Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

6 ماہ تک صرف مثبت باتیں

***تنویر انجم***
آیئے اچھی اچھی (مثبت) باتیں کریں کہ ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے، اسے کامیابی کی شاہراہ پر دوڑانے، پرامن بنانے اور تمام مسائل کے حل کا آسان ترین ذریعہ سامنے آیا ہے۔ حکم دیا گیا ہے کہ میڈیا (پرنٹ ؍ الیکٹرانک ؍ سوشل کوئی بھی ہو سکتا ہے) کم از کم 6 ماہ تک صرف مثبت چیزیں سامنے لائے۔ میڈیا کے تمام دانشور ’’مخصوص چشمہ‘‘ استعمال کریں کہ جس سے حقائق چھپ جائیں مگر ’’حق‘‘ دکھائی دے کہ ’’اِسی‘‘ میں خیر ہے۔گوکہ یہ کام ایک صحافی کا ہے تو نہیں کیونکہ ’’ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا‘‘ لکھنے والے ’’برانڈ منیجر‘‘ تو ہو سکتے ہیں یا باقاعدہ تنخواہ پر رکھے گئے ’’پبلک ریلیشنز آفیسر‘‘ تو ہو سکتے ہیںجو اپنی ’’پراڈکٹ‘‘ کی خامیاں چھپا کر اس کا صرف روشن پہلو ہی سامنے رکھیں اور سامنے والے کو دھوکا دے کر اپنے مفادات حاصل کرلیں۔ دونوں طرح کے افراد (برانڈ منیجرز، پبلک ریلیشنز آفیسرز) اپنے تنخواہ دینے والوں کے یک طرفہ بیانیے کی تشہیر کرتے ہیں اور سراب دکھا کر عمومی رائے پر اثر انداز ہونے کے ذرائع اپناتے ہیں۔ میڈیا ورکر (صحافی) کا کام تو اصل خبر جاری کرنا، حقائق پر مبنی تجزیہ دینا ہے۔ صحافت جیسا مقدس پیشے کا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ اس سے وابستہ افراد کسی بھی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے معروضی حقائق پر مشتمل آرا، خبریں اور جائزوں کے نتائج پوری دیانت داری کے ساتھ پیش کریں۔ تحریر لکھتے وقت صحافی کا قلم ریاستی بیانیے کا ترجمان نہیں بنتا بلکہ حق کی راہ پر ہوتا ہے، ہاں!  حب الوطنی ایک علیحدہ چیز ہے۔
ملک کے کئی صحافی تو پہلے ہی سے ’’فرض نبھانے‘‘ میں خاصے مصروف ہیں، جن کے نام بھی بڑے ہیں اور کام بھی۔ حکومتوں، حکمرانوں اور ان کے بیانیوں کو پروموٹ کرنے والوں نے صحافت کے معیار کو بری طرح زوال کا شکار کیا ہے مگر اس ٹولے نے ’’بدنامی‘‘ کے ذریعے خوب ’’نام‘‘ کمایا۔ آیئے ہم بھی اس ’’کارِ خیر‘‘ میں شامل ہوکر اچھی اچھی باتیں کریں۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گھر کا سربراہ شوہر مگر حاکم تو بیوی ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک صاحب نے اپنی اہلیہ کا مثبت رویہ ایسے ظاہر کیا: کسی نکمے شخص کے گھر مہمان آیا۔ میزبان نے اپنی بیوی سے کہا کہ کھانا پکا دو۔ بیوی جو پہلے ہی کسی بات پر جلی بھنی بیٹھی، چلا کر بولی: خاک پکا دوں؟۔ مہمان نے سن لیا، تاہم میزبان نے چونکہ ’’سب اچھا ہے‘‘ رپورٹ کرنا تھا، اس لیے بنا کسی شرمندگی کے وضاحت کی کہ دراصل بیگم صاحبہ آج گوشت پکانے کا کہہ رہی ہیں اور وہ اس طرح کہ ’خاک‘‘ کو الٹا پڑھ دیں تو ’’کاخ‘‘ بنتا ہے جو فارسی زبان میں ’’محل‘‘ کو کہتے ہیں اور اگر ہم ’’محل‘‘ کو اُلٹ کر پڑھیں تو ’’لحم‘‘ بنے گا جس کا مطلب ظاہر ہے گوشت۔
ملک میں بہت کچھ مزید اچھا بھی ہو رہا ہے۔ جیسے تحریک انصاف کی حکومت کے تیار کردہ 50 لاکھ گھروں میں منتقل ہونے والے راتوں رات خوشحال ہو گئے اور ایک کروڑ نوکریوں کے مواقع پیدا ہونے کے بعد ملک سے بے روزگاری بالکل ختم ہوگئی۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سمیت تمام ممالک کا قرضہ اتار دیا، اب ملک میں کسی چیز پر کوئی ٹیکس نہیں لگے گا۔ انقلابی تبدیلیوں کے نتیجے میں ملکی معیشت میں بہتری آئی جس سے جرائم کی شرح صفر پر آ گئی۔ عدالتوں میں زیر التوا لاکھوں مقدمات نمٹا دیے گئے۔ پیٹرول سستا اور روٹی مفت میں دستیاب ہے۔ مدینہ جیسی ریاست میں لوگ اب جھوٹ بول رہے ہیں نہ ہی دھوکا دہی کے کام ہو رہے ہیں۔ بلڈر مافیا، قبضہ مافیا، جرائم پیشہ افراد اور بدعنوان عناصر، سب راہ راست پر آ چکے ہیں۔ انصاف دہلیز پر میسر ہے اور کم ترین نرخوں پر بنیادی اشیائے ضرورت کے ذخیرے عوام کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ 
حکومت، فوج، عدلیہ، سیاستدان، میڈیا اور عوام، سب ایک پیج پر موجود ہیں۔ کسی کو کسی سے اختلاف ہے نہ شکایت۔ یہاں تک کہ سڑکوں پر کوئی شخص یا گاڑی ’’رانگ سائیڈ (مخالف سمت)‘‘ پر دکھائی نہیں دے رہی۔ ٹریفک سگنلز کی فضا سے لی گئی تصویر میں انتہائی مہذب قوم دکھائی دے رہی ہے۔ کچرا تھیلیوں میں پیک ہوکر مخصوص مقام پر پہنچ رہا ہے اور وہاں اس سے توانائی پیدا کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف بجلی کا بحران ختم ہوگیا بلکہ اب پاکستان دوسروں کو بجلی فروخت کرنے کے قابل بھی ہو گیا ہے۔ نجی اداروں کے حالات اچھے ہیں، تنخواہیں بڑھنے کے ساتھ بروقت ملنے سے ہر گھر میں خوشحالی کے ڈیرے ہیں۔ ملک میں اظہار رائے کی آزادی ہے، میڈیا آزاد اور نقاد تنقید کرنے سے قاصر ہیں۔ 
سیوریج کا نظام آئندہ 100سال تک بھی بوسیدہ نہیں ہوگا جبکہ پانی کی قلت دور ہو چکی ہے۔ اسپتال خالی پڑے ہیں، بہترین اور معیاری میٹریل سے تیار کردہ سڑکیں سالہا سال تک ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رہیں گی۔ درختوں، پارکوں اور سبزہ زاروں کی بہتات سے ہر جانب ہریالی ہی ہریالی ہے۔ عالمی اداروں نے پاکستانی ماہرین کو اعلیٰ نوکریوں کی پیش کش کی ہے۔ غیر ملکی ادارے پاکستان میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یورپی ممالک کے شہری روزگار کے حصول کے لیے پاکستانی ویزا حاصل کرنے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔ بیرون ملک پاکستانی بڑی تعداد میں وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔
آخر میں ہم قارئین کو سب سے اچھی بات بتاتے ہیں، اور وہ یہ کہ پاکستان کی تیز رفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے کئی ممالک نے خود کو پاکستان میں ضم کرنیکی درخواست کی ہے اور وزیر اعظم عمران خان کو مشترکہ وزیر اعظم کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گو کہ ہر شہری حکومت کی انقلابی پالیسیوں پر نازاں ہے اور حکمرانوں کو دعائیں دے رہا ہے۔
 

شیئر: