Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رزق حلال، اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر اور کوئی کمائی نہیں

 آج کے اس مادی دور نے حلال اور حرام کے فرق کو مٹا دیا جو رزق حلال کماتا ہے اسکا دل نور سے معمور ہوتا ہے، حکمت اور عقلمندی رزق حلال کو بڑھاتی ہے
عنبرین فیض احمد ۔ ینبع
کسب حلال کے معنی ہیں حلال روزی کمانا اس سے مراد یہ ہے کہ رزق کمانے کے ایسے طریقے استعمال کرنا ہے جسے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز قرار دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان اس کرہ ارض پر اپنی ضرورتیں لیکر پیدا ہوا ہے۔ مثلاً اسے کھانے کیلئے غذا، پینے کیلئے پانی، پہننے کیلئے لباس، گرمی، سردی، بارش اور طوفان یا دیگر موسمی کیفیات سے بچنے کیلئے گھر چاہئے یہ انسان کی بنیادی ضروریات ہیں۔ زندہ رہنے کا دارومدار بھی ان ہی پر ہے۔انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے شب و روز بڑی محنت و مشقت کرتا ہے۔ بیحد دوڑ دھوپ کے بعد اپنا روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے کیونکہ یہ انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں اور اس کے زندہ رہنے کا دارومدار ان ہی ضرورتوں کے پورا ہونے پر ہے۔ خالق کائنات نے تمام بنیادی ضروریات و سہو لتیں تو اس زمین میں پیدا کرکے رکھ چھوڑی ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ ہم نے تمہارے لئے اس زمین میں وسائل پیدا کردیئے ہیں اور انکے لئے بھی جن کو تم رزق نہیں پہنچاتے۔ ہر شخص خود محنت و مشقت کرکے ان وسائل کو حاصل کرکے اپنے لئے رزق تلاش کرے یا پھر ان سے اپنی ضروریات اور اپنی جائز خواہشات کی تکمیل کرے۔ اسی جدوجہد او رمحنت کو احکام الہیٰ اور سنت رسول کے مطابق انجام دے تو یہ سب عین عبادت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسب حلال کی اہمیت پر بیحد زور دیا ہے اور کہا تھا کہ حلال روزی، اللہ کی عبادات کے بعد فرض ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اپنے اہل و عیال کیلئے حلال رزق کا بندوبست کرو اور یہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ یعنی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر اور کوئی کمائی نہیں۔ ویسے بھی زرق حلال کی طلب تو ہر مسلمان میں ہونا چاہئے لیکن افسوس آج کے اس مادی دور نے انسان میں حلال اور حرام کے فرق کو مٹا دیا ہے جو حلال روزی کماتا ہے اسکا دل نور سے معمور ہوتا ہے حکمت اور عقلمندی رزق حلال کو بڑھاتی ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ
اے طاہر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
تجارت ، صنعت، زراعت، مویشی پالنا، محنت مزدوری وغیرہ کرنا یہ سارے جائز اور حلال طریقے ہیں۔ روزی روٹی کمانے کیلئے شرط ہے کہ اس میں اسلامی احکامات اپنائے جائیں ۔جب کوئی شخص اپنے لئے کسی پیشے کا انتخاب کرتا ہے تو اللہ رب العزت اس کے مال میں برکت عطا فرماتے ہیں اور اس کے گھر میں مال و دولت کے انبار لگا دیتا ہے اور انسان کو اللہ کی اس عنایت پر شکر بجا لانا چاہئے۔
ہمارا دین ہمیں جائز طریقوں سے روزی روٹی کمانے کا حکم دیتا ہے۔حرام مال کے نقصانات اور اسکے مہلک اثرات سے بھی خبردار کرتا ہے تاکہ انسان مال و دولت کی لالچ میں حلال و حرام کی تمیز ہی نہ کھو بیٹھے لیکن افسوس آج کل دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ لوگ دولت کی حرص میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ ان کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ دولت ناجائز طریقے سے حاصل ہورہی ہے۔کسب حلال شرافت کی علامت اور عزت اور وقار کی دلیل ہے۔ جب تک انسان حلال زرق کی تلاش میں سرگرم رہتا ہے تو اس کو نہ سستی چھوتی ہے اور نہ ہی وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا بے شک دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا معیوب بات ہے اسلئے کہا جاتا ہے کہ انسان کوحصول رزق کے لئے استقلال سے کام لینا چاہئے۔ جتنا رزق انسان کے مقدر میں اللہ نے رکھ دیا ہوتا ہے وہ اسے مل کر ہی رہتا ہے کوئی اس کے منہ سے نوالہ تک نہیں چھین لیتا ہے۔ خواہ کوئی اسکی راہ میں کتنی ہی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کیوں نہ کرے۔ اسکے حصے کا رزق کوئی نہیںچھین سکتا۔ یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ اللہ کی رضا شامل نہ ہو تو اکوئی پتا اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا۔
اب ان کی خواب گاہوں میں کوئی آواز مت کرنا
بہت تھک ہار کر فٹ پاتھ پر مزدور سوئے ہیں
انسان اپنی روزی کمانے کیلئے جو اور جیسی بھی محنت کرتا ہے خواہ وہ محنت جسمانی ہو یا دماغی اور اپنا پیسہ بہا کر اپنی روزی روٹی حاصل کرتا ہے۔ اس کوعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پیشے کی حقارت مٹانے کیلئے محنت اور مزدوری کی عزت افزائی کیلئے حضرت محمد مصطفی نے خود بھی اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ طلب معاش اور کسب حلال ایسا مشغلہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام اور عوام کو جمع فرمادیا۔ اس لئے کسب حلال سنت رسول سمجھ کر کرنا چاہئے۔ اس میں دنیا کی عزت بھی ہے۔ اور آخرت کی سرخروئی بھی ہے اسلئے ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف انبیائے کرام نے مختلف پیشے اپنائے مثلاً حضرت آدم ہل جوتتے، حضرت نوح بڑھئی کا کام کرتے، حضرت ادریس کپڑے سیتے، حضرت صالح تجارت کرتے، حضرت ابراہیم کھیتی باڑی کرتے۔ حضرت شعیب و موسی بکریوں کی نگہبانی فرمایا کرتے تھے اور پھر اماں حوا تو اپنے ہاتھوںسے کپڑے بن کر پہنا کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ محنت مزدوری کرنا ہاتھ سے کما کر کھانا کوئی کسب اختیار کرنا ،کسی ہنر، فن یا کسی بھی قسم کی کاریگری اور صنعت و حرفت کو ذریعہ معاش کیلئے بطور پیشہ اختیار کرنا کوئی معیوب چیز نہیں اسی لئے محنت کش اللہ کا دوست ہوتا ہے حضور اکرم نے اس نوجوان کے ہاتھ چوم لئے تھے جن کے ہاتھوں میں مزدوری کرنے سے چھالے پڑ گئے تھے۔ معاشرہ ملک و قوم جتنی ترقی کرتا ہے یہ مزدوروں اور محنت کشوں کی ہی مرہون منت ہوتا ہے۔ بلند و بالا عمارت کی تعمیر کو جب ہم دیکھتے ہیں گلی محلوں کی طرف دیکھیں یا پھر کارخانوں اور فیکٹریوں میں بننے والی مصنوعات پر نظر ڈالیں کھیتوں اور باغوں کو بھی دیکھ لیں یہاں تک کہ کھانے کی اشیاءکی فراوانی کو دیکھیں تو ان تمام میں مزدوروں کا خون پسینہ شامل ہوتا ہے۔ یہ مزدور ہی تو ہوتے ہیں جو دن رات مسلسل محنت کرکے وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مزدوروں او رمحنت کشوں کو وہ مقام اور اہمیت حاصل نہیں ہے جن کا آج کاترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ معاشرہ متقاضی ہے لیکن افسوس ہمارے کارخانوں میں مزدوروں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے جب تک ہم مزدوروں کو بنیادی سہولیات نہیں دینگے تب تک ہم ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں قدم نہیں رکھ سکتے۔ 
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے اس میں ایک موچی سڑک کے ایک کونے پر بیٹھا اپنی پوری توجہ سے ٹوٹے پھوٹے جوتے اور چپلوں کی مرمت کررہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بڑی محنت سے اپنی روزی کما رہا ہے ۔ بلاشبہ ہنر کسی چیز کا بھی ہو وہ اس شخص کے کام آتا ہے۔ اس پر انسان کو چاہئے کہ کچھ نہ کچھ مزید ہنر سیکھتا رہے۔ اسلئے کہا جاتا ہے کہ تعلیم اور ہنر انسان کا زیور ہوتا ہے جسے ہم سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ زندگی میں انسان کو ہر طرح کے وقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چاہے خوشی ہو یا غم پرسکون زندگی ہو یا پھر غربت و مفلسی کی کڑی دھوپ ہو جینا تو ہر حال میں پڑتا ہی ہے۔ خوشی غم میں غم خوشی میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ پیسہ مال بزنس سب ختم ہوسکتا ہے مگر ہنر ایک ایسی دولت ہے جو انسان کا زندگی بھر ساتھ دینا ہے جب سب کچھ ختم ہوجاتا ہے او رغربت کے کالے بادل چھاجائیں اور انسان مایوسیوں کی اندھیری کوٹھری میں بند ہوکر رہ جاتا ہے ایسی صورت میں انسان کے ہاتھ کا ہنر ہی اس کے کام آتا ہے اور وہ اپنے ہنر کو بروئے کار لاتے ہوئے غربت کے اندھیرے سے نکل سکتا ہے اس لئے انسان کو کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنا چاہئے اس سے ملک میں بھی خوشحالی آتی ہے۔
آج دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی ترقی کا راز بھی یہی ہے کہ انکی عوام ہنر مند ہے ۔ چین، کوریا ، تائیوان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ وہا ں لوگ اپنے گھروں کے اندر چھوٹی چھوٹی صنعتیں لگا کر بیٹھے ہیں۔ جو ان کے ہنر پر منحصر ہے اور وہ اپنے ہنر سے خاک کو سونے میں تبدیل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ بیکار کی چیزوں کو بھی کارآمد بنادیتے ہیں اور اپنے ملک کیلئے زرمبادلہ بھی کماتے ہیں اور اپنی زندگی کو بھی بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اسلئے موچی جو جوتے چپل کی مرمت کرتا ہے یا کوئی بھی فرد اپنے ہنر کے ذریعے اپنے گھر والوں کی کفالت کرتا ہے اور کارآمد اشیاءتیار کرکے بازار میں فروخت کرتا ہے اس سے نہ صرف وہ اپنے لئے پیسے کماتا ہے بلکہ ملک کیلئے بھی زرمبادلہ کماتا ہے اسلئے ہنر کبھی ضائع نہیں ہوتا وہ انسان کے برے وقت کا ساتھی ہوتا ہے۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ لوگوں کو اس جانب راغب کرے لوگوں کو کسی نہ کسی ہنر کے سیکھنے پر مجبور کرے آج دنیا میں جتنے بھی مشہور لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنا نام پیدا کیا ان میں ایک چیز قابل مشترک ہے کہ انہوں نے ا پنے وقت کا بہترین استعمال کیا ہے اور وقت کو اپنی بہتری کیلئے اپنے ملک و قوم کی بہتری کیلئے استعمال کیا اسلئے وقت کا بہترین استعمال کرنا چاہئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: