Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جمہور کی حاکمیت ، اسلام میں گنجائش ہے ؟

اسلام میں قوم پرستی صرف حرام ہی نہیں بلکہ اس کو جہالت کہا گیا،یہ ایسی جہالت ہے جو قوموں کو زوال کی طرف لے جاتی ہے
 
 * * *اللہ بخش فریدی۔ فیصل آباد * * *

لبرل ازم مذاہب کا دشمن ہے۔ یہ براہ راست مذاہب سے ٹکراتا ہے کیونکہ لبرل ازم انسان سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ خود کو صرف اور صرف لبرل تصور کا پابند بنائے۔مذہب اپنی فطرت میں انسان کو اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیتا ہے۔ کوئی بھی مذہب انسان کو مقتدر قرار نہیں دیتا اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق عمل اختیار کرے۔
    مذہب انسان کو ایک مخصوص نظم و ضبط کا پابند کرتا ہے چاہے وہ نظم و ضبط اس کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہو یا صرف اخلاقی اور روحانی مسائل تک محدود ہو۔ لبرل ازم اللہ سبحانہ و تعالی کی جگہ انسان کو رب بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کا نقاب کو مسترد کرنا لبرل ازم کے عین مطابق ہے۔ نقاب اس بات کا مظہر ہوتا ہے کہ انسان نے خود کو اپنے رب کی خواہش کا پابند کردیا ہے اور یہ چیز پورے لبرل مغربی دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے چاہے ان تمام ممالک نے اس کو غیر قانونی قرار نہیں دیا ۔ ایک حقیقی لبرل انسان مذہب کا پابند نہیں ہوسکتا۔ ایک لبرل انسان مذہب کی کچھ باتوں پر عمل یا اجتناب اختیارکرسکتا ہے لیکن ایسا وہ اپنی مرضی اور خواہش کے تحت ہی کرتا ہے۔
    لبرل انسان اپنے رب کی نہیں بلکہ خود اپنی پرستش کرتا ہے۔ یہ اس مقتدر کی پرستش ہے جسے اس نے خود اپنے لیے چناہے کہ اس نے کس طرح سے سوچنا ہے اور اپنی خوشی کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اگر وہ اپنے رب کی عبادت بھی کرتا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ خود کو اس بات کا پابند سمجھتا ہے بلکہ وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ وہ اس کی خواہش رکھتا ہے۔ لبرل انسان اس بات میں خوشی محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی مسلمان کو نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ شراب پیتا ہوا ،ہر قسم کی ضلالت، لہو و لعب میں پڑا، ناچ گانا کرتے ہوئے بھی دیکھے۔ لبرل اس طرح کے مسلمان کو اعتدال پسند اور روشن خیال سمجھتا ہے، جس سے اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ مذہب میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔ ایک حقیقی لبرل انسان اس شخص سے شدید نفرت کرتا ہے جو خود کو اپنے رب کے سامنے مکمل طور جھکا دیتا ہے۔
    لبرل ازم یعنی آزادی تباہ کن، باغیانہ اور مفاد پرستی کا تصور ہے جو انسان کو اپنی خواہشات اور مفاد کے تحت چلنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ ایک جھوٹا فلسفہ ہے جس نے کئی نسلوں کو دھوکہ دیا اورعملاً طاقتور کو اقتدار اعلیٰ دے کر دنیا میں جبر اور استحصال کا ماحول پیدا اور عام کیا۔ یہ تصور پہلے بھی عیسائی اور اسلامی تہذیبوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاچکا ہے جنہوں نے دنیا پر ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک اپنی بالادستی برقرار رکھی تھی۔ خلافت عثمانیہ کو توڑنے کیلئے لبرل ازم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔اب اس تصور کودوبارہ اسلام کو ایک بالادست قوت بننے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
    برطانوی فلسفی جان لاک وہ پہلا شخص ہے جس نے لبرل اِزم کو باقاعدہ ایک فلسفہ اور طرزِ فکر کی شکل دی۔یہ شخص عیسائیت کے مروّجہ عقیدے کو نہیں مانتا تھا اور نہ ہی خدا کو منصف گردانتا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا کہ بنی نوعِ انسان کو آدم کے اس گناہ کی سزا ایک منصف خدا کیوں کر دے سکتا ہے جو انہوں نے کیا ہی نہیں۔عیسائیت کے ایسے عقائد سے اس کی آزادی اس کی ساری فکر پر غالب آ گئی اور خدا اور مذہب پیچھے رہ گئے۔ انقلابِ فرانس کے فکری رہنما والٹئیراور روسو اگرچہ رسمی طور پر عیسائی تھے مگر فکری طور پر جان لاک سے متاثر تھے۔ انہی لوگوں کی فکر کی روشنی میں انقلابِ فرانس کے بعدفرانس کے قوانین میں مذہبی اقدار سے آزادی کے اختیار کو قانونی تحفّظ دیا گیا ۔ یہی یورپ کی خدا سے برگشتہ فکر ہے جس کی ذرا سخت قسم لبرل اِزم اور کچھ نرم سیکولر اِزم ہے۔ یہ لبرل ازم اور سیکولرازم ہی ہے جس نے موجودہ دور کے عصری تعلیمی اداروں میں ’’تصور وحی کی نہی‘‘ جیسے تعلیمی نظام کو فروغ دینے پر مجبور کیا ہے۔ نتیجتاً ہر خاص و عام، مادیت اور نفسانی خواہشات میں مبتلا ہوگیا۔
    لبرل ازم بذات خود ایک دین ہے جو مغرب کے آزاد، روشن خیال، اعتدال پسند، نفس پرست ذہنوں کی تخلیق کردہ ہے۔ لبرل ازم کا تصور ہر جمہوریت میںپایا جایا ہے، جمہوریت اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتی اور لبرل ازم جمہوریت کے بغیر قائم ہی نہیں ہوسکتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ شہریت کی مساوات کی بنیاد پر جمہوریت کا جنم لبرل نظریات اور تحریک کا نتیجہ ہے ۔تمام افراد کو بلا تفریق یہ حق حاصل ہے کہ وہ ریاست کے سیاسی انتظام کے لئے اہل قیادت منتخب کر سکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک ہوں یا دیگر،دونوں ہی لبرل ازم اور سیکولرازم کی جکڑ بندیوں میں بری طرح گھرے ہوئے ہیں۔
     مسلم ممالک کے بیشتر سیکولر اور لبرل حکمراں ذاتی مفادات کے پیش نظر مغربی طاقتوں کے ہمنوا بلکہ آلہ کاربنے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ، رسول، قرآن اور اسلام کا نام لیتے ہیں مگر عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے نفاذ سے بدکتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک آدمی بیک وقت مسلمان اور سیکولر یا لبرل ہو سکتا ہے۔ہمارے حکمران اکثر و بیشتر یہ بات کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کو سیکولر یا لبرل ہونا چاہیے اس کے بغیر ترقی نا ممکن ہے، اگر یہ نہ ہو تو دنیا میں عزت اور وقار نہیں ملے گا۔مشرف اپنے دور میں نعرہ لگاتا رہا روشن خیال ، اعتدال پسندی کا جس کے پیچھے لبرل تصور ہی تھا جواللہ تعالیٰ اور اس کے دین سے کھلی بغاوت ہے۔میاں صاحبان بھی اکثر پاکستان کو سیکولر و لبرل بنانے کا عزم کرتے رہتے ہیں۔
(3)نیشنل ازم ،یعنی قوم پرستی:
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
ساقی نے بنا لی روشِ لطف و ستم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
    قوم پرستی، وطن پرستی، قوم کا مفاد، وطن کا مفاد یہ مغرب کی تیسری یلغار ، تیسری تخریب کاری ہے جوسیکولرزم اور لبرل ازم کے بعد امت مسلمہ پر کی گئی۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا مسلم امہ الگ الگ قومیتوں اور ان کی سرزمین مختلف چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جائے اور ان میں واحد امہ کا تصور، مرکزیت ، اتحاد و یکجہتی ، باہمی تعاون و بھائی چارہ اور ایک دوسرے کی ہمدردی و خیر خواہی کا جذبہ بالکل ختم ہو جائے تاکہ ان کو قابو میں اور اپنے زیر تسلط رکھنا آسان ہو۔ یہ سب اپنے الگ الگ وطنوں اور قومیتوں کو پروان چڑھانے کا سوچیں، ان کے دوسرے مسلمان بھائی خواہ ڈوب رہے ہوں، بھوکے پیاسے مر رہے ہوں یا ان پر آگ و آہن کی بارش کی جا رہی ہو ، کوئی دوسرا آکر ان کی مدد و حمایت نہ کرے۔
    مختلف قومیں اپنی اپنی سیاست و مصلحت ، اچھے برے کی آپ ہی مالک و مختار ہوں، نیکی وہ ہے جو قوم کیلئے مفید ہو،خواہ وہ جھوٹ ہو،بے ایمانی ہو، دین سے دوری ہو، اللہ اور رسول کی نافرمانی ہو، ظلم ہو،فراڈ ہو یا اور کوئی ایسا فعل ہو جو دین و اخلاق میں بدترین گناہ سمجھا جاتا ہو اور بدی وہ ہے جس سے قوم کے کسی مفاد کو نقصان پہنچے خواہ وہ سچائی ہو،انصاف ہو، وفائے عہد ہو، ادائے حق ہو یا اور کوئی ایسی چیز ہو جس کا دین میں حکم ہو لیکن اگر وہ قوم اور و طن کے کسی مفاد کے خلاف جاتا ہو تو اسے انجام دینا گناہ تصور کیا جائے۔
     ملک کے افراد کی حب الوطنی اور محبت و اخلاص کا پیمانہ یہ ہونا چاہیے کہ ملک و قوم کا مفاد ان سے جس قربانی کا مطالبہ بھی کرے خواہ وہ جان و مال اور وقت کی قربانی ہو یا ضمیر و ایمان کی، اخلاق وانسانیت کی قربانی ہو یا شرافت نفس کی، بہرحال وہ اس میں دریغ نہ کریں اور متحد و منظم ہوکر ملک و قوم کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کوپورا کرنے میں لگے رہیںاور دوسری قوموں کے مقابلے میں اپنی قوم و ملک کا جھنڈا بلند کرنے کا جذبہ رکھیں۔یہ مغرب کا وہ وطن کا خدائی شرکیہ تصور ہے جس نے آج پوری امتِ مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے قومی، نسلی ، لسانی اور جغرافیائی لحاظ سے کئی حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ امت پر خلافت عثمانیہ کے دور سے اس کی یلغار شروع کی۔ خلافت عثمانیہ کو توڑنے کیلئے اس کی ریاستوں میں میر صادق میرجعفر ، اپنے تابع فرمان ایجنٹ تلاش کیے اور افراد کوحب الوطنی اور قوم پرستی پر اکسایا۔مصری ، شامی ، عراقی، سعودی،یمنی،عمانی، لبنانی، اردانی، ایرانی ، افغانی سب کو درس دیا کہ تمہاری اپنی قومی شناخت ہے ، کلچر ہے، ثقافت ہے ، لسانیت ہے تم ترکی کے زیر اثر خلافت میں کیا کر رہے ہو ؟اس کے زیر اثر تمہارے ا پنے ملک و قوم کا مستقبل کیا ہے؟ کیا تم نے ہمیشہ ایک مرکز پر دوسری قوموں کا غلام بن کر رہنا ہے ؟ الگ الگ ہو کے خود مختاربنو، اپنی اپنی قوم و طن کی شناخت بناؤاور اپنی تمام تر تگ ودؤ اور صلاحیتیں اپنے ملک و قوم کو پروان چڑھانے میں صرف کرو۔ یوں یہ تصور اور درس دے کراہل مغرب نے امت کی مرکزیت کو توڑا، خلافت کو ختم کیا، ایک دوسرے کے احساس ، ہمدردی کے جذ بات کو کچل کر خاک میں گاڑ دیا اور ان کی غیرت کا جنازہ نکال دیااورپھر اسی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ پوری امت کو چھوٹی چھوٹی خودمختاری ریاستوں میں بانٹ کر ان ریاستوں میں بھی انتشار اور نفرت کے بیج بونا شروع کر دئیے لسانی و نسلی بنیادوں پرکہ تم عربی ہو ، تمہاری نسل دوسروں سے اعلیٰ و برتر ہے، تم فارسی ہو،تم ازبک ہو، تم ترکش ہو، تم کرد ہو، تم افغانی ہو، تم سندھی ہو، تم پنجابی ہو، تم بلوچی ہو،تم پختون ہو، اور اب اس بھی آگے کی جاہلیت میں مسلمانوں کو لے جایا جا رہا ہے کہ زبان اور قبیلہ کے نام پر بھی امت کو فرقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امت کو الگ الگ ٹکڑوں میں بانٹ کے قومی، لسانی، نسلی ، قبائلی غرور ڈالا جا رہا ہے کہ تم ان کے مفاد کے خلاف کسی کے آگے نہ جھکنے، سر تسلیم خم کرنے کو تیار نہ ہونا خواہ وہ تمہارا حقیقی خدا ہی کیوں نہ ہو۔
یہ بت کہ تراشیدہ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانہ دین نبوی ہے
    مسلمانوںکو پہلے تو وطن و قوم کے نام پر مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیاپھر مسلمانوں کو مختلف دینی اور مذہبی عقائد میں تقسیم کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ مختلف آئمہ دین کے قائل و مقلیدلوگوں کو اکسایا کہ تم حنبلی ہو، تم مالکی ہو، تم شافعی ہو، تم حنفی ہو، تم جعفری ہو، تم سلفی ہو، اور صرف یہاں پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ ہر امام کو ماننے والوں میں آگے کئی کئی جماعتیں اور گروہ بنا دئیے۔ ہر کسی کا اپنا امیر و امام مقرر کیا کہ تم اپنا الگ الگ مسلک، عقیدہ کا نظام، سسٹم اور تحریکیں چلاؤ اور ایک دوسرے کے مخالف جذبات کو بھڑکاؤ اور اتحاد و یکجہتی کی وباء تک نہ پھیلنے دو۔ آج ہر کوئی اپنی قوم، اپنے رنگ، اپنی نسل اور اپنے نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ برتری صرف اس کے ہاں پائی جاتی ہے اور باقی سب کمتر ہیں۔ یہی تفاخر اور غرور آگے چل کر نفرتوں، چپقلشوں، مقابلوں اور جنگوں کی صورت اختیار کرجاتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا کا امن برباد ہوتا جا رہاہے۔
    تعمیر کیلئے تخریب کرنا ، مسلمانوںمیں انتشار و مخالفت کے جذبات کو بھڑکاناکفار، یہود و نصاریٰ کی پرانی روش ہے جو حضور کے ظاہری دور سے ہی چلی آتی ہے مگر افسوس کہ مسلمان چودہ سو سال گذر جانے کے باوجود اپنے ازلی دینی دشمنوںکے نہیں پہچان سکے اور نہ ہی ان کی تیز دھار یلغار کے طریقے کو سمجھ سکے۔ابتداء سے لے کر آج تک کے مسلمان انہی زہریلے سانپوں سے ڈستے چلے آئے اور آج تک اسی عطارکے لونڈے سے دواء لینے پر مصر ہیں۔
     حضور کے ظاہری دور میں یہود میں مرشاس بن قیس نامی شخص مسلمانوں سے سخت دشمنی رکھتا تھا۔ اس نے جب انصار میں محبت اور الفت کا معاملہ دیکھا تو اس نے ایک یہودی نوجوان سے کہا کہ تم ان کے درمیان بیٹھ کر جنگ بعاث کا ذکر کرو جو ماضی میں انصار کے قبائل اوس اور خزرج کے درمیان لڑی گئی تھی تاکہ ان کی محبت اور الفت قوم پرستی کے جذبے سے مغلوب ہوکر ختم ہوجائے۔ اس نوجوان نے مسلمانوں میں بیٹھ کر وہی ذکر چھیڑا اور آگ بھڑکائی یہاں تک کہ انصار کے دونوں قبائل میں سخت کلامی شروع ہوگئی اور ہتھیار اٹھا کرپھر جنگ کرنے تک اتر آئے۔ یہ خبر جب حضور تک پہنچی تو آپ اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف لائے اور فرمایا: اے مسلمانوں! یہ کیا حرکت ہے کہ تم جاہلیت کے دعوے کرتے ہو حالانکہ میں تمہارے اندر موجود ہوں اور اللہ نے تمہیں ہدایت دے دی اور اسلام کی بزرگی بخشی اور جاہلیت کی سب باتیں تم سے ختم کردیں اورتمہاری آپس میں محبت اور الفت قائم کردی۔ اس وقت دونوں گروہوں کو معلوم ہوا کہ یہ ایک شیطانی وسوسہ تھا جس میں ہم مبتلا ہوگئے تھے پھر وہ رو پڑے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے لگے۔اسی طرح کا ایک واقعہ غزوہ میں رونما ہوا جب ایک انصاری اور مہاجر صحابی کے درمیان کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی تو دونوں نے اپنی اپنی قوم کو مدد کیلئے بلایا۔ اس پر باہم لڑائی کی نوبت آپہنچی تو رسول اللہ نے ان کے اس قوم پرستی پر مبنی فعل کو جاہلیت کا نعرہ قرار دیا۔ اس کے بعد ان صحابہ کرام ؓکے درمیان صلح ہوگئی اور وہ قوم پرستی کے اس نعرے پر نادم ہوئے۔
    اسلام میں قوم پرستی صرف حرام ہی نہیں بلکہ اس کو جہالت کہا گیا ہے،یہ ایسی جہالت ہے جو قوموں کو زوال کی طرف لے جاتی ہے اور اسلام میں لوگوں کو قوموں کی سطح پر تقسیم در تقسیم کردیتی ہے اسلام جو واحدت و اتفاق کا درس دیتا ہے یہ قوم پرستی اسلام کی واحدت کو پاراپارا کردیتی ہے۔ ہمارے آقاو مولا نے قوم پرستی، وطن پرستی کے نعرہ کو عملی طور پر خاک میں دفن کر دیا اور دین کو قوم اور وطن پر فوقیت دی ، دین کی اشاعت و تنفیذ کی خاطر اپنے وطن، قوم اور قبیلے تک کو ترک کر دیا۔ جبکہ ہم وطن اور قوم اور مفاد کی خاطر اپنے دین تک کو ترک کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
 خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
     ایک مسلمان ان سب باتوں سے پہلے ایک مسلم ہے، جس نے بھی اللہ رب العزت کی وحدانیت اور حضرت محمد کی رسالت کا اقرار کیا اور کلمہ پڑھا اور اس کی منشوعات کو پورا کیا وہ مسلمان ہو گیا اب اس کی جان و مال دوسرے مسلمان پر حرام ہوگئی اور حضور نے سچا مومن مسلمان اس شخص کو قرار دیا جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور پھر حضور نے ایک مسلمان کی جان مال، عزت وآبرو اور عزت نفس کے تحفظ کوبیت اللہ کے تحفظ و حرمت سے بھی زیادہ بڑھ کر قرار دے دیا۔حضور کا بیت اللہ شریف کی تکریم و حرمت سے بڑھ کر قرار دینے کا مقصد یہ تھا کہ کوئی غلطی سے بھی کسی مسلمان کی تنزلی و رسوائی کی جسارت نہ کر سکتے ۔ مگر کیا وجہ ہے کہ آج کا مسلمان کعبے کی حرمت پر تو اپنا تن من دھن سب قربان کرنے کو تیار ہے مگر اس سے بڑھ کر تکریم کے لائق مسلمانوں کی شہ رگیں کانٹے پے تلا ہے؟
    ایک مسلمان کیلئے سب سے پہلے اور سب سے قیمتی چیز ایمان ہے اور ایمان کااولین تقاضا ہے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کی جان ، مال، عزت و آبرو، مفاد کے تحفظ کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دے اور کسی صورت ان سے پیچھے نہ ہٹے، ان کا سایہ ان دوسرے مسلمان بھائیوں پر بادل کے سائبان اور آسمان کی چھت کی طرح چھایا رہے ، وہ کسی بھی میدان میں خود کو تنہا اور بے یارو مددگار تصور نہ کریں۔
    ہمارا دین اسلام کسی ذات پات، رنگ ،نسل اور قومیت کی فضیلت ، دولت کی کثرت اور سرحدی زمینی حقائق کو نہیں مانتا بلکہ صرف اورصرف تقویٰ اور پرہیزگاری کو ہی فضیلت کامعیار قرار دیتا ہے اورقوم پرستی کی بنیاد پر رونما ہونے والے اختلافات کا قلع قمع کرتا ہے ۔ دین اسلام اپنے ماننے والوں کو علاقے اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونے سے بچاتا ہے اور انہیں ایک ہی لڑی میں پرو کر بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کی تلقین کرتا ہے۔
(جاری ہے)
مزید پڑھیں:- - - - -پاکستانی خاتون میکینکل انجینیئر کے نازک ہاتھوں میں بھاری اوزار

شیئر: