Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نبی کریم ﷺ پر صلٰوۃ و سلام کی فضیلت

 ساری عبادتوں میں قبول اور عدم قبول کا احتمال ہے لیکن حضور اقدس پر درود قبول ہی ہوتا ہے،ہم گناہ گاروں کی یہ عبادت باوجود ناقص ادائیگی کے ان شاء اللہ قبول ہے
 
 ڈاکٹر سید اشرف الدین ۔ جدہ

    صلوٰۃ وسلام دراصل اللہ تعالیٰ کے حضور میں کی جانے والی بہت اعلیٰ درجہ کی ایک دعا ہے جو رسول اللہ سے اپنے ایمانی وابستگی ووفاداری کے اظہار کیلئے آپ کے حق میں کی جاتی ہے اور یہ دعا آپ سے محبت اور آپ کے حقوق اور آداب میں سے ہے۔ اس کا حکم خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن پاک میں بڑے پیارے اور مؤثر انداز میں دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
     ان اللّٰہ وملٰئکتہ یصلون علی النبی، یا یھا الذین اٰمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما ۔
    "بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں اس پیغمبر پر ،اے ایمان والو!تم بھی آپ پر رحمت بھیجو اور خوب سلام بھیجا کرو۔"( الاحزاب56 )۔
    صلوٰۃ وسلام کی اہمیت :  
    حق تعالیٰ نے قرآن پاک میں بہت سے احکامات ارشاد فرمائے ، بہت سے انبیائے کرام کی توصیفیں اور تعریفیں بھی فرمائیں، ان کے اعزاز واکرام بھی فرمائے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایاتو فرشتوں کو حکم فرمایا کہ ان کو سجدہ کیا جائے لیکن کسی اعزاز واکرام میں یہ نہیں فرمایا کہ میں بھی یہ کام کرتا ہوں تم بھی کرو ۔ یہ اعزاز واکرام صرف سید الکونین فخردو عالم ہی کیلئے ہے کہ اللہ جل شانہ نے صلوٰۃ کی نسبت اولاً اپنی طرف اور اس کے بعد اپنے پاک فرشتوں کی طرف کرنے کے بعد مسلمانوں کو حکم فرمایا کہ اللہ اور اس کے فرشتے صلوٰۃ بھیجتے ہیں، اے مؤمنوں! تم بھی صلوٰۃ وسلام بھیجو ۔
     اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہوگی کہ اس عمل میں اللہ اور اس کے فرشتوں کے ساتھ مؤمنین کی شرکت ہے ۔آیت کریمہ میں لفظ" انَّ "تاکید پر دلالت کرتا ہے اور" یصلون" صیغہ مضارع کے ساتھ دوام پر ،یعنی قطعی چیز ہے۔ اللہ اور اس کے فرشتے ہمیشہ صلوۃ بھیجتے رہتے ہیں نبی پر ۔
یصلی علیہ اللّٰہ جل جلالہ      
بھذا بر ا لعلمین کمالہ
       ( ان پر تو اللہ جل جلالہ خود درود بھیجتے ہیں)۔
     اسی سے آپ کا خصوصی کمال ظاہر ہو گیا ۔
    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے’’ یصلون‘‘ کی تفسیر ’’یبرکون ‘‘  نقل کی گئی ہے یعنی برکت کی دعا کرتے ہیں۔
     اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں اللہ جل شانہ نے اپنے بندوں پر ظاہر کیا ہے کہ ان کے نزدیک اپنے پیارے حبیب کا کیا رتبہ ہے اور کیا شان ہے کہ اللہ جل شانہ اور ملائکہ مقربین ملاء اعلیٰ میں آپ کی کیا ثنا کرتے ہیں پھر ملاء سفلیٰ میں اسی درود کا حکم فرما دیا تاکہ عالم علوی سے عالم سفلی تک ہر جگہ آپ کی تعریف اور ثنا سے گونج اُ ٹھے اور زمین و آسمان کے درمیان ساری فضا محبوبیت اور رفعت شان محبوب سے معطر اور منور ہو جائے ۔     
    امام قرطبی ؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے ذریعے حضو ر کی شرافت کو بیان کیا گیا ہے کہ آپ ہر حال میں بلند مرتبہ ہیں اور آپ یا آپ کی ازواج مطہراتؓ کے بارے میں کوئی غلط عقیدہ یا احترام و توقیر میں کوتاہی کی نجاست کسی کے اندر ہو تو اس آیت کے ذریعہ اس کو دور کیا گیا ہے ۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ درود شریف کا حکم دینے سے پہلے اس شاندار تمہید کا مقصد یہ ہے کہ مؤمنین یہ جان لیں کہ کائنات کی ہر چیز تو اللہ تعالیٰ کی پاکی اور تعریف بیان کرتی ہے جیسا کہ ارشاد ہے ’’ وان من شیء الا یسبح بحمدہ ‘‘ ( سورۃ اسراء،آیت44 ) لیکن اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق اپنے محبوب کی ثنا و تعریف کرتا ہے اور رحمت خاص مسلسل بھیجتا ہے اور فرشتے ہر وقت اس کی دعا میں مشغول رہتے ہیں' اسی سے آپ کا رتبہ اور آپ کی محبوبیت عند اللہ ظاہر ہوتی ہے:
 کس کی طاقت ہے کہ مدحت میں زبان کھول سکے
جب خدا آپ ہو قرآن میں ثنا خواں ان کا
    صلوٰۃ علی النبی کا مطلب :
     صلوٰۃ کالفظ جو آیت شریفہ میں واردہوا ہے او اس کی نسبت اللہ جل شانہ کی طرف اور اسکے فرشتوں کی طرف اور مؤمنین کی طرف کی گئی ہے۔ وہ ایک مشترک لفظ ہے جو کئی معنی میں مستعمل ہوتا ہے ۔ تکریم وتشریف ، مدح وثنا، برکت ورحمت ، رفعِ مراتب ، محبت و عطوفت ، پیار ودلار ، ارداہ خیر ودعاء ان سب کو صلوٰۃ کا مفہوم حاوی ہے اور اسی رحمت خاصّہ کو ہمارے محاورہ میں درود کہتے ہیں ۔
    امام بخاری رحمہ اللہ ؒ نے ابو العالیہ سے نقل کیا کہ اللہ کے درود کا مطلب آپ کی تعریف کرنا ہے فرشتوں کے سامنے اور فرشتوں کا درود ان کا دعا کرنا ہے ۔
    صاحب روح البیان لکھتے ہیں :
    "بعض علماء نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا درود بھیجنے کا مطلب حضور اقدس کو مقام محمود تک پہنچانا ہے اور وہ مقام شفاعت ہے اور ملائکہ کے درود کا مطلب ان کی دعا کرنا ہے ۔ حضور اقدس کی زیادتی مرتبہ کیلئے اور حضور کی امت کیلئے استغفار اور مؤمنین کے درود کا مطلب حضور کا اتباع اور حضور اقدس کے ساتھ محبت اور حضور کے اوصاف جمیلہ کا تذکرہ اور تعریف۔"
    اس تمہید کے بعد اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو حکم دیا ہے کہ تم لوگ بھی میری محبت کے اظہار میں شامل ہو کر رحمت کائنات پر درود بھیج کر میری خصوصی رحمت کے مورد بن جاؤ اور میرے حبیب سے محبت اور ان کا اتباع کر کے تم بھی میرے محبوب بن جاؤ ۔
    بلا شبہ یہ بہت بڑا امتیاز ہے اور یہ رسول اللہ کے مقام ِمحبوبیت کے خصائص میں سے ہے ۔
    درود وسلام کا مقصد اور امتیازی خصوصیت :
      مولانا منظور احمد نعمانی ؒ معارف الحدیث ِکتاب الاذکار والدعوات میں تحریر فرماتے ہیں:
    " یہاں ایک بات یہ بھی قابل ذکر ہے کہ درود وسلام اگرچہ بظاہر رسول اللہ کے حق میں اللہ تعالیٰ سے ایک دعا ہے لیکن جس طرح کسی دوسرے کیلئے دعا کرنے کااصلی مقصد اس کو نفع پہنچاناہوتا ہے، اس طرح رسول اللہ پر درود وسلام بھیجنے کامقصد آپ کی ذات پاک کو نفع پہنچانا نہیں ہوتا ۔ہماری دعاؤ ں کی آپ کو قطعاً کوئی احتیاج نہیں ۔ بادشاہوں کو  فقیروں ، مسکینوں کے تحفوں اور ہدیوں کی کیا ضرورت ! بلکہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا ہم بندوں پر حق ہے کہ اس کی عبادت اور حمد وتسبیح کے ذریعہ اپنی عبدیت اور عبودیت کا نذرانہ اس کے حضور میں پیش کریں اورا س سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نفع نہیں پہنچتا بلکہ وہ خود ہماری ضرورت ہے اور اس کا نفع ہم ہی کو پہنچتا ہے ، اس طرح رسول اللہ کے محاسن وکمالات ، آپ کی پیغمبرانہ خدمات اور امت پر آپ کے عظیم احسانات کا یہ حق ہے کہ امتی آپ کے حضور میں عقیدت ومحبت اور وفاداری اور نیازمندی کا ہدیہ اور ممنونیت و سپاسگذاری کا نذرانہ پیش کریں ۔ اسی کیلئے درود وسلام کا یہ طریقہ مقرر کیا گیا ۔ درود شریف کی امتیازی خاصیت یہ ہے کہ خلوص دل سے اس کی کثرت اللہ تعالیٰ کی خاص نظر رحمت، رسول اللہ  کے روحانی قرب اور آپ کی خصوصی شفقت و عنایت حاصل ہونے کا خاص الخاص وسیلہ ہے ۔"( معارف الحدیث ، کتاب الا ذکار  ودعوات ) ۔
     بعض حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ ہر امتی کا درود اُس کے نام کے ساتھ رسول اللہ تک فرشتوں کے ذریعہ پہنچایا جاتا ہے ۔ آگے درج ہونے والی حدیثوں سے معلوم ہوگا کہ اس میں اہل ِ ایمان کیلئے کس قدر خیر و رحمت وبرکات ہیں اور اس میں کوتاہی کرنے والوں کیلئے سخت وعیدیں ہیں۔ ان احادیث کی بناء پر فقہاء اس کے بھی قائل ہیںکہ جب آپ کا ذکرکرے یا سنے تو اس وقت آپ پر درود بھیجنا واجب ہے۔ ایک سلسلۂ کلام میں بار بار آپ کا ذکر آئے تو ہر بار درود پڑھنا واجب ہوگا ۔دوسری رائے یہ ہے کہ ایک بار پڑھنا واجب ہوگا اور ہر بار پڑھنا مستحب ہوگا ۔ محققین نے اسی کو اختیار کیا ہے ( معارف الحدیث ) ۔
    درود شریف کی کثرت باعثِ خیرو برکت:
    ٭ حضرت ابو ہریرہ رضی ا للہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ا للہ نے ارشاد فرمایا:
      "جو بندہ مجھ پر ایک بار درود پڑھے اللہ جل شانہ اس پر 10بار درود بھیجتے ہیں۔" ( صحیح مسلم ) ۔
    ٭  حضور نے فرمایا:
    " میرے رب کا پیام آیا ہے جس میں یوں ارشاد فرمایا کہ تیری امت میں سے جو شخص ایک بار درود بھیجے گا میں اس پر10بار درود بھیجو نگا اور جو ایک بارسلام بھیجے گا میں اس پر 10بارسلام بھیجو ںگا ۔"
    ٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
    "جو بندہ مجھ پر ایک صلوٰۃ بھیجے، اللہ تعالیٰ اس پر10 صلوٰتیں بھیجتا ہے اورا س کی10 خطائیں معاف کردی جاتی ہے اور اس کے 10 درجے بلند کر دیئے جاتے ہیں۔" ( سنن نسائی ) ۔
    ٭  حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس نے ارشاد فرمایا:
    " بلا شک قیامت میں ہر موقع پر مجھ سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو مجھ پر کثرت سے درود پڑھنے والا ہوگا۔" (  ترمذی ) ۔
     ٭ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول اللہ آبادی سے نکل کر کھجوروں کے ایک باغ میں پہنچے اور سجدے میں گر گئے اور بہت دیر اسی طرح سجدے میں پڑے رہے یہاں تک کہ مجھے خطرہ ہوا کہ آپ وفات تو نہیں پاگئے ۔ میں آپ کے پا س گیا اور غور سے دیکھنے لگا۔ آپ نے سر مبارک سجدے سے اُٹھایا اور مجھ سے فرمایا :کیا بات ہے اور تمھیں کیا فکر ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کے دیر تک سجدے سے سر نہ اُٹھانے کی وجہ سے مجھے ایساشبہ ہوا تھا اس لئے میں آپ کو دیکھ رہا تھا ۔ اس پرآپ نے فرمایا :
    " جبرائیل (علیہ السلام) نے آکر کہا تھا کہ میں بشارت سناتا ہوں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو بندہ تم پر صلوٰۃ بھیجے میں اس پر صلوٰۃ بھیجوںگا اور جو تم پر سلام بھیجے میں اس پر سلام بھیجوں گا ۔"
     حدیث بالا کی مسند احمد کی ایک روایت میں یہ لفظ ہے :
     فسجدت للہ شکراً۔
    "یعنی میں اس بشارت کے شکر میں سجدہ کیا تھا۔" ( مسند احمد ) ۔
    ٭ جامع ترمذی کی ایک روایت میں حضرت اُبی بن کعب رضی ا للہ عنہ نے حضور اکرم سے عرض کیا کہ اگر میں اپنے سارے (دعاؤں کے ) وقت کو درود شریف میں صرف کر دوں تو کیساہوگا ؟ حضور نے ارشاد فرمایا :
     اذا تکفٰی ھمک ویکفرُ لک ذنبک۔
    "ایسی صورت میں تو تیرے سارے کاموں کی کفایت کر دی جائے گی اور تیرے گنا ہ بھی معاف کر دیئے جائیں گے ۔"
     علماء نے اس کا سبب یہ لکھا ہے کہ جب بندہ اپنی طلب اور رغبت کو اللہ تعالیٰ کی طلب اور پسندیدہ چیز ( درود شریف ) میں کر لیتا ہے اور اپنے مطالب پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے اس بندہ کی سب مہمات کی کفایت کرتا ہے۔ من کان للہ کان اللہ لہ۔
    فائدہ:
     جیسا عمل ویسی جزا کے قاعدے کے موافق کثرت سے درود سلام پڑھنے والے پر اور اس کی آل واولاد پر بے شمار رحمتیں اور سلامتیاں نازل ہوتی ہیں لہذا یقینا ً اس کے دارین کے مقاصد پورے ہوتے ہیں اور سعادتیں حاصل ہوتی ہیں ۔
    مشائخ فرماتے ہیں کہ ساری عبادتوں میں قبول اور عدم قبول کا احتمال ہے لیکن حضور اقدس پر درود قبول ہی ہوتا ہے لہذا ہم گناہ گاروں کی یہ عبادت باوجود ناقص ادائیگی کے انشاء اللہ قبول ہے اور سب سے لذیذ اور شیریں تر خاصیت درود شریف کی یہ ہے کہ اس کی بدولت عشاق کو حضور پُر نور کی خواب میں زیارت کی دولت نصیب ہوتی ہے ۔
    درود شریف دعا کی قبولیت کا وسیلہ:
    ٭  حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرمایا:
    " دعا آسمان اور زمین کے درمیان ہی رکی رہتی ہے اوپر نہیں جاتی جب تک نبی اکرم پر درود نہ بھیجے۔" ( جامع ترمذی ) ۔
     حضرت عمر ؓ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ دعا کے بعد بھی رسول پر صلوٰۃ بھیجنا چاہئے، وہ دعا کی قبولیت کا خاص وسیلہ ہے ۔
     ٭ حصن حصین میں شیخ ابو سلمان درانیؒ سے نقل کیا گیا ہے ۔ فرمایا :
    "درود شریف ( جو رسول اللہ کے حق میں اعلیٰ واشرف دعا ہے) وہ تو اللہ تعالیٰ ضرور ہی قبول فرماتا ہے ، پھر جب بندہ اپنی دعا سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ سے حضور کے حق میں دعا کرے توپوری امید رکھنی چاہئے کہ جس دعا کے اول وآخر رسول اللہ پر صلوٰۃ بھیجی جائے گی وہ انشاء اللہ ضرور قبول ہوگی ۔ "
    ٭ آداب دعا میں ہے کہ دعا کرنے والے کوچاہئے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرے، پھررسول اللہ پر درود بھیجے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی حاجت عرض کرے ۔
    درود شریف نہ پڑھنے پر وعیدیں ۔
    جس طرح درود شریف پڑھنے کا اہل ِ ایمان کو جس اہتمام کے ساتھ حکم دیا گیا ہے اور اس کے فضائل بیان ہوئے ہیں اس طرح درود شریف نہ پڑھنے پر وعیدیں بھی سخت ہیں ۔
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا :
    ’’ رغم انفٌ‘‘۔
    یعنی" ذلیل و خوارہو وہ شخص جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود شریف نہ پڑھے ۔"
    یہ ارشادِ مبارک اُس طویل حدیث کا حصہ ہے جس میں یہ بھی فرمایا گیا :
     ذلیل وخوا ر ہو وہ شخص جس کیلئے رمضان کا مہینہ آئے اور اس کے گزرنے سے پہلے اس کی مغفرت کا فیصلہ نہ ہو جائے اور ذلیل وخوار ہو وہ آدمی  جس کے ماں باپ یا دونوں میں سے کوئی ایک اس کے سامنے بڑھاپے کو پہنچے اور وہ ان کی خدمت کر کے جنت کا استحقاق نہ کرے ۔

(جاری ہے)
مزید پڑھیں:- - - -غفلت کے علامات، اسباب اور علاج

شیئر: