Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سمر قند کی دوبارہ فتح ، تاریخ اسلامی کا ایک انوکھا واقعہ

 عظیم قائد قتیبہ بن مسلم ہمارے ملک میں دھوکے سے داخل ہوئے،ہمارے سامنے کوئی شرائط نہیں رکھیں، ہمیں اسلام کی دعوت بھی نہیں دی

* *  *عبد المالک مجاہد۔ریاض** *

    وسطی ایشیا کی بلاد ما وراء النہر کی روسی ریاست ازبکستان کا مشہور شہر سمر قند بہت خوبصورت شہر ہے۔ ابن بطوطہ اس شہر کے بار ے میں لکھتے ہیں: یہ نہایت وسیع وعریض اور حُسن وجمال میں یکتا شہر ہے۔اس میں عالی شان محلات اور فن تعمیر کی شاہکار عمارات ہیں جو اس کے باشندوں کی عالی ہمتی اور کاریگری پر دلالت کرتی ہیں۔‘‘
    اس عظیم الشان شہر کو فتح کرنے والے مشہور مسلم جرنیل اور قائد قیبہ بن مسلم باہلی تھے۔ وہ 49ہجری میں عراق کے شہر بصرہ میں پیدا ہوئے۔محض 47سال کی عمر میںوہ اس جہان فانی سے رخصت ہوجاتے ہیں اور 96ہجری میں ازبکستان میں ان کی قبر بنتی ہے۔قتیبہ کے والد بہت بڑے فوجی افسر تھے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ قتیبہ کی تربیت گھوڑوں کی پیٹھ پر ہوئی تھی۔
    سمرقند ازبکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔اس شہر کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ سمرقند کا معنیٰ ’’ زمین کا قلعہ‘‘ ہے۔ قتیبہ بن مسلم باہلی کے بارے میں اتنا جان لیجیے کہ ان کے جسم میں چین نہ تھا ۔ وہ ہر وقت اپنے آپ کو گھوڑے پر سوار دیکھنا چاہتے تھے۔اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ انہوں نے کتنی فتوحات کیں۔87ہجری میں قتیبہ بن مسلم نے اموی دور حکومت میں سمر قند کو فتح کیااور اس پر اسلام کا جھنڈا لہرایا۔
    قارئین کرام!یہ سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے عہدخلافت میں ہونے والا ایک نہایت منفرد نوعیت کا واقعہ ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ دنیا میں ایسے عادل حکمران بھی گزرے ہیں۔
    سمر قند کی ایک گہری سرد رات میں ایک شخص اپنے گھر سے چاروںطرف گھپ اندھیرے میں نکلتا ہے۔ اس کا رخ شاہی محل کی طرف ہے۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اندھیرے میں راستہ تلاش کرتا بالآخر محل کے قریب جا پہنچا۔ اس کے ایک جانب معبد ہے۔ اس کے دروازے پر ایک بہت بھاری پتھر رکھا ہوا ہے۔ جس پر مورتیاں کھدی ہوئی ہیں۔ اس پر رعب طاری ہے۔ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ معبد میں داخل ہونے والا ہے۔ اس سے پہلے اس کو کبھی یہ موقع میسر نہیں آیا۔
    یہ بھاری بھرکم نوجوان بزدل نہیں بلکہ نہایت بہادر شخص ہے۔ اس کا قد خاصا لمبا ہے۔ نہایت ذہین وفطین ہے۔ سوچ و فکر بلند ہے۔ نہایت مدبر ہے۔ مقامی زبان تو اس کی مادری ہے مگر اس میں ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ اس کو عربی زبان پر عبور حاصل ہے اور وہ فر فر عربی زبان بولتا ہے۔ اسے معبد کے سب سے بڑے عہدے دار نے ملاقات کے لیے بلوا رکھا ہے۔اس ملاقات کے شوق اور خوف نے اسے ایک عجیب کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس کا جسم کانپ رہا ہے۔ اس معبد میں بہت کم لوگ ہی داخل ہو سکتے ہیں اور جو اس کے ذمہ داران ہیں وہ تو ایک مرتبہ داخل ہوتے ہیں اور پھر سار ی زندگی ان کو سورج کی روشنی نصیب نہیں ہوتی۔ وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھتا گیا اس کے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ اگلے کمرے کے وسط میں اس نے ایک عظیم ڈیل ڈول والے شخص کو دیکھا، اس کی سفید لمبی داڑھی تھی۔ اس نے اس کو اس کے نام سے پکارا اور اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ اسے سمجھ آگئی کہ یہ معبد کا چوکیدار ہے۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتا گیا ۔ کئی غلام گردشوں سے گزرنے کے بعد کا ہنوں کے سردار کے سامنے جا پہنچا۔ ان کو کسی نے نہیں دیکھا۔ وہ معبد سے کبھی نکلتے ہی نہیں۔ بہت کم لوگ ہی ان سے ملاقات کر پاتے ہیں۔ اس ملک کے حقیقی حکمران یہی کاہن تھے۔ کوئی بھی ان کی مخالفت کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔ لوگوں میں یہ بات معروف تھی کہ ان کی حکم عدولی دراصل خدائوں کی نافرمانی کے مترادف ہے اور ایسے لوگ لعنت کے مستحق ہوں گے۔
    اس نوجوان کی نگاہیں دہشت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا۔ کاہن ایک صف میں کھڑے تھے۔ اس نے بڑے کاہن کی طرف اپنے کان لگا دیے جو آہستہ آہستہ گفتگو کر رہا تھا۔ پہلے تو اسے کچھ سمجھ نہ آئی، مگر بتدریج اس کو مفہوم سمجھ آنے لگا کہ وہ سمرقند کی تاریخ ،اس کا ماضی بیان کر رہا تھا… اور پھر کس طرح مسلمانوں نے اس ملک پر قبضہ کر لیا ہے۔ ہم نے اس قبضہ کے خلاف کتنی ہی ناکام کوششیں کیں مگر اب ان کا اقتدار بتدریج پکاہوتا جا رہا تھا۔ اب ہم آخری حربہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
     ہم نے سنا ہے کہ اس قوم کا بادشاہ نہایت عادل شخص ہے۔ وہ دمشق میں رہتا ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کے پاس اپنا ایلچی بھیجا جائے۔ جس کے ہاتھ ہم اپنی شکایت ارسال کریں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اس بارے میں کیا کرتا ہے۔ چونکہ تم عربی زبان سے واقف ہو، لہٰذا ہم نے اس اہم کام کے لیے تمہیں منتخب کیا ہے۔ تم نہایت ذہین اور دلیر بھی ہو۔ گفتگو کا فن جانتے ہو۔ کیا تم اس کام کے لیے آمادہ ہو؟ نوجوان نے اثبات میں جواب دیا۔
    بڑا کاہن کہنے لگا: پھر فوری طور پر اپنے سفر پر روانہ ہو جائو۔ تمہیں زاد راہ وافر مہیا کر دیا جائے گا۔ نوجوان وہاں سے نکلا تو خوشی اور مسرت اس کے چہرے پر عیاں تھی۔وہ سوچ رہا تھا: آج سب سے بڑے کاہن نے مجھے شرف باز یابی بخشا ہے۔ مجھے ایک عظیم مشن کے لیے منتخب کیا ہے۔ اب وقت ہے کہ میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکوں۔ سمرقند کو آزادی دلانے میں میرا بھی حصہ ہو گا۔ وہ گھر واپس آیااور سفر کی تیاری کرنے لگا۔ معبد کی طرف سے اس کو زاد راہ وافر مقدار میں مہیا کر دیا گیا۔ اس کا تیز رفتار گھوڑا اس کے ہمراہ تھا۔ وہ اس پر سوار ہوا، اس کا رخ بخارا کی طرف تھا۔ وہ مہینوں کا سفر ہفتوں میں طے کرتاحلب پہنچ گیا۔ دمشق اس کی آخری منزل تھی جو اب بالکل قریب تھی۔ پھر وہ دن بھی آیا جب وہ دمشق میں داخل ہو رہا تھا۔
    دمشق جو مسلمانوں کا دارالخلافہ تھا۔ ان کی عظمت کا نشان بہت بڑا شہر ٗ نہایت صاف ستھرا ٗ تہذیب یافتہ ٗ اسے یہ سمر قند سے کہیں بڑا نظر آیا۔    وہ ایک سرائے میں اترا اور اس کے مالک سے پوچھا کہ امیر المؤمنین سے ملنے کا کیا طریقہ ہے۔
    سرائے کے مالک نے کہا کہ ہمارے امیر المؤمنین سے ملنا نہایت آسان ہے۔ تم مسجد اموی کی طرف چلے جائو، وہاں کسی بھی شخص سے ان کے گھر کا راستہ پوچھ لینا۔ وہاں پر کوئی پہرے دار نہیں ہے ،نہ ہی ملاقات پر کوئی پابندی ہے۔
    وہ مسجد اموی میں داخل ہوا۔ ایسی خوبصورت عمارت اس نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔ اس نے خیال کیا کہ یہی شاہی محل ہو سکتا ہے چنانچہ اس نے ایک شخص سے پوچھ ہی لیا۔ اس کے لہجے اور شکل سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اس شہر میں اجنبی ہے۔ اس نے کہا: کیا تم قصر خلافت کے بارے میں جاننا چاہتے ہو؟
    مگر کیا یہ قصر خلافت نہیں ہے؟ اس نے تعجب سے پوچھا۔ اس شخص نے مسکراہٹ بھرے لہجے میں کہا: نہیں اجنبی دوست! یہ تو اللہ کا گھر ہے، یہ مسجد ہے،مسلمانوں کی عبادت کی جگہ ہے۔ کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے؟    نماز… میں کیسے نماز ادا کر سکتا ہوں میں تو سمر قند کے کاہنوں کے دین پر ہوں۔جس دین کو کاہنوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، جو اسرار ورموز سے بھرا ہوا ہے؟!
    آدمی نے سمر قندی سے دوبارہ سوال کیا تو اس نے کہا:
    میں نماز کیسے پڑھوں، مجھے نماز کا طریقہ بھی معلوم نہیں۔
    اس نے پوچھا:  تمہارا دین کیا ہے؟کہنے لگا:
     میں سمر قند کے کاہنوں کے دین پر ہوں۔
    سوال ہوا: ان کا دین کیا ہے؟
    جواب ملا:  مجھے معلوم نہیں۔
    سوال : پھر تمہارا رب کون ہے؟
    اس نے جواب دیا: معبد کا خدا۔
    اب اس نے اگلا سوال کیا: اگر تم اس سے مانگو تو کیا تمہیں عطا کرتا ہے اور اگر تم بیمار ہو تو تمہیں شفا دیتا ہے؟
    کہنے لگا: مجھے معلوم نہیں۔
    اس شخص نے موقع غنیمت جانا کہ ایک شخص شکل و صورت سے ذہین و فطین ہے، اجنبی ہے ٗ اس کا کوئی دین اور مذہب نہیں، اس کو دین کے اصول بتائے جائیں چنانچہ اس نے اسلام کی خوبیاں بیان کیں اور پھر چند ساعتوں کی بات تھی اس سمر قندی کے دل کا غبار چھٹ گیا اور اس نے کلمہ توحید پڑھ لیا اوردین اسلام میں داخل ہو گیا۔
    اب اس شخص نے اپنے اس نو مسلم بھائی سے کہا: چلو !ہم امیر المؤمنین سے ملنے کے لیے چلتے ہیں۔ ہر چند کہ یہ وقت انہوں نے گھر والوں کے لیے مختص کیا ہوا ہے، مگر پھر بھی وہ ہم سے مل لیں گے کیونکہ وہ بہت متواضع ہیں۔ مسجد سے نکل کر وہ گلی میں آئے۔ نہایت ہی سادہ سے دروازے کی طرف اشارہ کر کے اس نے بتایا کہ یہ امیر المؤمنین کا گھر ہے۔ اس کو تعجب ہوا۔ اس کا خیال تھا کہ بڑا عالیشان محل ہو گا، مگر یہ تو معمولی گھر ہے!! اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ خلیفہ عادل عمر بن عبدالعزیز نے اس کا حال پوچھا،آنے کا مقصد معلوم کیا: بتائو کیا مسئلہ ہے؟ اس نے عظیم سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کے خلاف مقدمہ دائر کیا کہ ہمارے ملک پر مسلمانوں نے قبضہ کیا ہے۔ یہ قبضہ دھوکے سے ہوا ہے، نہ تو اعلان جنگ ہوا اور نہ ہی ہمیں اسلام کی دعوت دی گئی، ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے۔
    عمر بن عبدالعزیز فرمانے لگے: اللہ کے نبی نے ہمیں ظلم کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ ہمیں عدل و انصاف کرنے کی تلقین کی ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ۔ آواز دی: اے غلام! کاغذ اور قلم لایا جائے۔
    غلام دو انگلیوں کے برابر کاغذ لے کر حاضر ہو گیا۔ اس پر 2 سطریں لکھیں، اس پر مہر لگائی، اس کو سر بمہر کر کے سمر قندی سے کہا کہ اسے اپنے شہر کے حاکم کے پاس لے جائو۔
    سمر قندی واپس ہوا۔ اب اس کا سینہ توحید کے نور سے بھرا ہوا تھا۔ جہاں پر جاتا وہاں سیدھا مسجد میں داخل ہوتا۔ نماز پڑھتا اور اپنے مسلمان بھائیوں سے ملاقات کر کے اپنی منزل کو روانہ ہو جاتا۔اس سفر کی ایک عجیب لذت تھی۔ اب اس کے لیے کوئی شخص اجنبی نہ تھا نہ وہ دوسروں کے لیے اجنبی۔ مسجد میں جاتا نماز ادا کرتا ۔ لوگ اس کی طرف دیکھتے، اس کی شکل و شباہت سے پتہ چل جاتا کہ وہ مسافر ہے۔ اس علاقے کی کسی بستی کا رہنے والا نہیں اور پھر نمازیوں میں اس کی مہمان نوازی کے لیے مقابلہ شروع ہو جاتا۔ ہر کوئی اسے اپنے گھر میں لے جانے، اس کی ضیافت کے لیے اصرار کرتا۔ اب اس کو مسجد کی اہمیت اور اس دین حنیف کی بے شمار خوبیوں کا ادراک ہو چلا تھا۔ پھر ایک دن آیا جب وہ سمر قند میں داخل ہو رہا تھا۔ وہ سیدھا معبد کی طرف گیا۔ اس نے کاہنوں کو رپورٹ دینی تھی۔ ان کو خلیفۃ المسلمین کے جواب سے مطلع کرنا تھا۔ وہ معبد میں داخل ہوا۔ اب وہ اس کی تاریک گلیوں اور غلام گردشوں سے خائف نہیں تھا۔
    پتھروں سے بنے ہوئے بت جو کبھی اس کے لیے معمہ سے کم نہ تھے، اب ان کی حقیقت سے واقف ہو گیا تھا۔ یہ بت تو ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ کسی کاریگر کے ہاتھوں کارپینٹر کا کمال ٗ نہ نفع ونقصان کے مالک ٗاپنے آپ کو کلہاڑے کی ضرب سے نہ بچا سکنے والے، وہ ان پر حقارت کی نظر ڈالتا ہوا بڑے دروازے پر جا پہنچا۔ دربان اس کو خوب پہچانتا تھا۔ پھر اس کے لیے دروازے کھلتے چلے گئے۔ چند منٹوں کے بعد وہ بڑے کاہن کے سامنے کھڑا تھا۔ کاہن کو اسے دیکھ کر اعتبار نہ آیا۔ اس کا خیال تھا کہ اس کو قتل کر دیا گیا ہو گا، مگر ان کا ایلچی ان کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے ان کو تفصیل سے سفر کے حالات بیان کیے۔ کیسے گیا ٗ کہاں کہاں سے گزرا۔ اس نے اپنے اسلام لانے کا واقعہ وہ جان بوجھ کر نہ بتایا۔ خلیفہ سے ملاقات اور حکم نامہ حاصل کرنے تک ایک ایک بات ان کے گوش گزار کی گئی۔ کاہنوں کے چہروں پر مسکراہٹ چھا گئی۔ بشاشت ان کے چہروں سے عیاں تھی۔ ہماری آزادی کا وقت آگیا ہے۔ خلیفہ کی طرف سے واضح آرڈر ہے کہ قاضی کے سامنے اس مقدمہ کو پیش کیا جائے ،کاہنوں کو مکمل آزادی ہو گی کہ وہ اپنے دلائل دیں۔ مدعا علیہ قتیبہ بھی عدالت میں کٹہرے میں کھڑا ہو گا اور پھر قاضی جو بھی فیصلہ دے اس کو نافذ کیا جائے گا۔
    آخر کار وہ دن آگیا جس کا اہل سمر قند کو انتظار تھا۔ بے شمار لوگ اس تاریخی مقدمہ کی کاروائی سننے کے لیے چلے آئے۔ عدالت مسجد میں لگی ہوئی ہے۔ وہ کاہن جن کو کبھی کسی شخص نے نہ دیکھا تھا۔ مقدمہ کی پیروی کے لیے حاضر تھے۔ مسلمانوں کا سپہ سالار قائد فاتح قتیبہ بن مسلم بھی حاضر ہے۔ سب کے سب قاضی کے منتظر ہیں۔
    کاہن کس بات کی امیدپر مقدمہ لے آئے ہیں؟ ذرا غور کیجیے، ایک فاتح قوم مفتوح علاقوں سے نکل جائے۔ مقدمہ جس شخصیت پر دائر کیا گیا ہے وہ عظیم قائد اور سپہ سالار ہے۔ نگاہیں مسجد کے دروازوں کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ کب قاضی داخل ہوتا ہے۔ حاضرین کو بہت زیادہ دیر نہیں کرنی پڑی، ایک چھوٹے قد کا نحیف جسم کا مالک ٗ معمولی لباس پہنے ہوئے سر پر عمامہ رکھے دروازے سے داخل ہوا۔ اس کے پیچھے اس کا غلام ہے۔ لوگوں میں سناٹا چھا گیا۔ بعض نے اپنی انگلیاں منہ میں دبا لی ہیں۔ اچھا یہ ہے مسلمانوں کا قاضی۔ یہ خلیفہ اور سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کے خلاف فیصلہ دے گا۔
    قاضی نے مسجد کے ایک کونے میں اپنی نشست کو سنبھالا۔ اس کا غلام اس کے سر پر کھڑا ہے۔ بغیر کسی لقب کے امیر کا نام لے کر اسے بلایا جا رہا ہے، کہ وہ عدالت کے سامنے حاضر ہو۔ امیر شہر حاضر ہوا۔ عدالت نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اب غلام کاہنوں کے سردار کو بلوا رہا ہے جو امیر کے ایک طرف بیٹھ گیا اور اب عدالت کی کاروائی شروع ہوتی ہے۔قاضی اپنی نہایت پست آواز میں کاہن سے مخاطب ہے: بتائو تم کیا کہتے ہو؟اس نے کہا:
     ان القائد المبجل قتیبۃ بن مسلم قد دخل بلدنا غدرا من غیر منابذہ ولا دعوۃ إلی الإسلام۔
     ’’ عظیم قائد قتیبہ بن مسلم ہمارے ملک میں دھوکے سے داخل ہوئے۔ہمارے سامنے کوئی شرائط نہیں رکھی گئیں اور ہمیں اسلام کی دعوت بھی نہیں دی گئی۔‘‘
    قاضی نے اب امیر کی طرف دیکھا کہ تم کیا کہتے ہو؟
    فاتح جرنیل نے قاضی کو دیکھا اوریوں گویا ہوا: قاضی کی خیر ہو!
    إِنَّ الْحَرْبَ خَدْعَۃٌ وَہَذَا بَلَدٌ عَظِیمٌ قَدْ أَنْقَذَہُ اللَّہُ بِنَا مِنَ الْکُفْرِ وَأَوْرَثَہُ الْمُسْلِمِینَ۔
    ’’لڑائی تو دھوکے کی چالوں پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ ملک بہت بڑا ملک اس کے باشندوں کو اللہ تعالیٰ نے کفر و شرک سے محفوظ فرمایا ہے اور اسے مسلمانوں کی ملکیت اور وراثت میں دے دیا ہے‘‘۔
    قاضی: کیا تم نے حملے سے پہلے اہل سمر قند کو اسلام کی دعوت دی تھی یا جزیہ دینے پر آمادہ کیا تھا یا دونوں صورتوں میں انکار پر لڑائی کی دعوت دی تھی؟
    سپہ سالار:جی نہیں! ایسا تو نہیں ہوا۔
    قاضی: إِنَّکَ قَدْ أَقْرَرْتَ۔’’تو گویا آپ نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا‘‘۔
    اب آگے قاضی کے الفاظ پر غور کریں:
    وَإِنَّ اللّٰہَ مَا نَصَرَ ہَذِہِ الأُمَّۃَ إِلَّا بِاتِّبَاعِ الدِّینِ وَاجْتِنَابِ الْغَدَرِ۔    ’’اللہ رب العزت نے اس امت کی مدد صرف اس وجہ سے کی ہے کہ اس نے دین کی اتباع کی اور دھوکہ دہی سے اجتناب کیا‘‘۔
    وَإِنَّا وَاللّٰہِ مَا خَرَجْنَا مِنْ بُیُوتِنَا إِلَّا جِہَادًا فِي سَبِیلِ اللّٰہِ مَا خَرَجْنَا لِنَمْلِکَ الأَرْضَ۔
    ’’اللہ کی قسم! ہم اپنے گھروں سے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکلے ہیں، ہمارا مقصود زمین پر قبضہ جمانا نہیں ہے‘‘۔
    وَلَا لِنَعْلُوَ فِیہَا بِغَیْرِ الْحَقِّ، حَکَمْتُ بَأَنْ یَخْرُجَ الْمُسْلِمُونَ مِنَ الْبَلَدِ۔
    ’’نہ ہی حق کے بغیر وہاں حکومت کرناہمارا مقصد تھا۔ میں فیصلہ دیتا ہوں کہ مسلم فوج اس ملک سے نکل جائے۔‘‘
    وَیَرُدُّوہُ إِلَی أَہْلِہِ ثُمَّ یَدْعُوہُمْ وَیُنَابِذُوہُمْ وَیُعْلِنُوا الْحَرْبَ عَلَیْہِمْ۔    ’’اس کے اصل باشندوں کو حکومت واپس کریں،پھر اس کو دعوت دین دیں ،چیلنج دیں اور پھر ان سے لڑائی کا اعلان کریں۔‘‘
(جاری ہے)
 

مزید پڑھیں:- - - -اسلام میں بیٹی کا مقام اور بے دست و پا حکایات

شیئر: