Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساہر،عوام کی سلامتی سے زیادہ پیسہ نچوڑنے والا نظام بن گیا

 دبئی پولیس کی روا داری والا فارمولا اپنا لیں تو خلاف ورزی کرنے والے نوجوان قوانین کے پابند بن جائیں گے 
 
سلمیٰ القشیری ۔ الوطن
 
ٹریفک خلاف ورزیاں ریکارڈ کرنے کیلئے 2010ء میں ساھر سسٹم متعارف کرایا گیا تھا۔ تب سے 2019ء تک 9برس کے دوران ساھر سسٹم کے خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے۔ اسکا کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ڈرائیوروں کے طور طریقے تبدیل نہیں ہوئے ۔ حادثات کی شرح اور متاثرین کی تعداد میں کوئی فرق نہیں آیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ 2010ء سے لیکر 2019ء تک ساھر سسٹم پر تنقید کی بوچھاڑ بھی جاری ہے۔ بعض کا مطالبہ ہے کہ خلاف ورزیوں پر لگائے جانے والے جرمانے ختم کردیئے جائیں یا ان میں کمی کردی جائے یا انکے ضابطوں میں ترمیم کردی جائے۔ تنقید اپنی جگہ مگر ساھر سسٹم اپنی جگہ کام کئے جارہاہے۔ نوجوان اس سسٹم سے ہلکان ہورہے ہیں ۔ اس سے انکے مستقبل کے منصوبے اور اسکیمیں تباہ ہورہی ہیں۔ سب سے زیادہ خلاف ورزیاں بھی نوجوان ہی کرتے ہیں ا ور جرمانے بھی وہی بھرتے ہیں۔
میں ساھر سسٹم کے خلاف نہیں۔ میں اسے ٹریفک کی سلامتی کیلئے مناسب سمجھتی ہوں بشرطیکہ اسے مناسب اور موزوں شکل میں نافذ کیا جائے۔ اس سے ڈرائیور حضرات کو شائستہ ڈرائیونگ کا عادی بنایا جاسکتا ہے لیکن میرے اپنے نقطہ نظر سے ابھی تک وہ کام نہیں لیا گیا جو لیا جانا چاہئے تھا۔ میں یہ بھی نہیں مانتی کہ ساھر کے اجراء کامقصد شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ میرے پاس اس کے شواہد ہیں جو یہ ہیں۔ 
1۔ بیشتر نوجوان ساھر کیمروں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ انہیں یہ کیمرے پکڑ نہیں پاتے۔ جو یہ حربے نہیں جانتے وہ دھرلئے جاتے ہیں اوروہی جرمانے بھی بھر رہے ہیں اور وہ  اپنی حرکتوں سے باز بھی نہیں آرہے۔ 
2۔ ٹریفک خلاف ورزیوں کے انبار نے نوجوانوں کے دکھ درد بڑھا دیئے ہیں۔ معاشرے کے حوالے سے انکے منفی جذبات میں شدت آرہی ہے۔ یہ ٹریفک نظام سے کڑھ رہے ہیں۔ اس کے باوجود خلاف ورزیوں سے باز نہیںآرہے۔بے روزگار نوجوان مایوسی کا شکار ہورہے ہیں۔ یہ خلاف ورزیوں کے جرمانے بھرنے کیلئے قرضوں پر قرضے لے رہے ہیں۔ ان مسائل کی تفصیل لمبی چوڑی ہے۔ یہ آج میری گفتگو کا موضوع نہیں۔
3۔ یہ زیادہ اہم ہے۔ جس اندازسے ٹریفک خلاف ورزیاں ریکارڈ کی جارہی ہیں وہ چلا چلا کر یہ بتا رہی ہیں کہ مقصد عوام کی سلامتی نہیں بلکہ ان سے ریال نچوڑناہے۔ مقصد انکی سرزنش کرنا یا انہیں ٹریفک ضوابط کا پابند بنانا نہیں بلکہ جرمانوں کی شکل میں پیسے بٹورنا ہے۔ 
اگر ساھر سسٹم پیشہ ورانہ انداز سے نافذ کیا جائے تو اس سے مختلف عمر کے ڈرائیور ٹریفک ضوابط کی پابندی سیکھیں گے۔اگر انہیں سابقہ خلاف ورزیوں پر مقررہ جرمانے ساقط کرنے کی آس دلائی جائے تو اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہونگے۔
گزشتہ ہفتے دبئی پولیس نے’’ 2019ء روا داری کا سال ‘‘کے طور پر منانے کیلئے نیا نظام جاری کیا۔ دبئی ٹریفک پولیس نے  ٹریفک ضوابط کی پابندی کرنے والے ڈرائیوروں پر موجود جرمانے ساقط کرنے کی باقاعدہ حکمت عملی جاری کی۔ 
ٹریفک پولیس نے اعلان کیا کہ جو شخص 3ماہ تک ٹریفک ضوابط کی پابندی کرے گا اور کسی خلاف ورزی کا مرتکب نہیں ہوگا تو اس پر 25 فیصد جرمانے معاف کردیئے جائیں گے۔
اگر 6ماہ تک ٹریفک ضوابط کی پابندی کی او رکوئی خلاف ورزی نہ کی تو ایسی صورت میں 50فیصد جرمانے ختم کردیئے جائیں گے۔
اگر 9ماہ تک کسی خلاف ورزی کے بغیر صاف ستھری ڈرائیونگ کی تو ایسی صورت میں اس پر 75فیصد جرمانے ختم کردیئے جائیں گے اور اگر سال بھر ٹریفک ضوابط کی پابندی کا سلسلہ جاری رہا اور کسی طرح کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی تو تمام ٹریفک جرمانوں سے اسے بے باک کردیا جائیگا۔
کاش کہ ہم دبئی ٹریفک پولیس کی روا داری والا یہ فارمولا اپنا لیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگرروا داری کا یہ طرزاپنایا گیا تو ہمارے ڈرائیور اور خلاف ورزی کرنے والے نوجوان جلد ہی ٹریفک قوانین کے پابند بن جائیں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ ٹریفک ضوابط کی پابندی کے عادی ہوجائیں گے۔ ایسا ہوگا تو ٹریفک قانون کی پابندی کے مثبت اثرات ملک و قوم کے سامنے آئیں گے۔ منفی اثرات ختم ہوجائیں گے اور صحیح معنوں میں ساھر سسٹم کا حقیقی ہدف حاصل ہوگا۔
 
 
 

شیئر: