Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

توہمات کا منبع ہندوانہ رسمیں

 ماہِ صفربھی اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے اور اس کی مخلوقات میں سے کسی کو منحوس بتانا اللہ کی تخلیق میں عیب نکالنا ہے جو ایمان کے خلاف ہے
مفتی تنظیم عالم قاسمی ۔حیدرآباد دکن   

اسلام سے قبل عرب کا پورا معاشرہ رسم ورواج سے جکڑا ہوا تھا۔طرح طرح کی من گھڑت اور بے اصل باتیں ان کے دل  ودماغ میں راسخ ہوگئی تھیں جن کے مطابق ان کے شب و روز گزرتے اور ان کو ہی اپنا ایمان تصور کرتے تھے۔ان کا عقیدہ تھا کہ کسی بیمار کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے یا کھانے پینے سے بیماری لگ جاتی ہے اور اس کی وجہ سے دوسرا شخص بھی بیمار ہوجاتا ہے ۔جب وہ کسی سفر پر جانے کا ارادہ کرتے  توجانے سے قبل کوئی پرندہ اڑاتے تھے۔ اگر وہ دائیں طرف اڑتا تو اس سفر کو مبارک سمجھتے اور اگر بائیں طرف جاتا تو سفر کو منحوس اور نامبارک سمجھتے اور سفر کو موقوف کردیتے تھے۔اُلّو کی آواز کو گھر کی تباہی کا سبب سمجھا جاتاتھا،ماہ صفر کو مصائب و آلام کا مہینہ سمجھا جاتا اور اس کی آمد کو منحوس سمجھاتا تھا ۔اس طرح نہ جانے کتنے ان کے ایسے عقائد تھے جن کا تعلق رسم ورواج اور بد شگونی سے تھا۔اس طرح کے اوہام و خیالات کے وہ اس لئے شکار تھے کہ انہیں ایک معبود کا یقین نہیں تھا ۔اس کی عظمت و ہیبت اور اس کی صفات کے قائل نہیں تھے اور انہی عقائد اور فرسودہ خیالات پر انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا تھا ۔میراث میں ملی ہوئی ان چیزوں پر اتنا یقین تھا کہ ان کے خلاف دوسری باتیں سننا گوارہ نہیں کرتے تھے۔
    رسول اکرم    نے بعثت کے بعد سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توحید پر زور دیا اور انہیں توہمات اور غلط عقائد سے نکال کر ایک معبودکی عبادت کا سبق دیا ۔انہیں آپ  نے بتایا کہ عبادت اور سجدہ کے لائق صرف ایک اللہ کی ذات ہے جو آسمان و زمین اور ساری کائنات کا خالق ہے ۔نفع اور نقصان اور خیر و شر اسی کے اختیار میں ہے ۔وہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے ۔اس کے حکم کے بغیر درخت کا ایک پتہ بھی نہیں ہلتا۔توحید کا یہ عقیدہ جب مضبوط ہوگا تو رسم و رواج ،بدشگونی اور توہم پرستی سے انسان یقینی طور پر محفوظ رہے گا ۔اس کی نظر زمانہ اور حالات کے بجائے خالق پر ہوگی اور اسی کو ملجا و ماویٰ تصور کرے گا ۔اسی لئے آپ   نے سب سے پہلے ان کے دل و دماغ میں توحید کو پیوست کیا اور ہدایت دی کہ تمہارے ٹکڑے بھی کر دیئے جائیں یا تمہیں آگ میں جلا دیا جائے تو بھی شرک مت کرنا اس لئے کہ شرک تمام برائیوں کی جڑ اور ایمان تمام بھلائیوں کی بنیاد ہے ۔یہی ایمان قیامت میں کامیابی کا مدار ہوگا ،یہی نجات اور ابدی راحت کا ذریعہ ہے ۔وہی لوگ جو ہزار توہمات اور رسم ورواج کے شکار تھے جب ایک اللہ کا یقین ان کے دل میں بیٹھ گیا تو وہ ایسے پکے موحد بنے کہ زندگی کے کسی موڑ پر غیراللہ کا تصور نہیں آیا ۔ان کی جانیں چلی گئیں ،مصائب وآلام کی بھٹیوں میں جھونکے گئے لیکن کبھی شرک کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا اور آخری سانس تک احد احد کا نعرہ لگاتے رہے ۔
    آج کے معاشرے میں توہمات اور ہندوانہ رسم و رواج کی جڑیں مضبوط ہوتی جارہی ہیں۔صفر کے مہینے میں شادی اور دیگر تقریبات کا انعقاد اس لئے نہیں کیا جاتا کہ یہ مہینہ منحوس اور نامبارک ہے ،اس میں جو کام کیا جاتا ہے اس میں برکت نہیں ہوتی اور وہ کبھی مکمل نہیں ہوتا ۔اس ماہ میں مصائب و آلام کا نزول ہوتا ہے خاص طور پر تیرھویں صفر کی شب میں کثرت سے مصیبتیں نازل ہوتی ہیں جس کو ’’تیرہ تیزی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
    مختلف علاقوں میں ماہ صفر کے تعلق سے مختلف خیالات پائے جاتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اس مہینے کو بے برکت والا مہینہ تصور کیا جاتا ہے جبکہ کوئی مہینہ ‘کوئی دن اور کوئی لمحہ منحوس اور نامبارک نہیں ہوتا ،اس لئے کہ یہ اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے اور اس کی مخلوقات میں سے کسی کو منحوس بتانا اللہ کی تخلیق میں عیب نکالنا ہے جو ایمان کے خلاف ہے ۔ایمان میں جب اضمحلال پیدا ہوتا ہے تو اس طرح کے برے خیالات دل و دماغ میں پیدا ہوتے ہیں اور شیاطین کو بہکانے کا موقع ملتا ہے۔اسی ایمانی کمزوری کا نتیجہ ہے کہ اس کے علاوہ ہمارا معاشرہ مختلف توہمات میں جکڑا ہوا ہے ۔
    اگر کوئی نئی دلہن گھر میں آئے اور نوشتۂ تقدیر کے مطابق گھر میں کسی کا انتقال ہوجائے ‘کوئی بیمار ہوجائے یا کاروبار میں بڑا نقصان ہو تو اس لڑکی کو منحوس تصور کیا جاتا ہے اور اچھے اچھے دین دار سمجھے جانے والے گھرانوں میں ایسی لڑکیوں کے وجود کو بوجھ تصور کیا جاتا ہے اور بسااوقات طلاق کی نوبت آجاتی ہے اور اگر خدا نخواستہ اس کے شوہر کا ہی انتقال ہوگیا تو دوبارہ اس کی شادی محال ہوجاتی ہے اور تصور یہ کیا جاتا ہے کہ یہ جس گھر میں بھی جاتی ہے موت کا پیغام لے کر جاتی ہے۔اگر کسی نئے مکان کی تعمیر کی جائے اور اس میں کوئی بیمار ہوجائے یا کسی کی موت واقع ہوجائے تو یہاں بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہ مکان منحوس اور نامبارک ہے۔ اس پر شیطان اور جن کا سایہ ہے ۔اس جگہ رہائش اختیار کرنا کسی طرح مناسب نہیں چنانچہ اس کو بیچ دیا جاتا ہے اور توہم پرستی دوسری جگہ منتقل ہونے پر مجبور کر دیتی ہے۔کسی طرح کا کاروبار شروع کیا جائے اور اس میں خلاف مزاج کوئی بات پیدا ہو تو تصور کیا جاتا ہے کہ یہ کاروبار میرے حق میں بہتر نہیں، اس کو چھوڑ کر دوسرا کاروبار شروع کیا جاتا ہے ۔وہم کا یہ سلسلہ بعد میں بھی باقی رہتا ہے اور اس کے سبب زندگی بھر پریشان رہتا ہے ۔

مزید پڑھیں:- - - - -اسلام میں زیادتی کی سزا کیا ہے؟

شیئر: