Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کیخلاف پلان بی!!

***سجاد وریاہ***
نائن الیون کے بعد سے پاکستان مسلسل حالتِ جنگ میں ہے،امریکہ نے پلان اے کے مطابق افغانستان میں ڈیرے ڈالے اور اُسامہ بن لادن اور طالبان کے خلاف جنگ کے بہانے اس خطے میں اپنا اثرو رسوُخ بڑھایا ۔امریکہ نے بے وسیلہ اور بے تیغ طالبان پر کلسٹر بم برسائے،اتنا بارود پھینکا کہ پہاڑوں کے رنگ تبدیل ہوگئے۔اس خطے کے درجہ حرارت اور آب و ہوا پر بھی اثر پڑا۔اُس وقت بھی میرا ’’گُمان‘‘یہ تھا کہ امریکہ کا منشور ’’کہیں پہ نگاہیں،کہیں پہ نشانہ‘‘ ہی لگتا ہے یعنی نام دہشتگردی کے خلاف جنگ رکھا جائے اور ٹارگٹ پاکستان کو بنا یا جائے۔پاکستان کے اندر اس جنگ کو دھکیل دیا جائے۔ایک وقت ایسا بھی گزرا کہ پاکستان کا کوئی شہر بھی دہشت گرد حملوں سے محفوظ نہیں تھا۔اس منصوبے میں ہند کو بھی شامل کر لیا ۔ہند نے دہشت گرد گروپوں کو فنڈنگ کرنے اور مانیٹر کرنے کیلئے افغانستان میں پاکستانی سرحد کے قریب شہروں میں کئی قونصل خانے کھول رکھے تھے۔امریکہ کے مشن میں افغان حکومت بھی شامل رہی ۔یہ کٹھ پُتلی افغان حکومت دراصل اپنی کوئی حیثیت نہیں رکھتی، اس کی ڈوریاں سی آئی اے کے ہاتھ میں ہیں۔ایک وقت تھا ،جب امریکہ ،پاکستان اور ہند کے درمیان ایک متوازن تعلق کا حامی تھا لیکن پچھلے چند سالوں سے چین ایک عالمی معاشی طاقت بن کر اُبھرا ہے۔ اس کا خطے کے ممالک میں بھی اثرو رسُوخ بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے امریکہ کا نظریہ تبدیل ہو گیا ،وہ صرف اس وقت چین کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔امریکہ نے ہند کو اس علاقے کا تھانیدار بنانے کی خاطر سب سے پہلے پاکستان کو کمزور کرنے کا پلان بنایا۔ پاکستان پر براہِ راست حملہ کرنے کا بہانہ ڈھونڈا’’ہمارے ساتھ یا پھر اُ ن کے ساتھ‘‘یعنی غیر جانب دار رہنے کا کوئی آپشن نہیں ہے۔پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے جنرل مشرف کی قیادت میں بہت دانشمندانہ فیصلہ کیا ، آئی ایس آئی نے بہت عمدگی سے کھیلا ،امریکہ کو اپنے پورے غیض و غضب کے ساتھ افغانستان میں مصروف کر دیا ،آج اتنے برسوں بعد امریکہ کو کنگلا کر دیا ہے۔ وہ اب مذاکرات کے بہانے ڈھو نڈ رہا ہے۔
پاکستان نے افغانستان میں اپنے حامیوں کو بھی مضبوط رکھا اور امریکہ کی چال کو بھی ناکام بنا دیا۔پاک فوج نے اپنے علاقے خود کلیئر کر لئے۔اب بارڈر کے اُس پار سے حملے ہو رہے تھے ،اس کو دیکھتے ہوئے جنرل قمر باجوہ نے پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا ،جو تقریباََ 22 سو کلومیٹر طویل ہے،جس میں سے تقریباََ 700 کلو میٹر پر لگائی جا چکی ہے۔بارڈر انتہائی دُشوار گزار ،اونچے پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے جہاں تعمیراتی سامان لے کر جانا ،گاڑیوں سے ممکن نہیں ،باربردار جانوروں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس وقت پاکستان اخلاقی طور پر بہتر پوزیشن میں عالمی محاذ پر کھڑا ہے ۔دہشت گردی کا جو بہانہ مسلسل کئی سالوں سے مخالف ممالک کو کُچلنے کے لئے استعمال ہو رہا تھا ،پاکستان کی بہادر افواج اور ذہین ایجنسیوں نے اس منصوبے کو ناکام بنا دیا۔ان کو افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا ۔انہوں نے طالبان سے مذاکرات کرنے شروع کر دیے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ نے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ؟ کیا ان کے مفادات اور اہداف حاصل ہو چکے ہیں؟کیا امریکہ واقعی امن قائم کر چکا ہے؟ میرا خیال ہے کہ ان تینوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ امریکہ نے بس نہیں کی ،انہوں نے حکمت عملی تیار کر لی ہے۔انہوں نے پاکستان اور چین کی پارٹنر شپ کو توڑنے کیلئے پلان بی ترتیب دیا ہے۔اس پلان کے مطابق پاکستان کے شمالی مغربی علاقوں میں بسنے والے پشتونوں کو گمرا ہ کیا جائے گا۔فتھ وار فیئر کا زمانہ ہے اور پاکستان اس کی زد میں ہے ،جس کے لیے جدید ٹیکنالوجی ،میڈیا ،سوشل میڈیا اور لسانی،قومی اور معاشی اختلاف کو استعمال کیا جا رہا ہے۔اللہ کا شکر کہ پاک افواج پوری طرح چوکس ہے اور دفاع کر رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے حکومت سنبھالنے کے ساتھ ہی پاکستان کے عالمی امیج کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔حکومت کو چاہئے کہ جنگ کے متاثرہ علاقوں میں معاشی حالات کو بہتر بنایا جائے،وہاں کے عوام کی مشکلات کو آسان بنا یا جائے۔جب عوام کو حکومت اور فوج پر اعتماد ہو گا تو ان ڈگڈگی بجانے والوں کو کوئی نہیں پوچھے گا۔مجھے پوری اُمید ہے پاکستان کے ادارے ،اس خطے میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔پاکستان نے خارجہ محاذ پر بہت عمدہ پرفارم کیا ہے۔جس میں چین ،سعودی عرب،یو اے ای،ترکی ،ملائیشیا اور ایران ہماری مدد کرنے کو تیار ہیں۔ علاقائی سطح پر چین اور ایران سے اچھے تعلقات قائم کیے ہیں جبکہ ہند کو کرتار پور کی گُگلی سے دفاعی انداز اختیا ر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
 

شیئر: