Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گیند اب اسرائیل کی کورٹ میں

عدنان کامل صلاح۔المدینہ
    اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتنیاہونے گزشتہ ماہ اپنی اہلیہ اور اپنی ریاست کی انتہائی اہم شخصیتوں کے ہمراہ سلطنت عمان کا دورہ کرکے صدی کے اس سودے کی یاد دلا دی جسے عرب دنیا بھولنے جارہی تھی۔اس صدی کے سودے کا شور اس وقت برپا ہوا تھا جب امریکی حکومت نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے القدس منتقل کیا تھا اور فلسطینیوں نے امریکہ کے ساتھ رابطے بند کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ امریکہ نے اپنے دارالحکومت میں فلسطینی سفارتی مشن بند کرنے اورمشرق قریب میں فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد اور روزگار دلانے کیلئے قائم اقوام متحدہ کی ایجنسی اونرواکی مالی مدد بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
    اسرائیلی وزیر اعظم نے سلطنت عمان کا دورہ کسی اعلان کے بغیر کیا اس دورے نے ہمیں یہ بھی یاد دلا دیا کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل صفحہ ہستی پر موجود ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ توسیع پسندانہ ریاست ہے۔ اس کا ہدف خطے پر تسلط قائم کرنا ہے۔ لہذا ہمیں متعدد عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات استوار ہونے کی بابت ، اسرائیل سے ناگہانی خبریں سننے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔مذکورہ دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ سلطنت عمان ، امریکہ اور ایران کے درمیان ایٹمی معاہدے کے حوالے سے ثالثی کررہی ہے۔ اوباما انتظامیہ کے ساتھ بھی اس حوالے سے عمان نے رابطے کئے تھے۔ نیا دورہ کرکے نتنیاہونے ایرانی ملاؤں کے نظام کو انتہائی اہم خفیہ پیغام شام کے حوالے سے دیا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ممکن ہے اس دورے کا ہدف فلسطینیوں کیلئے اہم پیغام کی ترسیل سے ہو۔اس کا احتمال ہے کہ اسرائیل صدی کے سودے کی بابت امریکہ کے حوالے سے فلسطینیوں کو کسی طرح کا کوئی پیغام دینا چاہتا ہو۔ اس کا بھی امکان ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو مذکورہ سودے کے تحت کیا کچھ دینا چاہتا ہے اس کیلئے اسرائیلی وزیر اعظم نے مسقط کا دورہ کیا ہو۔
    بہرحال اسرائیلی وزیر اعظم کا دورہ عمان یہ ظاہر کررہا ہے کہ اسرائیل متعدد عرب ممالک کے ساتھ سیاسی ، تجارتی اور ممکن ہے دفاعی تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی لے رہا ہے۔اگر اسرائیلی قائدین عرب ممالک سے یہ منوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ مستقبل میں وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرسکتے ہیں تو اسرائیل کا ہدف پورا ہوسکتا ہے۔یہ بھی درست ہے کہ فلسطینیوں کیلئے نسل پرست نظام کے ماحول میں اسرائیلیوں کے ساتھ رہنا مشکل ہوگا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عرب دنیا اسرائیل کی اقتصادی اور جدیدٹیکنالوجی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکتی ہے تاہم یہ ہدف اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ اسرائیل کے شدت پسند دائیں بازوکے حکمراں عناصر مسئلہ فلسطین کا کوئی منصفانہ حل نہ دیں۔جب تک فلسطینیوں کی مشکل ختم نہیں ہوگی اور وہ پروقار زندگی گزارنے کا حق حاصل نہیں کرینگے تب تک بات نہیں بنے گی۔ آئندہ ایام کے دوران عرب اسرائیل رابطوں کی خبریں آتی رہیں گی۔ کاش اسرائیل کے حکمراں فلسطینیوں کیلئے قابل قبول منصفانہ حل پیش کرکے ان رابطوں کی تاج پوشی کردیں۔ آخری بات یہی کہونگا کہ فی الوقت گول اسرائیل کی کورٹ میں ہے۔
مزید پڑھیں:- -  - -مملکت اور انسانی حقوق

شیئر: