Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملک سیاسی تصادم کی طرف بڑ ھ رہا ہے؟

کراچی(صلاح الدین حیدر) معاشی صورتحال تو خراب تھی ہی۔  ملک سیاسی تصادم کی طرف بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔وزیراعظم عمران خان ایک طرف تو صلح صفائی اور ملک معیشت کو ابھارنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ان کی پارٹی تحریک انصاف کے کچھ قدر دان انتہائی نازیبا حرکتوں سے ناصرف اپنے، پی ٹی آئی کی حکومت بلکہ اپنے قائد کے لئے بھی وبال جان بنتے جا رہے ہیں۔ملک میں عام تاثر یہی ہے کہ عمران خان اچھی ٹیم ترتیب دینے میں شاید کامیابی حاصل نہیں کر سکے جس کی انہیں توقع تھی۔محض دو مہینے کسی بھی حکومت کے لئے اقتدار میں رہنا کچھ نہیں ۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے قائدین بلاول بھٹو،ان کے والد آصف علی زرداری ، شہباز شریف، خورشید شاہ بھی یہ یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ وہ حکومت کو گرانا نہیں چاہتے یہی بات جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے لئے نہیں کہی جا سکتی۔ وہ تو ایسا لگتا ہے کہ لاٹھی اور ڈنڈے اٹھا کرحکومت کو گرانے پر مصر ہیں۔اس کا وہ کھلے عام اعلان بھی کر چکے ہیں۔مگر عمران خان کی قسمت اچھی ہے کہ نہ بلاول ، نہ زرداری اور نہ شہباز شریف مولانا صاحب کی رائے سے متفق نظر آتے۔بلاول نوجوان، ناتجربہ کار ہی سہی۔ بے نظیر جیسی ماں کی تربیت نے انہیں خوش اخلاق اور باشعور بنانے میں مدد کی ہے۔بہت تھوڑے عرصے میں وہ جہاں دیدہ لوگوں جیسی گفتگو کرتے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی، یا اسد عمر ناپ تول کر تقریر یا گفتگو کرتے ہیں تو وزیر اطلاعات فواد چوہدری کچھ ایسے جملے جوش خطابت میں کہہ جاتے ہیں جس سے صورتحال سنبھلنے کے بجائے خراب ہو جاتی ہے۔تازہ مثال لے لیں۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں انہوں نے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کچھ نازیبا جملے بھی ادا کئے جس سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ پارلیمنٹ کے اجلاس کا بائیکاٹ کر کے ایوان سے باہر چلی گئی۔ خورشید شاہ کی شکایت بجا تھی کہ بجٹ پر بحث کے دوران وزیر خزانہ ایوان سے غیر حاضر ہوں تو بجٹ پر تقریر کرنے سے کیا فائدہ۔ اپوزیشن تو بائیکاٹ کر گئی لیکن عموماً یہی ہوتا ہے کہ اسپیکر کے کہنے پر حزب اقتدار کے سنجیدہ مزاج لوگ اپوزیشن کو منا کر واپس لے آتے ہیں فواد چوہدری ایک نوجوان، جوشیلے انسان ہیں۔ انہوں نے عجیب سے جملے ادا کئے جس سے اپوزیشن اور حکومتی جماعت میں خلیج کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائے گی۔ یہ لوگوں کو دن میں تارے اور راتوں کو اسرائیلی جہاز دکھاتے ہیں۔ حقائق سے اِن کا دور دور تک نا تہ نہیں۔ فواد چوہدری کا موقف تھا کہ بجٹ سیشن سے واک آو¿ٹ کرنے کا مقصد وزیر خزانہ کی غیر حاضری نہیں بلکہ اپوزیشن والے معیشت کے نام پر بدک جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جو حکومت 156ارب روپے کے قرضے چھوڑ کر گئی ہو، بینکوں کی حالت قرض لے لے کر نازک ترین سطح پر پہنچا دی ہو، معیشت کو گہرے گڑھے میں پھینک دیا ہو،وہ کیسے اپنے خلاف باتیں سنیں گے۔ معاملات کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے فواد چوہدری نے شعلوں کو مزید ہوا دے دی۔خورشید شاہ نے یہاں تک شکایت کی کہ جب بھی بجٹ پر بحث کا آغاز ہوتا ہے حکمران پارٹی کے لوگ غیر حاضر ہوتے ہیں۔ اپوزیشن اپنے ممبران کو بلوا کر کورم پورا کرتی ہے تا کہ اجلاس چلتا رہے لیکن ایسا کب تک چلے گا؟ سوال بجا تھا۔حکمران پارٹی کا فرض ہے کہ وہ ایوان میں کورم پورا رکھے۔ تا کہ بحث جلد یا مقررہ وقت پر ختم ہو۔ کیا عمران خان یہ سب باتیں مانیٹر کرتے ہیں اگر ان کے علم میں ہے تو پھر سدباب کیوں نہیں کیا جاتا۔دوسری طرف عمران خان کچھ دنوں سے عدالت عظمیٰ کے بیانات پر ناراض نظر آ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے انہیں فوری طور پر اپنے بنی گا لہ کے گھر کا جرمانہ ادا کرنے کو کہا ہے تا کہ وزیراعظم دوسروں کے لئے مثال بن سکیں۔ پھر حدیبیہ شوگر ملز پر حکومت کی اپیل سپریم کورٹ نے مسترد کر دی کہ 188 دن پہلے یہ بات کیوں نہیں اٹھائی گئی۔ کہیں اس کا اثر پانامہ لیکس پر چلنے پر مقدمے یا دوسرے اور کیسز جو فی الحال احتساب عدالتوں میں زیر سماعت ہیں،اس پر نہ پڑے۔ اگر اس کا فیصلہ بھی حکومت کے خلاف آیا تو عمران خان کو بہت سبکی اٹھانی پڑے گی۔ عوامی سطح پر پہلے ہی مہنگائی سے بے چینی بڑھ رہی ہے۔ مزید تنقید کا نشانہ بن کرعمران خان کے لئے آگے بڑھنا مشکل ہو جائے گا۔
 

شیئر: