Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہمان کے لئے بھی آداب مقرر

 جب تمہیں بلایا جائے تو کھانے کے وقت پہنچواور جب کھانا کھا چکو تو وہاں سے منتشر ہوجائو، طویل باتیں چھیڑ کر وہاں نہ بیٹھے رہو
 
مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی ۔لاہور
    اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبی کے گھروں میں بلااجازت نہ چلے آیا کرو، نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو، ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہوجاؤ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو، تمہاری یہ حرکتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیںکہتے اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا، نبی کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کیلئے زیادہ مناسب طریقہ ہے، تمہارے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسول کو تکلیف دو اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے، تم خواہ کوئی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ ، اللہ کو ہر بات کا علم ہے۔ (الاحزاب54,53)۔
    پیش نظر آیتِ کریمہ میں مسلمانوں کے ایک دوسرے کے گھروں میں آنے جانے اور اسلامی معاشرت سے متعلق چند آداب و احکام بیان کیے گئے ہیں۔ سببِ نزول کے اعتبار سے چونکہ اس کا تعلق آنحضرت کی ذاتِ گرامی اور آپ کی ازواجِ مطہرات سے ہے اس لئے بیوت النبی   یعنی نبی کے گھروںکا ذکر فرمایا گیا ہے لیکن ان احکام میں عموم پایا جاتا ہے کیونکہ شریعت کا یہ مسلمہ اصول ہے’’ العبرۃ لعموم اللفظ لالخصوص السبب‘‘یعنی اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے ،سبب کے اختصاص کا نہیں۔
    آداب کی تعلیم میں 4 احکام دئیے گئے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ4 ادب سکھائے گئے ہیں:    «   پہلا ادب یہ ہے کہ جب تک تمہیں گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی جائے یعنی تمہیں کھانے کی دعوت نہ دی جائے، اْس وقت تک نبی کریم کے گھروں میں تمہیں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔
    اس میں2ادب سکھائے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ گھروں میں داخل ہونے کیلئے اجازت طلبی ضروری ہے اور اگر اجازت نہ دی جائے تو واپس پلٹ جائو۔
    « دوسری یہ بات کہ کسی دعوت میں بن بلائے مت جائو۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ فلاں جگہ کھانے کی تقریب  ہے تو وہ بن بلائے پہنچ جاتے ہیں۔ اس آیتِ کریمہ میں اس سے روکا گیا  اور بعد میں نبی کریم نے مختلف مواقع پر اپنے عمل سے اس کی وضاحت فرمائی۔
    « تیسرا ادب یہ سکھایا گیا ہے کہ اگر کسی دعوت میں بلایا جائے تو اسے بہانہ بناکر کھانے کی تیاری کے انتظار میں وہیں دھونی رما کر مت بیٹھ رہو۔
     جس دین نے اپنے ماننے والوں کو قناعت اور کفایت کی تعلیم دی ہے اور فقیری اور ناداری کی حالت میں بھی خودداری کا ادب سکھایا ہے ، ان کیلئے یہ ہرگز مناسب نہیں کہ وہ کسی طماعی اور سفلہ پن کا اظہار کریں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی کہ آنحضرت کے زمانے میں لوگوں کا رہن سہن نہایت سادہ تھا، زنانہ مکانوں کے ساتھ مردانہ بیٹھکیں نہیں تھیں۔ ایسے میں قبل از وقت لوگوں کا جمع ہوجانا اہلِ خانہ کیلئے اذیت کا باعث ہوتا تھا اس لئے اس بات سے روکا گیا کہ کھانے کے پکنے کے انتظار میں مت بیٹھو۔ آیت میں ناظرین، منتظرین کے معنیٰ میں ہے اورآیتِ مبارکہ میں’’انٰہُ‘‘ میں’’اِنَا‘‘کھانا پکنے کو کہتے ہیں۔
    « اس کے بعد گھروں اور تقریبات میں آنے کیلئے صحیح طریقہ ارشاد فرمایا گیا۔ وہ یہ ہے کہ جب تمہیں بلایا جائے تو کھانے کے وقت پہنچوتاکہ میزبان کو کوئی دشواری پیش نہ آئے  اور جب کھانا کھا چکو تو وہاں سے منتشر ہوجائو، طویل باتیں چھیڑ کر وہاں نہ بیٹھے رہو کیونکہ بعض  مرتبہ مہمانوں کا کھانے کے بعد دیر تک بیٹھے رہنا میزبان کیلئے باعثِ کلفت ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ میزبان کیلئے اس کے بعد کچھ اور ضروری مصروفیات ہوں  اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جگہ کی تنگی کے باعث مہمانوں کو باری باری کھلایا جارہا ہو۔ ظاہر ہے کہ پہلے مہمانوں کے جانے کے بعد دوسرے مہمانوں کو کھانے پر بلایا جا سکے گا  اور اگر پہلے مہمانوں میں سے کچھ لوگ باتوں میں لگے بیٹھے رہیں تو میزبان کو بھی تکلیف ہوگی اور مہمان بھی اذیت محسوس کریں گے۔ ہاں اگر یہ اندازہ ہوسکے کہ میزبان کی خواہش ہے کہ مہمان دیر تک تشریف رکھیں تاکہ اس کی تقریب کیلئے رونق کا سامان بنیں اور جگہ کی کشادگی کے باعث کسی تنگی کا بھی اندیشہ نہ ہو، تو پھر دیر تک بیٹھنے اور باتوں میں لگے رہنے میں کوئی حرج نہیں۔
    اس کے بعد نبی کریم کی کریم النفسی اور مروت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر  کو بہت بلند و بالا خصلتوں اور عادتوں کا پیکر بنایا ہے  اس لئے تمہارا وقت سے پہلے آبیٹھنا اور پھر دیر تک بیٹھ کر باتیں کرتے رہنا اور اجازت لئے بغیر اندر چلے آنا، اس سے انہیں جگہ کی تنگی اور مردانہ اور زنانہ حصہ ایک ہونے کی وجہ سے جو اذیت پہنچتی تھی ،وہ اپنی کریم النفسی کے باعث اس کا اظہار نہیں فرماتے تھے۔ آپ   تکلیف برداشت کرلیتے تھے لیکن مہمانوں سے کچھ کہنا لحاظ اور مروت کے خلاف سمجھتے تھے  لیکن اللہ تعالیٰ حق کے اظہار میں کسی کا لحاظ نہیں فرماتا۔ یہ باتیں اسلامی معاشرت کے نقطۂ نگاہ سے بہت نقصان دہ ہیں اور انہی سے بہت سے مفاسد بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ تمہیں ان باتوں سے آگاہ فرما رہا ہے تاکہ اسلامی معاشرہ انسانی خصائلِ حمیدہ کا صحیح ترجمان ثابت ہو۔
    صحابہ کرامؓ  کا معاشرہ جو ہمہ جہت تربیت کے بعد تمام نوعِ انسانی کیلئے ایک نمونے کا معاشرہ بنا۔ یہ صرف آنحضرت کی تربیت کا اعجاز اور اسلامی اخلاق کا اثر تھا  ورنہ اہلِ عرب اپنے عادات و اطوار میں اْس وقت کی دنیا میں سب سے زیادہ اجڈ اور غیر شائستہ تھے۔  وہ معاشرے کے بنیادی آداب سے بھی تہی دامن تھے۔ آنحضرت نے ان کی تربیت میں جس طرح نہایت حکیمانہ طریقہ اختیار کیا اسی طرح اپنے مزاج کیخلاف ان کی بہت سی ناشائستہ باتوں کو بھی برداشت کیا اور جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ آپ اپنی کریم النفسی کے باعث لوگوں کی غلط باتوں پر ٹوکنا اور خاص طور پر گھر آئے ہوئے مہمانوں کی کسی بات پر تنبیہ کرنا خلافِ مروت سمجھتے تھے، اس لئے آپ  اذیت برداشت کرتے تھے لیکن کہنا پسند نہ تھا۔
     آپ کے خادمِ خاص حضرت انس ابنِ مالکؓ  کی روایت ہے کہ حضرت زینبؓ کے ولیمے میں سب لوگ تو کھانے سے فارغ ہوکر رخصت ہوگئے مگر 3,2 حضرات بیٹھ کر باتیں کرنے میں لگ گئے۔ تنگ آکر حضور   اٹھے اور ازواجِ مطہرات کے یہاں ایک چکر لگایا۔ واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ حضرات بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ  پھر پلٹ گئے اور حضرت عائشہؓ کے حجرے میں جا بیٹھے۔ اچھی خاصی رات گزر جانے کے بعد جب آپ کو معلوم ہوا کہ وہ چلے گئے ہیں تب آپ  حضرت زینبؓ کے مکان میں تشریف لائے۔ اس کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں اور اصلاحِ معاشرت کیساتھ ساتھ پردے کے بھی چند احکام دیئے گئے  اور سورۃ النور میں ان احکام کی تکمیل کی گئی۔
مزید پڑھیں:- - - -اسلام اور مغرب ، جدید تناظر میں

 

شیئر: