Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میں اپنی یونیورسٹی میں استاد بھی تھی ، شاگرد بھی، فاطمہ الزہرا

 زینت شکیل ۔جدہ
سمیع العلیم ہر ظاہر اور چھپی باتوں کاجاننے والا ہے ۔ایک انسان کیا سوچتا ہے ،خالق کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔مہمانوں کی خاطر کرنا اور اچھی بات کہنا درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے۔ یتیموں اور مسکینوں کی عزت کرنااس میں ہی شامل ہے۔زندگی کی ضروریات بے شمار ہیں اور بازار میںچیزیں بھی بے حساب دستیاب ہیں۔ خرید و فروخت کے لئے بازار جانا روزمرہ کے کاموںمیں شامل ہے۔
اس ہفتے ہوا کے دوش پر ہمارے مہمان محترم عارف عزیز اور انکی اہلیہ محترمہ فاطمہ الزہرا ہیں۔ روزمر ہ زندگی کی مصروفیات میں
شاپنگ کا کتنا دخل ہے ،ان سے اس بارے میں بھی بات ہوئی۔ محترمہ فاطمہ نے سائنس کے مضامین بارہویںجماعت تک پڑھے کہ اس میں اپنی دلچسپی بڑھا سکیں تو اپنی امی کی خواہش ضرور پوری کریں گی اورڈاکٹر بن جائیں گی لیکن قدرت نے کچھ اورہی انکے لئے لکھاتھا۔ انہوں نے اسرا یونیورسٹی ،حیدر آباد، سندھ میں بزنس ایڈمنسٹریشن میںداخلہ لے لیااور وہیں سے ایم بی اے بھی کیا پھر ایم فل کاامتحان بھی وہیں سے پاس کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بیکن ہاﺅس میں امتیازی نمبروں سے پاس ہونے پر اسناد کے ساتھ شیلڈ سے بھی نوازا گیا پھرماسٹرز کے بعد اسسٹنٹ لیکچرر کی حیثیت سے جاب بھی مل گئی۔ اب میں اپنی ہی یونیورسٹی میں پڑھتی بھی تھی اور پڑھاتی بھی تھی۔ 
میں اس وقت ایم فل کر رہی تھی۔ عارف عزیز اپنی تعلیم کے سلسلے میں انگلینڈگئے۔ وہیں جاب بھی مل گئی تو پاکستان میں انکی منگنی کر
دی گئی۔عارف صاحب کی نانی اورمیری نانی آپس میں کزنز،سہیلیاں اور نند بھاوج بھی تھیں ۔ان دونوں نے یہ رشتہ طے کیا ۔پہلے منگنی ہوئی پھر نکاح کردیا گیا تاکہ سفری دستاویزات اور ویزے میں آسانی ہو سکے ۔یہ رشتہ چونکہ اپنے خاندان میں ہی طے کیا گیا تھا تو دونوں طرف بڑی گرم جوشی کے ساتھ تیاری شروع کر دی گئی۔
فاطمہ نے اس موقع کی بابت بتایا کہ مجھے شادیوںمیں شرکت اور خاص طور سے مہندی میں گانے گانے کا بہت شوق ہے اور یہ بات میری کزنز بھی جانتی ہیں۔ اس وقت میری پڑھائی جاری تھی اور مجھے ایم فل کا تھیسس بھی مکمل کرنا تھا اور اسی لیپ ٹاپ پران لوگوںنے گانے لگا کرپریکٹس کرنی ہوتی تھی تو آدھا وقت میری پڑھائی ہوتی تھی اور آدھا وقت گانے کی پریکٹس ہوتی تھی پھروہ مجھے بھی شامل کر لیتی تھیں کہ فلاں کزن کی شادی میں تو تم نے زبردست گانے گائے تھے اوررقص بھی کیا تھا ،ہمیں بھی وہی اسٹیپس سکھاﺅ اور مجھے ان کا یہ کام بھی کرنا پڑتا تھا۔مایوں میں چونکہ دونوں طرف اپنے ہی رشتہ دار تھے لیکن لڑکیوں کا اصرار تھا کہ دونوں طرف ہم نے ہی یہ مقابلہ جیتا ہے۔ کہنا پڑا کہ تم دونوں گروپ ہی جیت گئے ہو صرف ایک دن میں انکے گانے بجانے کا شوق پورا نہ ہوا۔ مہندی پھر مایوںاور شادی والے دن بھی میوزک کا پروگرام رکھا گیا ۔
محترمہ فاطمہ نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ اپنی شادی کے لئے شاپنگ کی خاطر اپنے سسرال والوں کے ساتھ جاتی تھی۔ اس وقت فیشن میں جو کچھ تھا، میں نے وہ سب چیزیں خریدیں چونکہ اس وقت ریڈ، گرین کا کامبی نیشن فیشن میں تھا تو وہی کلرزپسند آئے۔ مایوں، مہندی اور شادی کے لباس میں ہمارے یہاں اتنی ورائٹی ہے کہ ہر چیز ہی اچھی لگتی ہے۔
اسے بھی پڑھئے: زندگی کے سفر میں اپنوں کو پرائے بنتے دیکھا
یہ شادی چونکہ اپنے خاندان میں ہی ہو رہی تھی اس لئے سب ہی ایکسائٹڈ تھے۔ ہر ایک کی تیاری خوب ہو رہی تھی کہ مایوں اور مہندی کی رسمیں اور اس میں پرفارمنس تو سہیلیوں اور کزنز کی خوب تیاریوں کے ساتھ ہوئی کیونکہ مہندی کا دن تو لڑکیوں کا ہی دن ہوتا ہے۔
جیسا وہ لباس بنوائیں اور جیسی وہ چاہیں رسمیں کریں اور میوزک پر بھی تیاری کریں۔ یہ ان کی خوشی ہوتی ہے اور سب نے ہی بھرپور خوشی کا اظہارکیا تھا۔
شاپنگ صرف تقریب کے سلسلے میں نہیں ہوتی بلکہ یہ تو روزمرہ کے کاموں میں شامل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فاطمہ الزہرہ نے بتایا کہ شادی کے بعد جب یہاں گلاسکو آئی تو گھر کے کام سیکھنے پڑے اور کرنے پڑے چونکہ عارف عزیز صاحب پہلے سے یہاں مقیم تھے تو بہت سارے کام سیکھ چکے تھے ۔اس طرح آسانی ہوئی ۔اب توگھر پر دعوت ہو تو ساری شاپنگ خود کر لیتی ہوں۔ گھرکی سجاوٹ تبدیل کرنی ہو، گروسری لانی ہو یا بوتیک سے شاپنگ کرنی ہو، سب ہی خود کر لیتی ہوں۔
محترمہ فاطمہ نے بتایاکہ6 سال تک ہنی مون پیریڈ رہا۔ کئی ممالک کی سیاحت کی۔ دبئی، سوئٹزر لینڈ،سنگاپور وغیرہ گھومے اور پھر جب محمد المیر گھر کی رونق بن کر آگیا تو مصروفیت بھی بڑھ گئی۔ انکی شاپنگ کے لئے بالکل الگ سیکشن میںجانا ہوا اور اب تو سب سے زیادہ انہی کی شاپنگ ہوتی ہے۔ یہ بھی کیسی بات ہے کہ جب انسان اپنی شاپنگ کرتاہے تو سب سے پسندیدہ چیزلینا چاہتا ہے لیکن وہی کچھ سال بعد ایسا ہو جاتا ہے کہ کسی تقریب میں جانا ہو تو پہلے اپنے بچے کی چیزوں کی شاپنگ کرتا ہے کہ اس کی ہرچیز بالکل ویسی ہی خرید ی جائے جو اسے پسند آجائے اوراس کے بعد اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ جیسا ہم دونوںسوچتے ہیں یقینا ہر والدین اپنے بچوں کے بارے میں اسی انداز میں سوچتے ہونگے ۔بچے کی ولادت کے ساتھ ہی والدین کی سوچ میں تبدیلی آجاتی ہے ۔سچ ہے کہ والدین کے لئے بچے بہت اہم
ہوتے ہیں ۔ان کی دنیا میں آمد کے بعد ہر کام کا وقت انکی سہولت کے حساب سے کرنا ہوتاہے۔ جاب بھی اسی وجہ سے تبدیل کر لی کہ زیادہ وقت گھرکو دینا چاہئے ۔2سال کے بعد المیر کی چھوٹی بہن اس دنیا میں آئیں اور گھر کی رونق میں مزید اضافہ ہو گیا۔ بیٹی کا نام منہا زینت رکھا گیا۔ ان دونوں کی ذمہ داری نے اب فرصت کے لمحات کم کر دئیے ہیں لیکن ایک مشن کی طرح سوچ لیا ہے کہ یہاں رہ کر بھی اپنے بچوں کو اپنی آبائی ثقافت سکھائیں گے اور اپنی مادری زبان سے بھی روشناس کریں گے۔اسی طرح شاپنگ مال بچے جائیں گے اور وہ تقریباً ہر ہفتے ہی جاتے ہیں تو انہیں یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ ہم جہاں رہیںاپنی ثقافت کے لحاظ سے ہی کپڑوں کی خریداری کریں اور اپنی شناخت قائم رکھیں ۔
