Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ میرے عشق کا ادنیٰ سا استعارا ہے

شہزاد اعظم
سطح زمین سے ”کاشانہ  غزل“ تک رسائی کے لئے 73سیڑھیاں چڑھنی پڑتی تھیں۔میں اور غزل ”قلانچیں“ بھرتے چند لمحوں میں دروازے پر پہنچ گئے مگر امی جان، ظاہر سی بات ہے، عمر کا تقاضا تھا، وہ ”گِن گِن کر“ قدم رکھتی تھیںچنانچہ انہیں دیر لگتی تھی۔غزل اس حقیقت کو بالائے طاق رکھ کر گویا ہوئی کہ شعور سنبھالنے کے بعد سے ایک محاورے کے بارے میں سوچتی رہی کہ آخر ”پیروں میں بلیاں بندھنا “کسے کہتے ہیں، آج آپ کو دیکھ کر ادراک ہوگیاکہ” شاعر“ اپنی ”غزل کی ”آمد“ پرجس برق رفتاری سے منزل تک رسائی کی تگ و دو کرتا ہے، اسے ”پیروں میں بلیاں بندھنا“ کہا جاتا ہے۔یہ کہہ کر اس نے دھیما قہقہہ لگایا،میرے ہاتھ سے چابی لے کر گھر کا دروازہ کھولااور خود داخل ہونے کیلئے قدم بڑھایا اور پھر کہنے لگی کہ یہیں کھڑے رہیں،جب امی آجائیں تو دستک دے دیجئے گا، دروازہ میں کھولوں گی کیونکہ میری نظر میں استقبال درحقیقت کسی کی آمد پر دلی کیفیات اور حَسین جذبات کا اظہار ہوتا ہے اور یہ حُسن کی موجودگی کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔میں ابھی غزل کی ہدایت سن کر اس کا تجزیہ بھی نہیں کر پایا تھا کہ اس نے دروازہ بند کر لیا۔میں اپنا سا منہ لئے رہ گیا۔ اسی اثناءمیں امی جان بھی پہنچ گئیں۔ اب میں نے دروازے پر دستک دی، غزل نے دروازہ کھولا، امی اندر داخل ہوئیں اورکچھ دیرکے بعد ”درِ کاشانہ¿ غزل“دوبارہ وا ہوا۔میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا، ایسا لگ رہا تھاجیسے اس نے ”استخوانی قفس“ سے آزاد ہونے کی ٹھان لی ہے۔ میں اندر داخل ہوا،پلٹ کر دیکھا تو دروازے کے پیچھے غزل گلابی کارچوبی ساڑھی میں ملبوس ، دیوار سے ٹیک لگائے کھڑی تھی،اس کے شانے سے ڈھلکتی چوٹی میں گندھے گلاب سے” وداع“ ہونے والی پتیاں غزل کے قدموں میں بچھی جا رہی تھیں۔غزل کا چہرہ اس گلاب آگیں ماحول میں یوں لگ رہاتھا جیسے چاند، نیلگوں آسمان سے گلگوں آسمان کے جلو میں آگیا ہو۔اس نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ میں نے سبب پوچھا توکہنے لگی”پرفیکٹ میچ“، میں نے کہا اس کا کیا مطلب؟ وہ کہنے لگی کہ شاعر نے ایک مرتبہ کہا تھا ناں کہ میں نے آنکھیں بند کر کے تم سے محبت کی ہے، آج غزل کہہ رہی ہے کہ میں نے آپ سے محبت کر کے آنکھیں بند کر لی ہیں، یہ ”پرفیکٹ میچ“ ہوا ناں؟میں اس کا یہ جواب سن کر ایک مرتبہ پھر گنگ ہوگیا۔ میں نے استفسار کیا کہ آخر تمہیں یہ عقدے کون سمجھاتا ہے، اس نے ہمیشہ کی طرح وہی جواب دیا ”مس ٹیوٹر“کے سوا کون ہو سکتا ہے؟
اسے بھی پڑھئے:جیسے حُسن کے بغیر حَسین
میں نے بھی غزل کے استقبال کی تیاری کی تھی، اس کے کمرے کو پھولوں سے سجایا تھا، اس کی خصوصی پسند ”سندھی بریانی“ خاص طورپر تیار کروائی تھی۔جیسے ہی کمرے میں داخل ہو کر پنکھا چلایا تو اس کی پنکھڑیوں پر رکھی گلاب کی پتیاںزمیں بوسی کے لئے فرش پرآنے لگیں۔وہ کہنے لگی ، آج مجھے اس سوال کا جواب دےجئے کہ کیا آپ مجھ سے واقعی میں اتنی محبت کرتے ہیںکہ جس کی انتہاءمیرے تصور سے بالا ہے؟ میںنثر میں جواب دے کر غزل کے سوال کو پامال نہیں کرنا چاہتا تھااس لئے اپنے احساس کو شعری قالب میں ڈھال کرکہا کہ :
زبانِ دل نے تمہیں جانِ من پکارا ہے
یہ میرے عشق کا ادنیٰ سا استعارا ہے
یہ سوچ، پیار، یہ احساس، یہ حیات سبھی 
جو کل تلک تھا مرا، آج سب تمہارا ہے
یہ شعر سن کر ایسا لگا جیسے اس کی آنکھوںنے نغمہ بار ہونا سیکھ لیا ہو، ان میں سرمئی چمک ، بجلی کی طرح کوند رہی تھی۔ اس نے دادآور انداز میں اپنی نگاہیں میرے چہرے پر کسی مہرِ تصدیق کی طرح ثبت کر دیں، اسی دوران اس کی زباں سے منظوم کلمات یوںادا ہوئے: 
جدا جدا تھے کبھی، آج یہ حقیقت ہے
نہ یہ ترا ہے، نہ میرا ، یہ سب ہمارا ہے 
(باقی آئندہ)
 

شیئر: