Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب شہزادہ نائف نے مغربی اخبارات کو مقدمات کا انتباہ دیا!

محمد الساعد۔عکاظ
    یہ 2007ء کی بات ہے جب ایک برطانوی جریدے نے شہزادہ بندر بن سلطان کے حوالے سے من گھڑت خبر شائع کی۔برطانوی جریدے نے قطر کی حمایت سے خطے میں ایرانی دہشتگردی کیخلاف مہم میں شہزادہ بندر بن سلطان سے انتقام لینے کیلئے مغربی صحافت کی جانب سے چلائی جانے والی افواہوں اور دروغ بیانیوں کے تحت ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں شہزادہ بندر بن سلطان کے حوالے سے ایک جھوٹی خبر پیش کی گئی تھی۔
    شہزادہ بندر بن سلطان اُس وقت سعودی محکمہ خفیہ اور قومی سلامتی ادارے کے سربراہ تھے ۔ وہ خطے میں دہشتگرد عناصر اور ایران کی زیر قیادت مخالف اتحاد کے حوالے سے انتھک جدوجہد کررہے تھے۔ شہزادہ بندر بن سلطان کے مشن کا مقصد سعودی عدلیہ کو عراق کے سقوط کے بعد خطے میں ایران کی بڑھتی ہوئی دخل اندازی سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔ بغداداور دمشق سے لیکر بیروت تک ایران کے حکمراں سیاسی شیعی ہلال کے نقوش مرتسم کررہے تھے۔ بیروت کے جنوبی محلے میں حزب اللہ ان کی نیابت کررہی تھی۔ برطانوی جریدے گارجین اور بی بی سی لندن کی رپورٹوں سے قبل حزب اللہ اور دمشق کے کارندے 75سے زیادہ لبنانی سیاستدانوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے تھے۔ ان میں سرفہرست لبنان کے وزیر اعظم رفیق الحریری تھے۔
    شہزادہ بند ر ، سعودی مخالف اتحاد کے دشمنِ اول بنے ہوئے تھے۔ یہ لوگ شہزادہ بندر کو باقاعدہ دشمنِ اول ہی کے نام سے پکارنے لگے تھے۔ قطر نے تشہیری مہم اور شہزادہ بندر بن سلطان کے ابلاغی قتل کی قیادت کی تھی۔ قطر یہ کام برسہا برس سے کررہا ہے۔ اسے غیر شریفانہ جنگ لڑنے کا اچھا تجربہ حاصل ہے۔ وہ یہ کام مغربی ذرائع ابلاغ کی مدد سے پوری قوت سے انجام دینے کیلئے خطیر رقم خرچ کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا۔ شام ، بیروت،قطر اور ایران ،چاروں فریق تقسیم کار کئے ہوئے تھے۔ حزب اللہ قومیت پسندوں ، بعث پارٹی کے رہنماؤں اور عرب دنیا کے سیاسی شیعت زدہ لوگوں کی مدد سے بیروت میں زرد صحافت کے ذریعے افواہیں پھیلانے کا کام اپنے ذمے لئے ہوئے تھی۔ قطر  الجزیرہ چینل کے توسط سے ابلاغ اور دولت کی تقسیم کا کام انجام دے رہا تھا۔ یہ کام وہ آج بھی کررہا ہے۔
    شہزادہ بندر نے مغربی دنیا کے عدالتی اور قانونی ذرائع استعمال کرکے ایک لاء ایجنسی کو مذکورہ برطانوی جریدے کیخلاف مقدمہ چلانے کی ذمہ داری تفویض کی۔ جریدہ یہ جان کر حیرت زدہ رہ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ شہزادہ بندر دھمکی دینے پر ہی اکتفا کرینگے اور عالمی اثر ورسوخ رکھنے والے جریدے کیخلاف قانونی چارہ جوئی کا خطرہ مول نہیں لینگے۔ شہزادہ بندر کو چونکہ اپنے بے قصور ہونے کا یقین تھا اور انہیں یہ بھی پتہ تھا کہ ان کیخلاف جھوٹی خبر کس نے اور کیوں پھیلائی ہے اس لئے وہ مقدمے کے حوالے سے پُرعزم تھے۔ برطانوی جریدے نے مجبور ہوکر معذرت کی اور مقدمے کے اخراجات پیش کرکے معاملہ رفع دفع کرایا۔
    سعودی عرب کے سابق ولیعہد و وزیر داخلہ شہزادہ نائف بن عبدالعزیز ؒنے اس سے قبل برطانوی جریدے انڈیپنڈنٹ کے خلاف اُس وقت مقدمہ دائر کیا جب اس نے ایک جعلی دستاویز جاری کرکے دعویٰ کیاتھا کہ شہزادہ نائف نے مظاہروںکی بیخ کنی کیلئے سیکیورٹی اداروں کو احکام جاری کئے ہیں۔اُس وقت سعودی عرب میں کسی قسم کا کوئی مظاہرہ ہی نہیں ہوا تھا۔ شہزادہ نائف مقدمہ جیت گئے۔ بی بی سی ویب سائٹ کے مطابق انڈیپنڈنٹ نے اپنے رپورٹر رابرٹ وسک کے مضمون پر معذرت کی اور اعتراف کیا کہ انہوںنے جعلی دستاویز پیش کی تھی۔اس قضیے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ منفرد روزگار صحافی بھی غلطیاں کرتے ہیں ۔اچھی بات یہ کہ وہ اپنی غلطی کی اصلاح بھی تیزی سے کرلیتے ہیں۔
    اِن دنوں بھی سعودی عرب کو مذکورہ ابلاغی جنگوں کا سامنا ہے۔پرانے دشمن نئے روپ میں سامنے آرہے ہیں۔ کاش کہ ان غیر شریف حریفوں کیخلاف بھی ماضی کی طرح مقدمات کا ڈنڈا لہرایا جائے۔
مزید پڑھیں:- - -  - -وطن عزیز کی ترقی کیلئے اربوں ریال کے منصوبے

شیئر: