Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مرتد کی سزا قرآن وحدیث کی روشنی میں

 تمام مکاتب فکر نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ اسلامی حکومت مرتد کو قتل کرائیگی اگر وہ توبہ کرکے دوبارہ اسلام میں واپس آنے کیلئے تیار نہیں

 * * *  ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی۔ ریاض * * *

    اسلامی نقطۂ نظر میں مذہب اسلام کو چھوڑنا یعنی مُرتَد ہوجانا انسان کیلئے ایسی بڑی مصیبت ہے جو دنیا وآخرت ہر اعتبار سے انسان کو برباد کرنے والی ہے۔ ریاست اتر پردیش کے ضلع باغپت کے واقعۂ ارتداد کے بعد اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن میں قرآن وحدیث کی روشنی میں اِس تباہ کن گناہ اور اس کی سزا کا ذکر کررہا ہوں تاکہ عام لوگ اس گناہ کے نقصانات سے واقف ہوسکیں۔
     اگر کوئی شخص اسلام سے پھر جائے یعنی مرتد ہوجائے تو پہلے اسے دوبارہ مذہب اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی جائیگی اور حکمت وبصیرت کے ساتھ ہر ممکن کوشش کی جائیگی کہ وہ دوبارہ مذہب اسلام اختیار کرلے تاکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے دردناک عذاب سے بچ جائے۔ اگر مرتد مذہب اسلام کو دوبارہ اختیار کرلیتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کے ساتھ کلمہ شہادت پڑھنا ہوگا لیکن اگر کوئی مرتد دوبارہ اسلام قبول کرنے کیلئے تیار نہیں  تو جس طرح دنیاوی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے باغی کو بھی اسلامی حکومت قتل کرائیگی جیساکہ ابتدائے اسلام سے آج تک مفسرین، محدثین، فقہاء وعلمائے کرام نے قرآن وحدیث اور خلفائے راشدین کے اقوال وافعال کی روشنی میں فیصلہ فرمایا ہے۔ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں اس حکم کی تنفیذ اگرچہ نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مسلمانوں کی طرف سے ہندوستان میں اس شرعی حکم کے نفاذ کی کوئی کوشش یا مطالبہ ہے، پھر بھی مسلمانوں کو کم از کم یہ ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن وحدیث میں مرتد کی کیا سزا بیان کی گئی ہے۔
    آیاتِ  قرآنیہ:
     اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کے بعض لوگوں کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ بچھڑے کی عبادت کرنے کی وجہ سے مرتد ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق حکم فرمایا: فَتُوْبُوْا اِلیٰ بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ ( البقرۃ 54)  ’’لہٰذا اب اپنے خالق سے توبہ کرو اور اپنے آپ کو قتل کرو‘‘۔
     اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی عبادت کی تھی اور مرتد ہوگئے تھے، ان کو اُن لوگوں کے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق قتل کرایا گیا جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی تھی۔ ان لوگوں کا واقعہ بیان فرماکر اللہ تعالیٰ سورۃ الاعراف، آیت152میں ارشاد فرماتا ہے: وَکَذالِکَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ ۔’’ اور یہی سزا ہم دیتے ہیں بہتان باندھنے والوں کو‘‘۔
     بنی اسرائیل کے اس واقعہ کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت جاریہ بیان فرمائی کہ مرتد ہونے والے شخص کو ایسی ہی سزا دیتے ہیںیا دیں گے کیونکہ’’ نَجْزِی‘‘ فعل مضارع کا صیغہ ہے جس میں حال اور مستقبل دونوں کے معنیٰ پائے جاتے ہیں۔ غرضیکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسلام سے مرتد ہونے والے شخص کے متعلق اپنا فیصلہ بیان فرمایا۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائے امت کا اتفاق ہے کہ گزشتہ شریعتوں کے احکام جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؑ نے بیان کئے ہوں اور ان پر کوئی نکیر نہ کی ہو تو اس امت پر وہ عمل اسی نوعیت سے باقی رہے گا۔ آیتِ مذکور  میں اللہ تعالیٰ نے مرتد ہونے والے شخص کو: وَکَذَالِکَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ   کہہ کر قتل کرنے کی تائید کی ہے۔ نیز قرآن کریم کے پہلے مفسر حضور اکرم نے مرتد ہونے والے شخص کو واضح طورپر قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ زمین میں فساد برپا کرنے والوں اور قتل وغارت گری کرنے والوں کیلئے سورۃ المائدہ، آیت33میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا جَزَائُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ۔حضور اکرم کے اقوال وافعال کی روشنی میں مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ یہ آیت اُن لوگوں کے بارے میں بھی ہے جو مرتد ہوگئے ہوں۔ چنانچہ عکل اور عرینہ والوں کو حضور اکرم نے بیت المال کے اونٹوں کو ہنکالے جانے اور ان چرواہوں کو قتل کرنے کے جرم میں جو عبرت انگیز سزا دی، امام بخاری ؒ نے اس واقعہ کو اسی آیت کے تحت ذکر کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعینِ زکوٰۃ کی جو سرکوبی کی وہ اسی حکم کے تحت کی۔ مسیلمہ کذاب کا فتنہ بھی اسی محاربۃ اللہ ورسولہ کے تحت آتا ہے۔
    احادیث نبویہ:     
    ٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا:
    ’’ جس نے اپنا دین (اسلام) بدل دیا تو اس کو قتل کردو۔ ‘‘(بخاری، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، مسند احمد) ۔
    ٭ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو حضور اکرم نے یمن کے ایک صوبے کا گورنر بناکر بھیجا جبکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ان کے بعد دوسرے صوبے کا گورنر بناکر بھیجا ۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ملاقات کیلئے گئے۔حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اکرام ِ ضیف کے لئے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے لئے تکیہ ڈالا اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ابھی بیٹھ رہے تھے کہ انہوں نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص بندھا ہوا دیکھا۔ پوچھا یہ کون ہے؟ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ پہلے یہودی تھا پھر مسلمان ہوا، اس کے بعد پھر یہودی ہوگیا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا اے معاذ! بیٹھ جائو۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب تک اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، میں نہیں بیٹھوں گا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا یہی فیصلہ ہے۔3 بار حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہی فرمایا۔ پھر اس مرتد کے بارے میں قتل کا حکم دیا گیا اور وہ قتل کردیا گیا (بخاری و مسلم)۔
    ٭ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا کہ کسی مسلمان کا جو اس بات کی گواہی دیتا ہوکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول() ہوں، خون بہانا جائز نہیں مگر 3 چیزوں میں سے کسی ایک کے ارتکاب پر:1) شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کرے۔2) کسی کو قتل کردے تو اس کے قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ 3) اپنے دین اسلام کو چھوڑکر ملت سے خارج ہوجائے تو قتل کیا جائے گا۔ (بخاری ومسلم، ابوداود، ابن ماجہ، مسند احمد) ۔
    خلفائے راشدین اور قتل  مرتد:
     علامہ جلال الدین سیوطیؒ رحمہ اللہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب حضور اکرم کی وفات ہوئی اور مدینہ منورہ کے اردگرد بعض حضرات مرتد ہوگئے تو خلیفہ وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شرعی حکم کے مطابق ان کے قتل کے لئے کھڑے ہوگئے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وقت کی نزاکت کے پیش نظر ان کے قتل میں تامل کررہے تھے لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگرچہ حضور اکرم کی وفات ہوگئی اور وحی منقطع ہوگئی لیکن اللہ کی قسم میں ضرور ان سے اس وقت تک جہاد کرتا رہوں گا جب تک میرا ہاتھ تلوار کو پکڑسکے گا(تاریخ الخلفاء ) ۔اس واقعہ کے بعد حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ مسیلمہ کذاب کی طرف متوجہ ہوئے جو نبوت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے اجماع صحابہ کے باعث مرتد قرار دیاگیا تھا، چنانچہ ایک لشکر حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں اس کی طرف روانہ کیا جس نے مسیلمہ کذاب کو موت کے گھاٹ اتار دیا (فتح الباری) ۔
    حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اہل عراق میں سے ایک مرتد جماعت کو گرفتار کیا اور ان کی سزا کے بارے میں مشورہ کیلئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خط لکھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب میں تحریر کیا کہ ان پر دین حق پیش کرو، اگر قبول کرلیں تو ان کو چھوڑدو ورنہ قتل کردو۔ اسی طرح حضرت امام بخاری ؒ نے تحریر کیا ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے بعض مرتدین کو قتل کیا (بخاری)۔
      یہ ان خلفائے راشدین کا عمل ہے جن کی اقتداء کیلئے حضور اکرم نے قیامت تک آنے والی پوری امت کو حکم دیا ہے:
    ’’ تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔‘‘
     حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں مختار بن ابی عبید کو نبوت کا دعویٰ کرنے پر قتل کیا تھا (فتح الباری)۔
    قرآن وحدیث کی روشنی میں خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا۔ اگر وہ توبہ کرکے دوبارہ اسلام میں واپس آنے کے لئے تیار نہیں۔ اختصار کے مدنظر صرف چاروں ائمہ کی رائے پیش خدمت ہے:
     حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہؒ:
    عقیدہ کی سب سے مشہور ومعروف کتاب تحریر کرنے والے مصری حنفی عالم امام طحاویؒ حضرت امام ابوحنیفہؒ اور علمائے احناف کا قول نقل کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ مرتد کے بارے میں علماء کی آراء مختلف ہیں کہ اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا یا نہیں؟ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ اگر حاکم مرتد سے توبہ کرنے کا مطالبہ کرے تو اچھا ہے،  توبہ نہ کرے تو قتل کردیا جائے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام ابویوسفؒ اور حضرت امام محمدرحمہم اللہ ؒ کا یہی قول ہے۔ علماء کی دوسری جماعت فرماتی ہے کہ مرتد سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے جیساکہ دار الحرب کے کفار کو جب دعوت اسلام پہنچ جائے تو پھر ان کو اسلام کی دعوت دینے کی ضرورت نہیں۔ نہ پہنچی ہوتو دعوت دی جائے اور توبہ کا مطالبہ اس وقت واجب ہے جبکہ کوئی شخص اسلام سے بے سمجھی کی وجہ سے کفر کی طرف چلا جائے۔ رہا وہ شخص جو سوچے سمجھے طریقہ پر اسلام سے کفر کی طرف چلاجائے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا ۔ ہاں اگر وہ میرے اقدام سے پہلے ہی توبہ کرلے تو میں اسے چھوڑدوں گا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردوں گا (طحاوی ، کتاب السیر)۔
     حضرت امام مالک رحمہ اللہؒ:
    اُس شخص کے بارے میں جو اسلام سے پھر جائے امام مالکؒ حضرت زید بن اسلم ؒ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم نے فرمایا :
    ’’جس شخص نے اپنا دین بدل دیا تو تم اس کی گردن اڑادو۔‘‘
     امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم کے اس ارشاد کا معنیٰ یہ ہیں کہ جو شخص اسلام سے نکل کر زنادقہ وغیرہم میں جاملا، ایسے زنادقہ پر جب مسلمانوں کا غلبہ ہوجائے تو ان سے توبہ طلب کئے بغیر ان کو قتل کیا جائے۔ باقی رہے وہ لوگ جو صرف اسلام سے کفر کی طرف چلے گئے تو ان سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا ورنہ ان کا قتل کردیاجائے گا (موطا مالک) ۔
    حضرت امام شافعی رحمہ اللہؒ:
     امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ مرتد پر احسان کیا جائے نہ اس سے فدیہ لیا جائے اور اس کو اس کے حال پر بھی نہیں چھوڑا جائے گا یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوجائے یا قتل کردیا جائے (کتاب الام) ۔
    مشہور شافعی عالم ومحدث امام نووی رحمہ اللہ ؒ تحریر کرتے ہیں کہ تمام اہل اسلام کا مرتد کے قتل کرنے پر اجماع ہے، ہاں اس پر اختلاف ہے کہ مرتد پر توبہ پیش کرنا واجب ہے یا مستحب؟ (شرح مسلم)۔
     حضرت امام احمد رحمہ اللہؒ:
    مشہور ومعروف حنبلی عالم ِدین امام ابن قدامہ ؒ تحریر کرتے ہیں کہ اکثر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ مرتد کو اس پر توبہ پیش کئے بغیر قتل نہ کیا جائے جن میں حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عطاؒ، امام نخعیؒ، امام مالکؒ، امام ثوریؒ، امام اوزاعیؒ، امام اسحاقؒ اور فقہائے احناف شامل ہیں اور حضرت امام شافعی ؒ کا بھی ایک قول یہی ہے اور حضرت امام احمدؒ سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ مرتد سے توبہ کا مطالبہ واجب نہیں لیکن مستحب ہے اور حضرت حسن بصری ؒ سے بھی یہی منقول ہے کیونکہ حضور اکرم نے فرمایا کہ جو اپنا دین(اسلام) بدل دے تو اسے قتل کردو ۔ توبہ کا مطالبہ اس میں مذکور نہیں ہے(مغنی) ۔
    غرضیکہ قرآن وحدیث اور خلفائے راشدین کے اقوال وافعال کی روشنی میں اہل السنت والجماعت کے تمام مکاتب فکر اور اسی طرح شیعہ مکتب فکر کے علمائے کرام نے یہی فیصلہ فرمایا ہے کہ اسلامی حکومت مرتد کو قتل کرائیگی اگر وہ توبہ کرکے دوبارہ اسلام میں واپس آنے کیلئے تیار نہیں ۔ ہندوستان میں ہونے والے ارتداد کے واقعات کے پیش نظر مسلمانوں کو ایسی فکر اور کوشش کرنی چاہئے جس سے ایسے واقعات بار بار پیش نہ آئیں۔ گزشتہ مضمون میں اس کی تدابیر پر تفصیلی بحث کی گئی تھی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں قرآن وحدیث سے ٹوٹا ہوا رشتہ جوڑنا ہوگا۔ فی الحال شریعت اسلامیہ میں مذکور مرتد کی سزا اس جذبہ کے ساتھ قلمبند کردی ہے کہ اِس جرم ِعظیم کی سنگینی اور اس کی سزا سے کم از کم مسلمان واقف ہوسکیں۔ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں اس سزا کے نفاذ کا کوئی مطالبہ نہیں ۔
مزید پڑھیں:- - - -  --عصمت و عفت کی حفاظت کا انعام

شیئر: