ساتھیوں کے آگے آگے چل رہے تھے۔آپ کے پیارے نواسے حسین راستے میں بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ۔اللہ کے رسول نے انہیں پکڑنا چاہا تو بچے نے آپ کی گرفت سے بچنے کے لیے ادھر ادھر بھاگنا شروع کر دیا۔نبی انہیں ہنساتے رہے حتیٰ کہ انہیں پکڑ لیا۔ آپ نے اپنا ایک دست مبارک سیدنا حسین کی گردن کے نیچے رکھا اور دوسرا ان کی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر انہوں دونوں ہاتھوں میں قابو کرکے ان کا بوسہ لے لیاساتھ ہی آپ نے فرمایا: الْحُسَیْنُ مِنِّي وَأَ نَا مِنَ الْحُسَیْنِ  ’’ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ‘‘۔ اللَّہُمَّ أَحِبَّ حُسَیْنًا ، حُسَیْنٌ سِبْطٌ مِنَ الأَسْبَاطِ  ’’ اے اللہ ! حسین سے محبت فرما ، حسین نواسوں میں ایک شان وعظمت والا نواسہ ہے۔‘‘
    اس واقعے میں سیدنا حسین بن علی کی شان وعظمت بہت واضح ہے۔ گویا کہ آپ کو وحی کے ذریعے آنے والے حالات کی خبر دیدی گئی اور آپ نے حسین سے محبت کرنے کی تاکید فرمائی۔آپ نے فرمایا: أَحَبَّ اللّٰہُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنًا ، فَإِنَّ مَحَبَّتَہُ تُؤَدِّي لِمَحَبَّۃِ الرَّسُولِ وَمَحَبَّۃُ  الرَّسُولِ تُؤَدِّي إِلٰی مَحَبَّۃِ  اللّٰہ  ’’ اللہ اُس سے محبت کرے جس نے حسین سے محبت کی کیونکہ حسین کی محبت رسول اللہ() کی محبت کا ذریعہ ہے اور رسول اللہ کی محبت اللہ کی محبت کا ذریعہ ہے۔ ‘‘
    سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ اللہ کے رسول کی وفات کے بعد سیدنا بلالؓ نے اذان کہنی چھوڑ دی تھی۔ کسی نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ اب میں’’ اشہد ان محمد رسول اللہ ‘‘کہتے وقت کس کے چہرے کی طرف دیکھو ںگا!اس کے بعدصرف 2موقعوں پر اذان دی۔ پہلی مرتبہ آپؓ نے اس وقت اذان کہی جب سیدنا عمر فاروق کے دور میں سرحدوں پر تشریف لے گئے اور جہاد میں مشغول ہوگئے۔ سیدنا عمر فاروقؓجابیہ تشریف لے گئے تو ان کی درخواست پر سیدنا بلالؓ نے اذان کہی۔ جب صحابہ کرام ؓنے سیدنا بلالؓ کی اذان کی آواز سنی تو رونے لگے۔ دوسرا موقع وہ تھا جب وہ مدینہ تشریف لائے اور سیدنا حسن اور حسین ؓنے ان سے اذان کے لیے کہا۔ جب انہوں نے اذان دی تو مدینہ میں کہرام مچ گیا۔مرد خواتین بچے روتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آئے۔ یہ دونوں مواقع رقت انگیز تھے۔
    سیدنا طلحہؓ نے اپنی زندگی میں مختلف اوقات میں کئی شادیاں کیں۔ ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سیدنا ابو بکرؓ کے داماد تھے۔ان کی بیٹی ام کلثوم ان کے عقد میں تھیں۔ ان کی متعدد بیویوں سے 10 بیٹے اور 4بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ان کی اولاد کئی نسلوں تک بڑے بڑے مناصب پر فائز رہی۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق ان کی ایک صاحبزادی ام اسحاق بنت طلحہ کی شادی سیدنا حسن بن علیؓ ہوئی تھی۔ ان کی وفات کے بعد وہ سیدنا حسین بن علیؓ کے عقد نکاح میں آئیں اور ان کے بطن سے سیدہ فاطمہ بنت حسین پیدا ہوئیں۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پوتے عبد اللہ بن عبد الرحمن اور حضرت مصعب بن زبیر بن العوام بھی ان کے داماد تھے۔
    سیدنا فاروق اعظم کے عہد خلافت میں ایران فتح ہو تا ہے تو شاہ ایران یزد گرد کی3 بیٹیاں بھی بازار میں بکنے کے لیے موجود ہیں۔ وہ نہایت انکساری اور ذلت کے ساتھ نظریں نیچی کیے ہوئے زمین کی طرف دیکھ رہی ہیں۔کہاں وہ وقت کہ ان شہزادیوں کے آگے پیچھے نوکر چاکر اور خدام پھرا کرتے تھے۔ کہاں یہ وقت کہ ان کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور وہ اپنے مستقبل کے فیصلے کی منتظر ہیں۔ سیدنا علیؓ بن ابی طالب وہاں سے گزرے۔ انہوںنے سوچا ان شہزادیوں کی تربیت اعلیٰ شاہانہ انداز میں ہوئی تھی۔ انہیں یہ بات اچھی نہیں لگی کہ عام لوگ انہیں خرید کر اپنے گھر کی رونق اور زینت بنا لیں۔انہوں نے سیدنا عمر فاروق سے بات کی: یہ بڑے گھرانے کی بیٹیاں ہیں، ان کے ساتھ عمدہ سلوک ہونا چاہیے۔ اگر کبھی کسی بڑے خاندان کے شخص پر مصیبت کے دن آ جائیں تو اس کی حیثیت کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ سیدنا علیؓاور دیگر صحابہ کرامؓ کے مشورے سے ایک شہزادی کا نکاح محمد بن ابی بکر صدیق کے ساتھ، دوسری کا عبداللہ بن عمر بن خطاب کے ساتھ اور تیسری شہزادی شہر بانو کا نکاح سیدنا حسین بن علی ؓبن طالب کے ساتھ کر دیا جاتا ہے۔ ان تینوں بہنوں نے اسلام قبول کر لیا اور اسلام پر بھر پور طریقے سے کاربند ہو گئیں۔ تینوں شہزادیوں کے ہاں ایک ایک بیٹا پیدا ہوا جو اپنے زمانے کے یکتا اور انمول ہیرے تھے۔ محمد بن ابی بکر کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام اللہ کے رسول کے بڑے صاحبزادے کے نام پر قاسم رکھا گیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر کے ہاں جو بیٹا پیدا ہوا اس کا نام سالم رکھا گیا اور سیدنا حسین بن علی بن ابی طالب کے ہاں جو بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام علی رکھا گیا جنہوں نے بعد ازاں زین العابدین کے لقب سے شہرت پائی۔ یہ وہی زین العابدین ہیں جو کربلا میں زندہ بچے تھے۔ صرف انہی سے سیدنا حسین کی نسل چلی۔ باقی ساری اولاد کربلا میں شہید ہو گئی۔آپ4 ہجری میں شعبان کی5تاریخ کو مدینہ طیبہ میں پید ا ہوئے۔ آپ سیدنا حسن بن علیؓکی ولادت کے 50روز بعد شکم مادر میںتشریف لائے ۔ آپ کو جو مختلف لقب دیے گئے ہیں ان میں رشید، طیب، سید، زکی، مبارک ، بسیط وغیرہ شامل ہیں۔آپ کمر سے پاؤں تک جسمانی ساخت میں رسول اللہ سے بہت مشابہ تھے۔
مزید پڑھیں:- - - - - یوم عاشوراء کا روزہ ، سال گزشتہ کا کفارہ

شیئر: