محمد فایع ۔ الوطن
میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ ادارہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے موضوع پر لکھنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر کوفت ہوئی کہ جس دن مجلس شوریٰ میں فیلڈ میں ادارہ امر بالمعروف کے کردار کی بحالی سے متعلق سفارش پر بحث ہونے والی تھی ،اس دن 5مضامین مقامی اخبارات میں شائع ہوئے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سارے مضامین ادارہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی خامیوں ، کمزوریوں اور غلطیوں کی نشاندہی سے بھرے ہوئے تھے۔ ہر ایک نے خواہش ظاہر کی تھی کہ ادارہ امر بالمعروف کو اپنا سابقہ کردار ادا کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔
حیرت ناک امر یہ ہے کہ کالم نگاروں نے ایک بنیادی حقیقت کو سراسر نظر انداز کردیا۔ وہ یہ کہ حقوق و فرائض کے پانچویں باب کی دفعہ 23میں یہ بات موجود ہے کہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ بھلائی کی تلقین کرے او ربرائی سے روکے۔ علاوہ ازیں 1412ھ کے دوران جاری ہونے والے نظام ِحکومت کے منشور میں بھی اس کی تاکید کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب قارئین نے پانچوں مضامین پڑھے تو انہیں قلمکاروں کے رویئے اوررجحان پر حیرت بھی ہوئی اور ناگواری بھی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان قلمکاروں نے ادارہ امر بالمعروف پر جارحانہ تنقید کرتے وقت اسکی ایک خوبی بھی بیان نہیں کی۔ ان کے اس انداز سے ایسا لگا کہ قلمکار ادارہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اہلکاروںکی خدمات کے حوالے سے یکسر اندھے ہوگئے۔
میں یہ سوا ل کرنا چاہتا ہوں کہ آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ انہیں صرف ادارہ امر بالمعرو ف و نہی عن المنکر کے اہلکاروں کی برائیاں ہی نظر آتی ہیں۔ اچھائیاں بالکل نظرنہیں آتیں۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کمزوریو ں اور خامیوں کے ساتھ خوبیوں کا بھی ذکر کیا جائے۔
میرا ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہمارے معاشرے کا مفاد اس میں ہے کہ یہاں برائیاں ہوں اور کوئی ان پر روک ٹوک نہ ہو۔ میرا سوال یہ بھی ہے کہ ادارہ امر بالمعروف کا اس قدر خوف لوگوں کے ذہنو ںمیں کیونکر بٹھایا جارہا ہے۔ کیا یہ لوگ یہ حقیقت بھول گئے کہ بھلائی کی تلقین اور برائی پر نکیر دین اسلام کا اہم شعار ہے۔ کیا یہ لوگ یہ بات فراموش کر بیٹھے ہیں کہ نظام حکومت کے تحت بھلائی کی تلقین اوربرائی پر نکیر حکومت کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ بانی مملکت شاہ عبدالعزیزرحمت اللہ علیہ کے عہد سے لیکر شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور انکے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے زمانے تک سعودی حکومت ادارہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی سرپرست بنی ہوئی ہے۔
میں اس بات کو نا ممکن نہیں سمجھتا کہ ادارہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اہلکاروں کی مہارتوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ جس طرح دیگر سرکاری اداروں کے اہلکاروں کی استعداد اور صلاحیت کو چمکایا جاتا ہے اُسی طرح اس ادارے کے اہلکاروں کی استعداد بھی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ انہیں اندھے بہرے کے طور پر معاشرے کے سامنے پیش کرنا انہیں وطن عزیز کے وژن سے کورا سمجھ لینا قرین انصاف نہیں۔
اگر یہ بات پوری دنیا میں مانی جاتی ہے کہ سعودی عرب واحد ریاست ہے جہاں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ادارہ کام کررہا ہے تو سعودی عرب کی اس انفرادیت سے ادارہ امر بالمعروف کے ناقدین کو کیا تکلیف ہے؟ انہیں اس سے کیا نقصان پہنچ رہا ہے؟وہ لوگ یہ بات ا چھی طرح سے جانتے ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک میں سماجی اخلاق کی محافظ پولیس وہی کام انجام دے رہی ہے جو ہمارے یہاں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ادارہ انجام دے رہا ہے۔ ہمارے یہاں یہ ادارہ 1319ھ میں اس وقت قائم ہوا تھا جب شاہ عبدالعزیز نے ریاض فتح کیا تھا۔ شیخ عبدالعزیز بن عبداللطیف آل الشیخ احتساب کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے۔ انہیں ادارہ امر بالمعروف کی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ ادارہ بڑھتا اور پھیلتا چلا گیا۔ شاہ عبدالعزیز نے 1344ھ میں مکہ مکرمہ کے علماءاو رعمائدین کے نام ایک خط تحریر کرکے ادارے کے اہلکاروں کو بازارو ںمیں برائیوں سے روکنے اور لوگوں کو نماز کی ترغیب دینے نیز امن و امان کی حفاظت کافریضہ تفویض کیا تھا۔
اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے بعض اہلکاروں سے غلطیاں ہوئی ہیں تو اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ ریاست کے تمام اداروں کے اہلکار غلطیاں کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں مگر نہ جانے کیوں ”الھیئہ“ کا فوبیا رکھنے والے کسی بھی قلمکار نے سرکاری اداروں کے اہلکاروںکی غلطیوں پر کبھی قلم نہیں اٹھایا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