بچوں کو اس امر کا بھی پابند بنانا ضروری ہے کہ نماز باقاعدگی کے ساتھ ادا کریں۔اس موقع پر محترمہ فاطمہ نے بتایا کہ میں جب یہاں جاب کے لئے گئی تو وہاں یہ سوال پوچھا گیا کہ کوئی ایسی بات جو انٹرویومیں رہ گئی ہو اور آپ کوکہنی ہو تو بتائیے۔ میں نے اس وقت کہا تھا کہ مجھے نمازکے اوقات میں باقاعدگی سے نماز ادا کرنی ہوگی ۔ اس نے سوال پوچھاکہ کتنے منٹ درکار ہونگے؟میں نے اس کے سوال کا جواب دیا صرف چند منٹ۔ اس کا انداز حیرت والا تھا کہ صرف چند منٹ ،اس میں بھلاکیا مسئلہ ہوسکتا ہے ۔اس میں تو کوئی بات ہی نہیں۔ بس اس کے لئے ایک جگہ مخصوص کر دی گئی۔
یہاں میں یہ بتا ناچاہتی ہوں کہ ہمارے دین میں توحید کے اقرار کے بعد نماز کی پابندی بے حد ضروری ہے اور جو پابندی سے نماز اد اکرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک وقت کی نماز میں صفر چند منٹ لگتے ہیں اور وہی ادا نہ کی جائیںتو زندگی کیسے صبح سے شام تک اپنی مصروفیات میں مشغول رکھتی ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جو وقت پر نماز ادا کرتا ہے، اسے زندگی میں سہولت ہی سہولت میسر آتی ہے ۔
فاطمہ صاحبہ نے تعلیم کے حوالے سے بتایا کہ میں نے میٹرک اور انٹر امتیازی نمبروں سے مکمل کرنے کے بعد بی بی اے اسری یونیورسٹی حیدرآباد سے کیااور پھر وہیں سے اپنے اساتذہ کے مشورے سے ایم بی اے کیا۔کانووکیشن کے موقع پر یونیورسٹی کے چیئرمین نے مشورہ دیا کہ یہ لڑکی محنتی ہے اور آگے ترقی کرنے والی ہے اسے اس ادارے میں اسے جاب آفر کرنی چاہئے۔ اس طرح فاطمہ الزہرہ لیکچررکو اسسٹ کرنے لگیں۔
انہوں نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس دوران میں ایم فل بھی کر رہی تھی اور لیکچر بھی تیار کرتی تھی۔ یوں میں استاد بھی تھی اور شاگرد بھی ۔میں نے مینجمنٹ میں ایم فل کیا۔ اس کا موضوع تھا کہ اچانک کسی قدرتی آفت کے آجانے پر اس ناگہانی مصیبت سے کیسے مقابلہ کیا جائے کہ انسانی جانوں کا کم سے کم ضیاع ہو۔ انہوں نے اس سلسلے میں اپنی آراءپیش کیں کہ نہ معلوم ایسا کیوں ہے کہ ہم بہت ساری چیزوں پر ریسرچ کرتے رہتے ہیں۔ دنیا تو آج اپنی ترقی کے عروج پر ہے تو کیوں ایسا ہے کہ جن علاقوں میں ہر سال ہی طوفان آتا ہے وہاں اس سے محفوط رہنے کی کوئی تدبیر نہیں کی جاتی اور یہ صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے،50ساٹھ لاکھ لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں یا انہیں نقل مکانی کرنی پڑتی ہے۔ جان بچانے کے لئے اس کے علاوہ انکے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوتا تو آخر اس بات پر کب غور کیا جائے گا ۔ ہر سال لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہوتے ہیں، انہیں دوبارہ آباد ہونے میں ایسی ہی دشواریاں پیش آتی ہونگی جیسی کہ پہلی دفعہ گھر بنانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
فاطمہ صاحبہ ایک سمجھدار صارف ہیں۔ وہ سوچتی ہیں، غور کرتی ہیں پھر شاپنگ کرتی ہیں جبکہ اپنے گھر پر بہنوں کو دیکھتی ہیں کہ وہ کسی شاپنگ کے لئے کسی مال میں جائیں تو بہت کم وقت میں اپنے لئے کئی چیزیں خرید لیتی ہیں۔ بس جو ڈریس پسند آگیا فوراً خریدا اور پہن لیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ بعد میں بھی اتنا ہی پسندیدہ رہا یا نہیں لیکن اس وقت اپنا شوق ضرور پوراکر لیا۔
گھر پر سب ہی ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں لیکن ہمارے بابا کا انداز سب سے الگ ہے ۔وہ سندھ کے معروف کارڈیالوجسٹ بھی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کھانا ٹیبل پر لگتا تھا اور بابا ہر اس برتن کے ڈھکن کو اٹھا اٹھا کر چیک کرتے تھے کہ اس میں سالن کتنا ہے اور گھی کتنا؟ بس وہی عادت مجھے بھی ہو گئی کہ ہر کھانے میں گھی یا تیل کی مقدار دیکھوں کیونکہ بچپن سے ہی ذہن نشین کروا دیا گیا ہے کہ بھوکے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں بس ڈائٹنگ کرنی ہے تو سب کچھ کھانا چاہئے لیکن ایک معمولی مقدار میں ۔روزانہ چہل قدمی کو اپنی عادت بنا لینا چاہئے ۔
والدہ کے بارے میں محترمہ فاظمہ نے بتایا کہ انہوں نے ہمیشہ ہمیں سکھایا کہ ضرورت مندوں ،یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلاﺅ لیکن یہ یاد رہے کہ ان کا اکرام بھی کرنا ہے۔ ہم سوچیں کہ وہ لوگ جوغریبوں کی مدد تو کرتے ہیں لیکن ان کی عزت نہیں کرتے،حالانکہ ہمیں سکھایا اور بتلایا یہی گیا ہے کہ جنہیں کھانا کھالایا جائے ان کا اکرام بھی کیا جائے۔
محترم عارف عزیز بہت سادہ طبیعت ہیں۔ بناوٹی نہیں ہیں۔ فاطمہ کے مشورے کو اہمیت دیتے ہیں۔ انکے کام میں معاونت کرتے ہیں۔ وہ بہت خوش ہیں کہ فاطمہ گھر داری سیکھ چکی ہیں اور اکثر دعوت کا اہتمام بھی شوق سے کرتی ہیں۔ بچوں کی تعلیم اور تربیت میں بہت محنت کر رہی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بچوں کو اتنی کم عمری میں اپنی مادری زبان سندھی مذکر اور مونث کے فرق کے ساتھ سکھا دی اورانہیںبات کرنابھی سکھا دیا کہ جہاں رہ رہے ہیں وہاں کی زبان تو اسکول جاتے ہی سیکھ جائیں گے لیکن اپنی شناخت یاد رہنی چاہئے۔ فاطمہ صاحبہ نے بتایا کہ وہ اپنی تعلیمی مصروفیات میں اردو اور انگریزی کے بڑے مصنفین کو نہیں پڑھ سکیں لیکن انہیں پڑھنے کا شوق ہے ۔جب کبھی موقع ملے گاوہ انہیں ضرور پڑھیں گی۔ گلاسکو میںانکے گھر کے قریب لائبریری میں اردو کی کتابیں زیادہ نہیں ہیں۔ انہیں یہ معلوم کرنا ہو گا کہ اردو کی کتب زیادہ کہاں مل سکتی ہیں۔انگریزی میں بچوں کی کہانیاں خوب پڑھی ہیں جبکہ ہیری پوٹر تو ایسے پڑھا کہ ایک ہی دفعہ میں دن رات لگا کر ایک ایک والیوم ختم کرلیا کرتے تھے ۔ گھر میں جو خواتین کے رسالے آتے تھے وہ سب بھی پڑھنے کا موقع ملتا تھا۔ ان میں عمیرہ احمد اور نمیرہ احمد کے علاوہ کئی مصنفین کی کہانیاں اچھی لگتی تھیں۔ فاطمہ صاحبہ کا کہنا ہے کہ مطالعہ انسان کو دوراندیش بناتا ہے ۔

شیئر: