Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رحمتِ رحمۃًللعالمینﷺ

ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔مکہ مکرمہ

گزشتہ سے پیوستہ

    حضرت رحمت عالمین، خاتم النبیین کے حسین وجمیل خلق (ظاہری خلقت) کو بیان کرنے والے حضرات صحابہ کرام، تابعین، محدثینِ عظام اور حضرات اصحابِ سیر نے بڑی عقیدت، محبت، اہتمام اور ذوق وشوق سے رحمت عالمین کے طبعی عاداتِ مبارکہ کو بھی اپنی مؤلفات میں ثبت فرما دیا۔سبھی جانتے ہیں کہ یہ فطری خصائل وشمائل ہیں، یہ شرعی تکالیف کے دائرہ میں اگرچہ نہیں آتیں مگر ان کا بیان یقیناحضرت رحمتِ عالمین سے ہر محبِّ صادق امتی کی آپ کی ذاتِ اقدس سے گہری عقیدت اور وابستگی کی علامت بنتا ہے۔ ان کا یہ ذکر یقیناہر امتی کی آپ کی ذاتِ اقدس سے فرطِ محبّت کی نہ صرف دلیل بنتی ہے بلکہ یہ آپ کی محبّت میں زیادتی کا ذریعہ اور مؤثر ترین عنصر بھی شمار ہوتا ہے۔یقیناحضراتِ صحابہ اور جامعینِ سنت وسیرت نے اسی عظیم ہدف کے پیشِ نظر حضرت رحمتِ عالمین کے امورِ عادیہ اور فطری عاداتِ مبارکہ کا اپنی مؤلفات میں ذکر فرمایا ہے۔ہم بھی اسی مقصدِ عالی کے پیشِ نظر اپنے اس مقالے میں قارئین کے سامنے آپ کی عادات میں سے ان امور کو ترتیب دے رہے ہیں جو حضراتِ صحابہ کرامؓ سے شمائل کی کتب میں منقول وموجود ہیں اور بعض متواترات کی حدیثی کتب میں صحابہ کرامؓ  اور ان کے بعد تابعین اور تبعِ تابعین نے ان امور کا اہتمام اس حد تک کیا کہ اگر انہوں نے اپنے محبوب کی کیفیت میں کسی مقام پر آپ کو کسی درخت یا جھاڑی کی وجہ سے سر جھکا کر گزرتا دیکھا تو وہ وہاں سے اسی ہیئت سے گزرے جس ہیئت میں رحمتِ عالمین اور ان کے محبوب ؓ گزرے۔اگر آپ نے ان سے کوئی روایت کسی مخصوص ہیئت میں بیان کی تو انہوں نے وہ ہیئت اختیار کرکے اس روایت کو تابعین کے سامنے نقل فرمایا۔ اگر آپ نے کسی ٹہنی کو پکڑکر کوئی امر ذکر فرمایا تو اسی کیفیت سے حضراتِ صحابہ کرامؓ نے اپنے شاگردوں کو اور تابعین حضرات نے آگے اپنے شاگردوں کو اور ان کے بعد والوں نے اپنے بعد والوں کو اسی ہیئت وکیفیت کو اختیار کرکے اس علمی بات کو آگے نقل فرمایا جو کہ یہ ان حضرات کی آپ سے کمالِ محبّت کی علامت ہے اور یہ چیز قلبی تعلق کی قوت کا باعث بھی بنتی ہے اور یوں محبوب اور اس کیاحباء کے مابین تعلق کا موقع بھی میسّر رہتا ہے۔
    ہم اپنے اس مقالہ "رحمتِ رحمۃ للعالمین"  میں بعض مبارک عاداتِ طبیعہ کا ذکر کرتے ہیں۔
    ہم آپ کے طبیعی امور یا فطری عاداتِ مبارکہ اور آپ کی طرف منسوب بعض اشیاء کا ذکر مستند شرعی مراجع اور احادیث اور شمائل کی عظیم الشان مؤلفات سے کرتے ہیں۔
    ہمارے ان سلف نے آپ کی ان طبعی عاداتِ مبارکہ کو نہایت اہتمام اور حسنِ ترتیب سے بیان فرمایا اور غرض ان کی یہی تھی کہ محبوب کی شریعت ہو، محبوب کا خْلق ہو یا محبوب کا خَلق ہو یا محبوب کی طبعی عادات ہوں یا محبوب کی طرف منسوب اشیاء ہوں، اِن سبھی کے ذکر سے ہمارا آپ سے تعلق بڑھے گا، آپ کی محبت جو ایمان ہے، اس میں اضافہ ہوگا، بلکہ آپ کو ہم اپنے ماحول، اپنے خاندان، اپنے بڑوں، اپنے چھوٹوں، اپنے احباب، اپنی آل واولاد کے سامنے جب اور جہاں ذکر کریں گے ان کا بھی حضرت رحمتِ عالمین سے تعلق مضبوط ہوگا۔ یہ ہمارا عظیم مقصد ہے جس کے پیشِ نظر ہم اپنے سلفِ صالحین کی کتب سے اولاً تو رحمتِ رحمۃ للعالمین کی بعض عاداتِ مبارکہ کو ذکر کریں گے، پھر آپ کی طرف بعض منسوب اشیاء کا بھی ذکر کریں گے جنہیں حضرت رحمتِ عالمین کے خصائل وشمائل کے مؤلفین نے کیا ہے۔
    آپ کے عاداتِ مبارکہ  :
    وہ امور جو طبیعت کی وجہ سے آپ کے اختیار کردہ امور تھے جیسے کہ آپ سبزیوں میں سے کدّو پسند فرماتے تھے۔ احادیث میں آتا ہے کہ آپ اس کے ٹکڑے شوربے میں سے تلاش کرتے تھے۔ کدّو کا کھانا ایک طبعی امر ہے اور کدّو کا آپ کا پسندیدہ ہونا یہ ایک طبعی امر ہے، مگر کوئی اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے تکلفاًختیار کرے تو یہ اس کی فرطِ محبت ہے۔
    حضرت عمرؓ سے مشہور ہے کہ وہ کدّو کو مخاطب کرکے کہتے "اے شجر! میں تجھے اپنے نبی کی وجہ سے پسند کرتا ہوں"، یعنی خلافِ طبیعت کسی چیز کو تکلفاً آنحضرت کی طبیعی پسندیدگی کی وجہ سے پسند کرنا یہ رحمتِ عالمین سے فطری محبت ہے۔
    ایسے ہی مشروبات میں سے ٹھنڈا اور میٹھا آپ کو پسند تھا۔ اگر کسی شخص کو ایسا مشروب طبعاً مرغوب فیہ نہیں تو کوئی قباحت نہیں، یہ قضیہ طبیعت کا ہے، شریعت کا نہیں، مگر تکلفاً اسے پسند کرنا یقینایہ داعیہ رحمتِ عالمین سے محبت میں سے شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح رحمتِ عالمینکی چال اور رفتارِ مبارک میں آتا ہے کہ آپ اگلی جانب مائل ہو کر چلتے تھے جیسے کہ بلندی سے اترنے والے ہوں، پھر چلنے میں تیز رفتار تھے کہ سبھی سے آگے نکل جاتے ۔ اب ہر شخص کی رفتار اس طریقہ کی نہیں ہوتی، مگر تکلفاً ایسی چال اختیار کرنا اور مشابہت کا داعیہ پیدا ہونا یقیناایک قابل قدر عمل کہلائے گا۔
    اسی طرح آپ کی بیٹھنے کی ہیئت میں آپ کی عاداتِ مبارکہ کا وصف حضراتِ محدثین نے یوں نقل فرمایا ہے کہ سیدہ خیلہ بنتِ مخرمہ رضی اللہ عنہا فرماتی  ہیں "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں گوٹ مار کر بیٹھے ہوئے دیکھا"۔نیز فرماتی ہیں "جب میں نے آپ کو اس خشوع ولی ہیئت میں بیٹھنے کے انداز میں دیکھا تو ڈر سے کانپنے لگی"۔
    یہ ایک مخصوص انداز ہے کہ سرینوں پر بیٹھ کر ران پیٹ سے ملا دیئے جائیں اور اپنے ہاتھوں ٍسے اپنی پنڈلیوں کو باندھ لیا جائے، اس طرح کے بیٹھنے کو اردو میں "اکڑوں بیٹھنا" یا "گوٹ مار کر بیٹھنا" کہتے ہیں، جو انتہائی تواضع اور عاجزی کا بیٹھنا ہے اور یہ بیٹھنے میں آپ کا خشوع ہے۔یہ ایسا بیٹھنا ہے کہ جس میں فقر ومسکنت اور عبدیت کا اظہار ہے، جیسا کہ آپ کا ارشاد ہے "میں عام آدمی کی طرح بیٹھتا ہوں اور عام آدمی کی طرح کھاتا پیتا ہوں"۔
     مراد یہ ہے کہ اہلِ کبر کی طرح میرا مزاج نہیں ، لہذا اگر کوئی شخص قصداً اس ہیئت سے بیٹھنے کو اختیار کرتا ہے تو اسے مذکورہ تمام فوائد حاصل ہوں گے۔
    نیز حضرت رحمتِ عالمین کے بیٹھنے کی اس ہیئت کے بیان کرنے والی صحابیہ حضرت خیلہ رضی اللہ عنہا کو آپ کی یہ تواضع والی ہیئت دیکھ کر کپکپی شروع ہو گئی تو حاضرینِ مجلس میں سے کسی نے کہا "یا رسول اللہ! یہ مسکینہ تو خوف زدہ ہو کرکانپنے لگی ہے"۔
     خود وہ ذکر کرتی ہیں کہ میں آپ کی پشت کی طرف تھی تو رحمتِ عالمین نے ان کی طرف رْخ موڑ کر انہیں تسلّی دینے کی خاطر فرمایا "اے مسکینہ! سکون اختیار کر"۔ وہ کہتی ہیں کہ آپ کا مجھے یہ فرمانا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرا خوف، میری وحشت، رعب اور لرزہ جو مجھ پر طاری تھا کافور کر دیا۔
    حضرت عقبہ بن عمروؓسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے گفتگو فرمائی تو وہ کانپے لگا، جس پر رحمتِ عالمین نے فرمایا "اے شخص !نرمی اور سکون اختیار کر لے ۔میں کوئی بادشاہ نہیں، میں تو قریش کی ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو خشک کیا ہوا گوشت کھاتی تھی۔یہ ارشادِ گرامی اس لئے فرمایا کہ میں عجز وانکساری کا پیکر ہوں ، کبر ونخوت والا نہیں، گو آپ ہر حال میں متواضع اور دیگر کے لئے رحمت تھے (صلی اللہ علیہ وسلم)۔
    آپ کے بیٹھنے کی ہیئتِ مبارکہ کے بعد لیٹنے کی ہیئت کو بھی حضرات صحابہ کرامؓ نے نقل فرمایا ہے۔
    حضرت عباد بن تمیمؓ  اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت کو مسجد میں دیکھا کہ آپ چت لیٹے ہوئے تھے اور اپنے ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر رکھا ہوا تھا۔ اسے بخاری ومسلم نے نقل کیا ہے۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ کسی چیز کا تکیہ  یا سہارا لے کر بیٹھنا بھی محدثین حضرات نے آپ کی اسی عادتِ مبارکہ کو اپنی مرویات کی زینت بنایا ہے، یقینایہ ان حضرات کی رحمتِ عالمینسے کمالِ محبت کی علامت ہے کہ محبوب کی ہر ہر ادا کو نقل کرتے ہوئے وہ لذت محسوس کرتے ہیں۔یقینایہ کیفیت ہر امتی اور محبِّ صادق کی ہونی چاہئے۔
    امام ترمذی رحمہ اللہ نے شمائلِ ترمذی میں رحمتِ عالمین کے تکیہ سے سہارا لگاکر بیٹھنے کی کیفیت کو حضرت جابر بن سمرہؓ کی حدیث سے یوں بیان فرمایا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بائیں جانب پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ یہ ایک اتفاقی امر ہے، کوئی تخصیص نہیں کہ بائیں جانب ہو یا دائیں جانب، اس لئے علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے "زاد المعاد" میں رحمتِ عالمین کے تکیہ کی ٹیک لگا کر بیٹھنے کے بارے میں یوں نقل فرمایا ہے کہ آپ تکیہ پر ٹیک  لگاتے اور کبھی بائیں جانب اور کبھی دائیں جانب تکیہ پر ٹیک لگا کر بیٹھتے اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپ نے باہر نکلنے پر کمزوری کی وجہ سے اپنے کسی ساتھی پر ٹیک لگائی۔
    آپ کی ان ہیئات وکیفیات کا بیان اگر آپ کے رفقاء کی محبت کی علامت ہے اور ہم بھی اسی قصد سے قارئین کے سامنے پیش کر رہے ہیں تو وہ فوائد ہمیں بھی حاصل ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ، پھر بیٹھتے ہوئے ٹیک لگانا درست ہے، یہ کبر ونخوت میں نہیں آتا، اسی طرح ٹیک دائیں جانب ہو یا بائیں جانب سبھی درست ہے، یہ تواضع اور عاجزی کے برخلاف نہیں۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ گھر میں تکیہ وغیرہ رکھنا ایک جائز اور درست امر ہے۔یہ فضول خرچی اور اسراف میں شمار نہ ہوگا۔
    پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ تھی کہ اگر بیٹھ کر، ٹیک لگا کر کوئی وعظ ونصیحت فرماتے تو کسی اہم موضوع کی اہمیت کو سامعین پر بیان کرنے کی خاطر، ٹیک کو ترک کر دیتے۔کیسی پیاری پیاری سبق آموز عاداتِ مبارکہ ہیں جن میں عقیدت وروحانیت بھی ہے، علم بھی ہے اور عبرت ونصیحت بھی ہے۔
    اسی طرح آپ کی عاداتِ مبارکہ میں آنکھوں میں سْرمہ ڈالنا اور سرِ مبارک پر تیل لگانا بھی آتا ہے۔ غور کریں کہ آپ کے ساتھی اور ہمارے سرداروں کے سرخیل حضرات صحابہ کرام ؓنے کس عقیدت ومحبت اور کمالِ عدالت  سے انہیں سیرتِ طیبہ کی سلک میں پرویا ہے۔صحابہ کرام نے آپ کے بنفسِ  نفیس اپنی مبارک آنکھوں میں سرمہ ڈالنے کا ذکر کیا، نیز اس کے آنکھ میں ڈالنے کا طریقہ اور اس کی نوعیت کے فوائد کا بھی ذکر فرمایا۔
    حضرت عبد اللہ بن عباسؓکی روایت ہے کہ رحمتِ عالمین نے فرمایا"تم اثمد سْرمہ لگایا کرو،کیونکہ وہ بینائی کو تیز کرتا ہے اور پلکوں کے بال اگاتا ہے"۔    حضرت ابن عباسؓ کا خیال ہے کہ آپ کے پاس ایک سْرمہ دانی تھی جس سے آپ  ہر رات 3سلائی ایک آنکھ میں اور 3 سلائی دوسری آنکھ میں ڈالتے تھے۔
    یاد رہے کہ  "اثمد" ایک پتھر ہے جس سے سْرمہ تیار کیا جاتا ہے۔سیاہ سْرخی مائل رنگ کا یہ سْرمہ آنکھوں کیلئے مفید ترین چیز ہے۔
سْرمہ کے بارے میں حضرت جابرؓ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا"سوتے وقت تم پر اثمد سرمہ لازم ہے کہ وہ نظر کو روشن کرتا ہے اور (پلکوں کے) بال اگاتا ہے"۔
    حضرت جابرؓ ہی سے ابوداؤد کی روایت میں سْرمہ کے ساتھ یہ زیادتی ہے کہ تم سفید کپڑے پہنا کرو، یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں سے ہیں، اور انہیں میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔نیز حضرت عبد اللہ بن مبارکؓ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"تمہارے تمام سرموں میں بہترین سمرہ "اثمد" ہے۔ یہ نظر کوروشن کرتا ہے اور(پلکوں کے) بالوں کو اگاتا ہے"۔
     غور فرمائیں کہ کس خوبصورت اور جامع انداز سے صحابہ کرام ؓنے رحمتِ عالمین کی اس مبارک عادت کو مفصل طور پر نقل فرمایا ہے جس میں محسن کے لئے بہت سے منافع اور فوائد ہیں۔
    حضرت رحمتِ عالمین  کے عمومی لباس کے ذکر میں حضرات صحابہ کرامؓ نے نیا لباس پہننے کی دعا، چادر اوڑھنے کا بیان، آپ کی قمیص کی ہیئت، مختلف رنگوں کے لباس میں احادیث نقل فرمائی ہیں، کہ آپ کے لباس کا ذکر محبّین صادقین کے ساتھ آپ کی محبت کی علامت اور پھر ہیئت کو اختیار کرنیکی سعی پختہ تعلق کی علامت، پھر اس میں اغیار کی نقل کے بجائے اپنے محبوب اعظم کی نقل کرنا سچی محبت کی دلیل ہے، گرچہ شرعاً لباس کا ساتر ہونا، پردہ پوش ہونا اور تہذیب وثقافت میں اغیار کی مشابہت والا نہ ہونا کافی ہے۔باری تعالی کا ارشاد ہے" اے بنی آدم! ہم نے تمہارے لئے لباس اتارا جو کہ تمہاری سترپوشی اور زینت کا ذریعہ ہے"۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے مرد لباس کے ادب کا لحاظ نہیں کرتے اور عورتیں ایسا لباس پہن کر اجنبی لوگوں کے سامنے آتی ہیں جو بجائے پردہ شرعی کے ان کی زینت اور اعضائے جسم کی نمائش کا مظہر ہو۔ یہ خاک لباس ہے، اس لئے ہمارے برّ صغیر کے مشہور محدث حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لباس انسان کے لئے باعثِ زینت ہے، مگر عریانی عیب ہے، سترپوشی جمال ہے، ستر کی نمائش فطرتِ انسانی کے خلاف اور تمام مثقف انسانی معاشروں میں معیوب شمار ہوتا ہے۔
    لباس کے بارے میں یاد رہنا چاہئے کہ جائز لباس اور حرام لباس میں مردوں کیلئے ریشمی لباس حرام ہے اور عورتوں کے لئے جائز، پھر لباس میں یہ بھی مستحب ہے کہ جمعہ و عیدین اور اجتماعات میں لباس اجلا اور صاف ستھرا ہو، یہ اللہ کی نعمت کو عملاً بیان کرنے کے زمرے میں بھی آتا ہے۔ایسے حالات میں میلا کچیلا قسم کا لباس پہن کر جانا، یہ اس باب میں کراہتِ شرعیہ میں سے ہے۔
    اب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس میں آپ کی عاداتِ مبارکہ کا ذکر کرتے ہیں کہ یہ بھی حضرات صحابہ کرامؓ کے بیان کا عنوان رہا ہے اور وجہ وہی ہے جسے ہم ذکر کر چکے ہیں۔
    ام المؤمین حضرت اْمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کپڑوں میں سے زیادہ قمیص پسند تھی۔
    ملا علی قاری رحمہ اللہ مشہور شارحِ سنت ہیں، فرماتے ہیں کہ قمیص زیادہ پسندیدگی کی وجہ یہ تھی کہ وہ تہبند یا چادر سے زیادہ ساتر ہونا اور جسم کیلئے باعثِ اکرام ہونا ہے۔نیز اس باب میں حضرات صحابہ کرامؓ نے آپ کی نیا کپڑا پہننے کی دعا کو بھی نقل فرمایا ہے۔
    حضرت ابو سعید خذری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رحمتِ عالمین  جب بھی کوئی نیا کپڑا زیبِ تن فرماتے تو اسے اس کے نام موسوم کرتے، جیسے عمامہ، قمیص یا چادر، پھر یہ دعا فرماتے" اے اللہ! ہر قسم کی تعریف تیرے لئے ہے، میں تجھ سے اِس کی خیر اور اُس چیز کی خیر جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے مانگتا ہوں، اور اس کے شر اور جس کی لئے یہ بنایا گیا ہے اس چیز کے شر سے پناہ مانگتا ہوں"۔
    ہر نعمت  وہ خوراک ہو یا پوشاک اللہ تعالی کا عطیہ ہوتی ہے، جس پر اللہ  تعالی کی حمد وثنا بندے کا واجب ہوتا ہے ، تو اظہارِ حمد اور تحدیثِ نعمت کے طور پر کپڑے کا نام لے کر منعمِ حقیقی کا شکریہ ادا کرنا یہ تعلیمِ نبوی ہے، ہم اپنی عادات میں بھی اپنے منعم کو یاد رکھیں، یہی ہر حال میں اس کا ذکر ہے، ایک دوسری دعا میں جو دیگر روایت میں ہے اس منعم کی قوت وقدرت اور اپنے ضعف کے اعتراف کا اظہار ہے۔
    حضرت معاذ بن انسؓسے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس نے نیا کپڑا پہنا، پھر کہا "تمام تعریفیں اللہ کیلئے جس نے مجھے یہ نیا کپڑا پہنایا اور مجھے میری قوت وطاقت کے بغیر مجھے یہ عطا فرمایا"، تو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ گناہ معاف فرما دیتے ہیں ۔غور کریں کہ ہر انسان نے لباس پہننا ہوتا ہے اور اس میں ہر انسان کی اپنی اپنی پسند ہوتی ہے، مگر پہنتے ہوئے اگر رحمتِ عالمینوالی دعا کے ساتھ پہنا تو یقینااسے جمالِ ظاہری کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہاں قرب بھی نصیب ہوگا۔

مزید پڑھیں:- - - - - عیسائیت سے اسلام تک کا سفر

شیئر: