Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”عشق بے پناہ“، رو بہ زوال ڈرامہ انڈسٹری کیلئے ”حیات بخش ٹانک“

محمد راحیل وارثی
ایک دور تھا جب پاکستانی ڈراموں کو اعلیٰ معیار، عمدہ کہانیوں اور معاشرتی مسائل کا خوبصورتی سے احاطہ کرنے پر نہ صرف وطن عزیز بلکہ ہندوستان میں بھی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور اُن کا طوطی سارے جہاں میں بولتا تھا۔ ان ڈراموں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب وہ سرکاری ٹی وی پر پیش کئے جارہے ہوتے تھے تو اکثر شہروں کی سڑکوں پر سناٹے کا راج ہوتا تھا۔ لوگ تفریح کے اس نادر موقع سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے ۔ ناظرین اس موقع کو گنوانا بھی نہیں چاہتے تھے کیونکہ اُس وقت صرف اکلوتا پی ٹی وی ہی ہوتا تھا جو سرکار کی ملکیت تھا۔
پھر یوں ہوا کہ وقت بدلا، مشرف دور میں بڑے پیمانے پر نجی چینلوں کی آمد ہوئی۔ ابتدا میں زیادہ تر ٹی وی چینل، خبروں کے ہی تھے، پھر رفتہ رفتہ انٹرٹینمنٹ چینل متعارف کرائے گئے۔ اس سے ان کے درمیان مقابلے کے مثبت رُجحان کو فروغ ملا۔ شروع شروع میں تو اس میدان میں کئی اچھی اور بامقصد کہانیاں سامنے آئیں اور اُن معاشرتی مسائل کو بھی مناسب طور پر اُجاگر کیا گیا جن سے پہلے صرفِ نظر کیا جاتا تھا۔ پذیرائی ملنی یقینی تھی، خوب ستائش ہوئی۔ پھر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ اس شعبے سے وابستہ لوگ سہل پسندی کا شکار ہوگئے۔ ایک جیسی روایتی کہانیوں، کرداروں کے اُلٹ پھیر کے ذریعے بعض مصنفین اپنے کھاتے میں ڈراموں کی تعداد تو بڑھاتے رہے مگر معیار برقرار نہ رکھ سکے اور نئی کہانیوں کا قحط بڑھتا ہی چلا گیا۔ 
دوسری جانب ناظرین بھی ایک جیسی کہانیوں سے اُکتانے لگے۔ ایک جیسے مارننگ شوز نے بھی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو زوال کی جانب گامزن کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سماج پر بھی اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ یہی روش اب انٹرٹےنمنٹ انڈسٹری کو، جس نے نجی چینلوں کی آمد کے ساتھ مثبت اور درست سمت کا انتخاب کیا تھا، دیمک کی طرح چاٹ کے کھوکھلا کرچکی ہے اور آج وہ بدترین بحران سے دوچار نظر آتی ہے۔ اس صنعت سے وابستہ لوگ سنگین معاشی مسائل کی لپیٹ میں ہیں۔ بعض چینلوں میں توکئی کئی مہینوں سے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی رُکی ہوئی ہے۔ بڑے بڑے انٹرٹینمنٹ چینلز اپنی بقا کے لئے کوششوں میں مصروف ہےں۔ عالم یہ ہے کہ ڈراموں کی طویل فہرست میں ایک آدھ ہی کوئی ایسی کہانی سامنے آپاتی ہے جس سے ناظرین متاثر ہوتے ہیں۔ 
ایسے دگرگوں حالات میں ڈرامہ انڈسٹری کو اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بامقصد ، نئے اور منفرد ڈرامے تخلیق کیے جائیں جن کے ذریعے معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل سے لوگوں کو نہ صرف آگہی دی جائے بلکہ ان کے حل بھی سامنے لائے جائیں۔ 
حال ہی میں ایک روایت شکن کہانی ”عشق بے پناہ“ کی صورت سامنے آئی ہے جو ڈرامہ انڈسٹری کے موجودہ بحرانی دور میںہوا کے خوش گوار جھونکے کی مانند ہے۔ اس سوپ میں ہمارے معاشرے کے لوگوں کی محدود اور منفی سوچ نیزصنف نازک کے متعلق انتہائی فرسودہ خیالات کو نہ اصرف اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ اس کے ذریعے کئی سلگتے سوالات کو بھی اُٹھایا گیا ہے۔ اس سوپ کا ذکر کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کیونکہ گزشتہ دنوں اس کے ایک ڈائیلاگ کو سوشل میڈیا پر خوب تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے ایک کردارنے یہ جملہ بڑے دلدوز انداز میں ادا کیا ہے جو اپنے اندر گہری فکر لئے ہوئے ہے لیکن سوشل میڈیا پر اندھی تقلید کے عادی لوگوں نے اس جملے پر خوب غل غپاڑہ مچایا ، یہ جانے بغیر کہ کردار نے یہ جملہ ڈرامے میں کن حالات اور کس کیفیت سے دوچار ہونے کے بعد اور کیونکر ادا کیا ہے۔ لوگوں کو اتنی عقل تو ہونی چاہئے کہ اکثر ڈرامے حقیقی کہانیوں سے متاثرہوکر ہی تخلیق کئے جاتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں ڈرامائی موڑ آتے رہتے ہیں اور اس جیسے کئی ڈائیلاگز اُن کا حصّہ بنتے ہیں جنہیں معاشرے میں جاری ظلم و ستم کے خلاف ایک آواز کے طور پر ڈرامہ رائٹر اپنی تخلیق کا حصّہ بناتے ہیں۔ اس کا مطلب ہرگز کسی کی دل آزاری نہیں ہوتا بلکہ اصل مقصد معاشرے کے سُلگتے مسائل اور ان میں کرب کی کیفیت سے گزرنے والوں کے دل کے حال اور اُن کی زندگی کے عذابوں کی عکاسی بہتر طور پر کرنے کی کوشش ہوتی ہے ۔ یہ عنصر ڈرامے کی ضروریات میں شامل ہوتا ہے مگر اس سوچ کا کیا کیا جائے کہ ہمارے لوگوں کو بال کی کھال نکالنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ فکری اور نظریاتی طور پر وہ ایک دائرے تک محدود ہوتے ہیں اور وہ لاحاصل مباحث میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔ اس سے وہ کسی طور باز نہیں آتے۔ اس طرح کرنے سے سماج کو لاحق مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اُن میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور ویسے بھی سماجی ذرائع ابلاغ میں ایسے فارغ لوگوںکی کمی نہیں جوفضولیات میں دل چسپی لینے کی عادتِ بد میں مبتلا ہیں۔
بہرحال ہماری ڈراموں کی صنعت کو دوبارہ بلندیوں پر پہنچانے کےلئے ”عشق بے پناہ“ ایسی کئی کہانیوں کی ضرورت ہے۔ اس سوپ کے ہدایت کار محمد مصور خان ہیں جو اس سے قبل کئی اہم اور کامیاب ڈراموں میں بحےثےت مصنف اور ہدایت کار اپنا حصہ ڈال چکے ہیں۔ اس کہانی کے ذریعے شائقین کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ عورت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہونے کے ساتھ ایک جیتی جاگتی انسان بھی ہے، اُس کے بھی جذبات ہیں۔ اگر کوئی اُس کے ساتھ ناانصافی کرتا ہے یا اس کی توہین کرنے کی کوشش کرتاہے تو اس میں اُس کا کوئی قصور نہیں، وہ بے چاری تو مظلوم ہے۔ وہ ہر لحاظ سے لائق عزت و احترام ہے۔ آخر اُسے ہی سماج کیوں موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ سزا کی مستحق وہی کیوں ٹھہرتی ہے۔ اصل قصوروار تو اُس کے ساتھ ناانصافی برتنے والا فرد ہے۔ یہ رُجحان ساز سوپ ہماری ڈرامہ انڈسٹری کے لئے ”حیات بخش ٹانک“ کی مانند ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف اب اس صنعت سے وابستہ لوگوں کو بامقصد ڈراموں اور پروگراموں کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ جس سے معاشرے میں بہتری آئے اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری ایک بار پھرزوال سے کمال کی جانب گامزن ہوسکے۔  

شیئر:

متعلقہ خبریں