Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

باہمی کفالت ، مواخات کی روح

  مسلم ممالک میں شرحِ غربت بڑھ رہی ہے،ہر شخص اپنے ضرورت مند عزیز واقارب کی کفالت اپنے ذمہ لے لے
 
 * * *عبد المنان معاویہ ۔ لیاقت پور،پاکستان * *

    اسلام دین فطرت ہے جسے علیم وخبیر اللہ نے انسان کی دنیوی واُخروی فلاح ونجات کیلئے نازل کیا اور آخری نجات دہندہ جناب محمد رسول اللہ نے صحابہ کرامؓ  کو دین اسلام پر چلنا سکھایا اور صحا بہ کرامؓ نے دین اسلام کو پھیلایا اور پھر فقہائے امت ومحدثینِ ملت نے اپنی خداد اد صلاحیتوں سے دین اسلام کے گرد مضبوط قلعے تعمیر کردئیے جس سے باطل طاقتیں اس مضبوط قلعہ کو زند نہ پہنچا سکیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر دور میں دین اسلام کی حفاظت ونصرت کیلئے ایسے رجال پیدا فرمائے جو باطل فرقوں کے شکوک وشبہات کا جواب احسن انداز میں دیتے رہے ہیں۔
    جب فلسفۂ معتزلہ اُبھرااور اِ س فرقے کے علماء نے ہر اسلامی حکم میں معقولیات کو داخل سمجھا اور ہر اسلامی حکم کی تشریح معقولی طریق پر کرنا چاہی جس سے ہر باخبر جانتا ہے کہ ایک فتنہ برپا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کیلئے امام ابو الحسن اشعری اور اما م ابو منصور ماتریدی کو پیدا فرمایا جنہوں معتزلہ کے فلسفیانہ نظریات کا رد فلسفیانہ طرز سے ہی کیا ۔ اسی طرح جب ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں توکہیں ہمیں امام ابو حنیفہ ؒ  کا جنازہ جیل سے اٹھتا دکھائی دیتا ہے تو کہیں امام مالک ؒ  کو مدینہ کی گلیوں میں چکر لگوایا جانا نظر آتا ہے تو کہیں اما م احمد بن حنبل ؒ  کو کوڑے مارے جاتے دکھائی دیتے ہیں ،کہیں شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کے انگوٹھے کٹتے نظر آتے ہیں تو کہیں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا برہنہ پا طویل سفر دکھائی دیتا ہے۔
    یہ سب قربانیاں دین اسلام کی حفاظت کیلئے ان عظیم لوگوں نے دیں۔ اسی طرح جب فلسفۂ یونان نے اسلام کے عقائد ونظریات پر یلغار کی تو امام ابوحامد الغزالی  ؒ ودیگر فلاسفر علماء و حکمائے اسلام نے دین اسلام کے عقائد ونظریات کی حفاظت کی اور اسلام کے اعلیٰ وارفع احکامات کو عقلی طور پر ثابت کیااور اسلام کے اسرار ر موز بیان کئے۔ برصغیر پاک وہند میں یہ اعزاز شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کو جاتا ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے احکاماتِ اسلام کے اسرار رموز بیان کئے اور اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ ‘‘ تصنیف فرمائی۔ اُن کے بعدمولانا قاسم نانوتویؒ اورمولانا اشرف علی تھانویؒ جنہوں نے ’’احکام اسلام، عقل کی نظر میں ‘‘تصنیف فرما کر باطل کو سرنگوں کیا۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اسلام کوئی جامد دین نہیں بلکہ ایک کامل ومکمل دین ہے جس میں انسان کیلئے مکمل رہنمائی ہے ۔
    نبی اکرم کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
    ’’وہی تو (اللہ ) ہے جس نے نا خواندہ لوگوں میں اُنہی میں سے ایک پیغمبر مبعوث فرمایا جو اُن کے سامنے آیات (الہٰی ) پڑھتے اور اُن کو پاک (تزکیۂ نفس)کرتے اور اُ ن کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور اس سے پہلے یہ کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘ (الجمعہ2)۔
    آیت ھٰذامیں واضح ہے کہ پیغمبر اسلام جہاں صحابہ کرامؓ کے سامنے قرآن مجید(آیات الہٰی ) تلاوت فرماتے تھے، وہیں صحابہ کرام  ؓ کو قرآن پاک کی تعلیم بھی دیتے اور ساتھ ساتھ حکمت (جس سے بعض مفسرین نے احادیث نبویہؐمراد لی ہے) کی بھی تعلیم دیتے تھے ۔ اس سے پتہ چلا کہ دین اسلام کوئی جامد دین نہیں بلکہ اس میں دانائی (حکمت)ہے اور جہاں دانائی ہوتی ہے وہیں سوالات جنم لیتے ہیں، جہاں سوالات ہوتے ہیں تو پھروہی سوالات تحقیق کے دَر وَا کرتے ہیں۔
    یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ نبی میں اور فلسفی میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اس کی بَین وجہ یہ ہے کہ کسی فلسفی کو اپنی بات پر یقین حاصل نہیں ہوتا بلکہ وہ جو کچھ کہتا ہے اور جس تعلیم کا مبلغ ہو تا ہے وہ خود بھی اُسے ظنی سمجھتا ہے لیکن اللہ کا نبی جو کچھ کہتا ہے اور جس تعلیم کا وہ مبلغ ہوتا ہے، وہ اُسے یقینی سمجھتا ہے ۔ پھر کسی فلسفی کی کسی بات یا رائے سے اختلاف ممکن ہے۔ لوگوں نے فلسفیوں کی سینکڑوں باتوں سے اختلاف کیا بھی ہے لیکن کوئی شخص فلسفی کی مخالفت سے کافر نہیں ہوتا جبکہ اس کے برعکس نبی کی بات حتمی ہوتی ہے کیونکہ اللہ کا نبی کوئی ایسی بات نہیں کرتا جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف ہو اس لئے نبی کی بات رد نہیں کی جا سکتی اور اس سے اختلاف بھی ناممکن ہے ،ہاں نبی کی کوئی بات اگر عقلِ انسانی تسلیم نہ کرے تو نبی سے اُس کی تشریح معلوم کی جاسکتی ہے لیکن مخالفت پھر بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اللہ کے نبی کی بات کی مخالفت سے انسان کافر ہوجاتا ہے۔
    یہ طویل تمہید ہمیں اپنے موضوع پر آنے کیلئے باندھنی پڑی تاکہ دورانِ موضوع گفتگو میں آسانی رہے، اب ہم آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف۔
    یہ بات اہل علم پر مخفی نہیں کہ اسلام سے قبل معاشرے میں نفرتیں تھیں ،ذرا ذرا سی بات پر لوگوں کو قتل کر دیا جاتا تھا اور پھر یہ قتل وقتال سالوں نہیں نسلوں تک چلتا ۔ جنگ بعاث ہی کو دیکھ لیں کہ120 سال تک لڑی جاتی رہے لیکن حضورنبی کریم نے قائم کردہ اسلامی معاشرہ میں لوگوں کی ایسی تربیت کی کہ سالوں آپس میں لڑنے والے شیٖر وشکر ہوگئے۔ انہیں دیکھ کر کوئی اس بات کا اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ اِن میں کبھی جنگ بھی ہوئی تھی ۔
    اس وقت ہمیں مدینہ منورہ میں قائم ہونے والی مواخات کی تفصیل میں نہیں جانا بلکہ ہم نے اُس کی حکمت کو اجاگر کرنا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایک شخص کسی ایسے شخص کو جو اُس کی برادری کا نہیں، اُس کا ہم قبیلہ بھی نہیں لیکن وہ اُس کیلئے اپنا گھر بار ،مال ودولت نصف نصف کر دیتا ہے حتیٰ کہ یہاں تک عملی نمونہ پیش کیا گیا کہ جس شخص کی 2بیویاں تھیں اُس نے اپنی ایک بیوی کو طلاق دے دی تاکہ دوسرا مہاجر بھائی اُس سے شادی کر لے ۔
    دنیا حیران ہے کہ ایک زخمی شخص پانی طلب کرتا ہے،۔ جب پانی اُس کے پاس پہنچتا ہے تو پیالہ لبوں کو لگاتا ہے کہ ایک جانب سے پانی کیلئے آواز اُبھرتی ہے، وہ شخص کہتا ہے کہ پہلے میرے اُس بھائی کو پانی پلا ئو، جب پانی والا شخص دوسرے کے پاس پانی لے کر پہنچتا ہے تو ایک اور جانب سے ایک کراہتی ہوئی آواز آتی ہے،وہ شخص مشکیزہ والے کو کہتا ہے کہ میرے اُس بھائی کو پانی پلائو ،وہ پانی والا اُدھر جاتا ہے ،اس طرح 7 اشخاص پانی طلب کرتے ہیں ،6 اشخاص پانی نہیں پیتے بلکہ دوسرے بھائی کی طرف بھیج دیتے ہیں ۔جب پانی والا شخص آخری شخص کے پاس پہنچا اُس کی روح پرواز کر چکی تھی تو اُ س سے پہلے والے شخص کے پاس پہنچا تو وہ بھی جان، جانِ آفرین کے سپرد کرچکا تھا، اسی طرح دیگر حضرات بھی درجۂ شہادت پا چکے تھے تو ایسے موقع پر جب انسان اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہووہ اپنی فکر چھوڑ کر اپنے مسلمان بھائی کی فکر کرے، دنیاحیران ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟۔
    جی ہاں یہی وہ فکر ہے جو اسلام کو مطلوب ہے کیونکہ مسلمان ایک جسد کی مانند ہیں۔ جب جسد خاکی کے کسی حصہ میں تکلیف ہو تو سارا جسد اُسے محسوس کرتا ہے مثلاً کسی کی آنکھ میں تکلیف ہے تو کیا باقی جسم اس سے لاپروا رہ سکتا ہے، نہیں۔کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی کے پاؤں میں کانٹا لگتا ہے تو بے ساختہ منہ سے درد کا اظہار ہوتا ہے،کیوں؟اس لئے کہ کانٹا بے شک پائوں میں لگا لیکن دردمحسوس سارے جسم نے کیا،اسی طرح باقی جسم کی مثال ہے تو مسلمان بھی آپس میں ایک جسد کی مثل ہیں کہ اگر کسی مسلمان بھائی کو کوئی تکلیف لاحق ہو تو خطۂ ارض پر بسنے والے جملہ مسلمان اسے محسوس کریں۔
    سوال ذہن میں یہ اُبھرتا ہے کہ اس اخوت سے حاصل کیاہوگا؟تو عرضِ خدمت ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا تکوینی راز ہے کہ دنیا بھر کے سارے لوگوں کو نہ توامارت دی اور نہ ہی غربت دی۔ اگر ساری دنیا امیر ہوتی تو گھروں میں ،سڑکوں پر ،دوکانوں پر ،فیکٹریوں میں کام کون کرتا ،جب سب ہی امیر ہوتے تو مزدوری کون کرتا؟اور اگر سارے لوگ غریب ہوتے تو مزدوروں کو پیسے کون دیتا، ہر کسی کو اپنی پڑی ہوتی، اسی لئے اب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا2 طبقوں میں منقسم ہے ،امیراور غریب ۔
    جب اسلام کی صدائے باز گشت بلند ہوئی تو پیغمبر اسلام نے اس نظام (امارت وغربت) میںکس طرح حسین امتزاج پیدا فرمادیا ،مشہور سیرت نگار جناب نعیم صدیقی ؒ لکھتے ہیں:
    ’’ مدینہ کے معاشرے میںسینکڑوں مہاجرین کی بحالی کا مسئلہ تھا۔ گھر بار چھوڑ چھاڑ کر مسلسل لوگ اکھڑے چلے آرہے تھے اور چند ہزار آبادی رکھنے والی متوسط سی بستی کو انہیں اپنے اندر جذب کرنا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس مسئلے کو جو تاریخ میں جب بھی پیدا ہوتا ہے پریشان کن بن جایا کرتا ہے، مدینہ کے معاشرے اور اس کے صدر ریاست نے جس کمالِ حکمت سے حل کیا ،اس کی کوئی دوسری مثال دنیا میں نہیں ملتی ۔ کوئی آرڈیننس جاری نہیں کئے گئے ،کوئی قانون نہیں ٹھونسے گئے ،الاٹمنٹیں نہیں کی گئیں ،مہاجرین کی تعداد معین کرکے کوئی قدغن نہیں لگائی گئی، کسی جبر سے کام نہیں لیا گیا ،محض ایک اخلاقی اپیل کے ذریعے اس پُر پیچ مسئلے کو چند روز میں حل کرلیا گیا۔ سرور عالم نے عقیدے اور نظریے اور مقصد کی صحیح معنوں میں ایک نئی برادری پیدا کر دکھائی۔ ‘‘(محسن انسانیت) ۔
    اسی طرح نبی کریم کے طریقِ اخوۃ کی حکمت عملی کو واضح کرتے ہوئے مولانا منظور احمد نعمانی لکھنویؒ  تحریر فرماتے ہیں:
    ’’ رسول اللہ جو رحمۃللعالمین ہیں اور آپ کی تعلیم ساری دنیا کیلئے آبِ رحمت ہے ،آپ نے اللہ تعالیٰ کی عام مخلوق اور عام انسانوں کے ساتھ ترحم اور حسن سلوک کے بارے میں اپنے ماننے والوں کو جوہدایات دی ہیں اور جو نصیحتیں فرمائی ہیںاُن میں سے بعض گزشتہ اوراق میں درج کی جاچکی ہیں لیکن آپ  کو اللہ تعالیٰ کا پیغمبر ماننے والی امت چونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دینی رشتہ کے ذریعہ ایک برادری بنادی گئی ہے اور اب رہتی دنیا تک اس برادری ہی کو نبوت کی نیابت اور نمائندگی کرنی ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جبکہ امت کے مختلف افراد اور عناصر دینی اخوت ،للّہٰی محبت، مخلصانہ ہمدردی وخیر خواہی اور بے غرضانہ تعاون کے ذریعے ایک وحدت بنے رہیں اور ان کے دل آپس میں پوری طرح جڑے رہیں ،اسلئے رسول اللہ نے اپنی تعلیم میں اس پر خاص الخاص زور دیا ہے۔ ‘‘(معارف الحدیث)۔(6مارچ2018کیلئے لیا گیا)
    مولانا نعمانیؒ  اسی کتاب میں2احادیث اسی موضوع کی مناسبت سے تحریر فرماتے ہیں، وہ بھی ملاحظہ فرمالیجئے ۔
    حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
    ’’ ایمان والوں کو باہم ایک دوسرے پر رحم کھانے ،محبت کرنے اور شفقت ومہربانی کرنے میں تم جسمِ انسانی کی طرح دیکھو گے کہ جب اُس کے کسی ایک عضو کو بھی تکلیف ہوتی ہے تو جسم کے باقی سارے اعضاء بھی بخار اور بے خوابی میں اُس کے شریکِ حال ہوجاتے ہیں۔‘‘(بخاری ومسلم)۔
    مطلب یہ ہے کہ مجھ پر ایمان لانے والوں میں باہم ایسی محبت ومؤدت ،ایسی ہمددری اور ایسا دلی تعلق ہونا چاہے کہ دیکھنے والی ہر آنکھ اُن کو اس حال میں دیکھے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک کسی مصیبت میں مبتلاہو تو سب اس کو اپنی مصیبت سمجھیں اور سب اُس کی فکر اور بے چینی میں شریک ہوں اور اگر ایمان کے دعویٰ کے باوجود یہ بات نہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ حقیقی اور کامل ایمان نصیب نہیں ، ایمان والوں کی یہی صفت قرآن مجید میں ’’رحمآئُ بینھم ‘‘(الفتح28)کے مختصر الفاظ میں بیان کی گئی ہے ۔
    حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ، رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
    ’’ ایمان والوں کا تعلق دوسرے ایمان والوں سے ایک مضبوط عمارت کے اجزاء کا سا ہونا چاہیے کہ وہ باہم ایک دوسرے کی مضبوطی کا ذریعہ بنتے ہیں (اور ان کے جڑے رہنے سے عمارت کھڑی رہتی ہے) پھر آپ نے (ایمان والوں کے اس باہمی تعلق کا نمونہ دکھانے کیلئے) اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال دیں اور بتایا کہ مسلمانوں کو اس طرح باہم مل کر ایک ایسی مضبوط دیوار بن جانا چاہیے جسکی اینٹیں باہم پیوست اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوں اور کہیں ان میں خلال نہ ہو۔‘‘(بخاری ومسلم)۔
    درج بالا احادیث کو ایک بار پھر پڑھ لیں اور غور فرمائیں کہ نبی رحمت   مسلمانوں کو ایک دوسرے سے یوں پیوست کر نا چاہتے ہیں جیسے ایک مکان کی اینٹیں ایک دوسرے سے پیوست ہوتی ہیں لیکن افسوس کہ آج ہمیں اپنے ہمسایہ کی خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ کون ہے؟ اور اُس کی گزر بسر کیسے ہو رہی ہے ؟اُس کے گھر میں کوئی پریشانی تو نہیں؟اس کے باوجود ہم بڑے پکے مسلمان ہیں۔
    ہم5وقت نماز پڑھتے ہیں لیکن مسجد میں کون آتا ہے اور اگر وہ کسی دن نہیں آیا ،ہمیں اس کی توفیق حاصل نہیں ہوتی کہ اُس کی خبر لے لیں لیکن ہم جس نبی کا کلمہ پڑھتے ہیں ،اُس کا مبارک عمل کیا تھا کہ نبی   ایک یہودی بچہ کی عیادت کو تشریف لے جاتے ہیں جس سے وہ بچہ مسلمان ہوجاتا ہے ۔سچی بات ہے کہ آج ہمارے علمائے کرام جن کے بڑے بڑے مدارس چل رہے ہیں ،وہ بھی جمعہ کے خطبات پر اس طرف توجہ نہیں دیتے ،بڑے بڑے دینی اجتماعات ہوتے ہیں ،دنیا جہان کے موضوع زیر بحث آتے ہیں لیکن اُخوتِ مسلم کا موضوع وہاں بھی ناپید ہے ،ہاں اُخوت مسلک کا موضوع بہر کیف موجود ہے ۔
نہ جانے تمہیں کیا ہوگیا ہے
دل خرد سے اور خرد دل سے بیزار
    بلکہ ہمارے ہاں جو موضوع بڑے ذوق وشوق سے سنے جاتے ہیں ،وہ ہیں اہل اسلام کے آپس کے اختلافات۔اس وقت ضرورت ہے اِ س موضوع پر بات کرنے کی تاکہ جو مسلمان بھائی غربت کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں، مخیر حضرات اُن کی طرف بھی متوجہ ہوں، مجھے اس وقت نبی ملاحم   کا ایک فرمان یاد آرہا ہے، ملاحظہ فرمائیے نبی رحمت نے فرمایا:    ’’  محتاجی اور مفلسی آدمی کو کفر تک بھی پہنچا سکتی ہے۔‘‘(معارف الحدیث)۔

مزید پڑھیں:- - - - رسول اکرم کی تاریخِ ولادت ، تحقیقی نظر

شیئر: