Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اغیار کے تہوار اور مسلمانوں کی روش

تم اپنے سے پہلے والوں کے طریقوں کی پیروی کروگے، یہاں تک کہ وہ اگر گوہ کے بل میں داخل ہوئے تو تم بھی اس میں داخل ہوگے
 
مولانانثار احمد حصیر القاسمی۔حیدرآباد دکن

ہر سال جب ماہ دسمبر کا اختتام اور جنوری کی آمد ہوتی ہے تو ساری دنیا کے اندر خواہ مسلم ملک ہوں یا غیر مسلم، بڑے اہتمام اوردھوم دھام سے نئے سال کی آمد پر جشن منایا جاتا اور تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، اس عیسوی سال کے آغاز پر پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں، آتش بازیاں ہوتی ہیں، رقص وسرور کی محفلیں سجتی ہیںاور ٹیلی ویژن ودوسرے ذرائع ابلاغ اور جدید وسائل پر طرح طرح کے شو پیش کئے جاتے ہیں۔ اس میں شرکت کی دعوتیں دی جاتیں ہیں، پروگرام کیلئے بڑے بڑے ہالوں اور کلبوں کو بُک کیا جاتا ہے، گھروں، بازاروں اور سڑکوں کو سجایا جاتا ہے اور طرح طرح سے اظہار مسرت کیا جاتا ہے۔ یہ جشن جس طرح عیسائی مناتے ہیں اسی طرح آج کے مسلمان بھی مناتے ہیں بلکہ بعض مسلم ملکوں کے جوش وجذبے اور اس میں حد سے زیادہ افراط کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان ہی کی عید ہو عیسائیوں کی نہیں، کہ وہ اس میں عیسائی یورپی ملکوں سے بھی آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان کی مشابہت اختیار کرنے میں ایک قدم پیچھے نہیں رہنا چاہتے بلکہ ان سے چند قدم آگے ہی بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
    بحیثیت مسلمان ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دین کو مکمل اور رسالت کو تام کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْنًا (المائدہ3)۔
    "آج میں نے مکمل کر دیا تمہارے لئے تمہارے دین کو اور پورا کر دیا تم پر اپنے انعام کو، اورپسند کر لیا تمہارے لئے اسلام کو (ہمیشہ کے)دین کے طور پر۔"
    اسی طرح ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خاتم الانبیاء والرسل محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کے آجانے کے بعد اب کوئی بھی دین اللہ کے نزدیک قابل قبول اور قابل عمل باقی نہیں رہا۔ اب دین برحق صرف اسلام ہے ،اس کے سوا سب باطل قرار پاگئے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    إِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الإِسْلاَمُ وَمَااخْتَلَفَ الَّذِیْنَ أُوْتُواْ الْکِتَابَ إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْعِلْمُ بَغْیْاً بَیْْنَہُمْ وَمَن یَکْفُرْ بِآیَاتِ اللّہِ فَإِنَّ اللّہِ سَرِیْعُ الْحِسَاب (آل عمران19) ۔
    "بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے، اور اہل کتاب نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بنا پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے اللہ تعالیٰ اس کا جلد حساب لینے والا ہے۔"
    وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْْرَ الإِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ(آل عمران85) ۔
    "اور جس نے اسلام کے سوا کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں یقینا خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔"
    ابن جریر طبریؒ نے اپنی تفسیر میں تحریر کیا ہے کہ اس آیت کا مطلب یہی ہے کہ جو کوئی بھی فرد بشر اسلام کے علاوہ کسی اور دین ومذہب کا طالب ہو کہ اس دین کو اختیار کر لے، تو اللہ تعالیٰ اس دین کو قبول کرنے والے نہیں ۔
     انہوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد ہر دین ومذہب والوں نے دعویٰ کیا کہ وہ مسلمان ہیں اور ان کا دین برحق ہے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حج کرنے کا حکم دیا کہ اگر تم اپنے دعویٔ اسلام میں سچے ہو تو حج کرو، جب وہ اس سے باز رہے اور اعراض کیا تو اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے قول اور ان کے دعویٔ اسلام کو مسترد کر دیا۔
    حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں تحریر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’ ان الدین عند اللہ الاسلام‘‘ کے ذریعہ ساری انسانیت کو آگاہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے اسلام کے سوا کسی اور دین ومذہب کو قبول نہیں کرے گا اور اسلام یہ ہے کہ ہر زمانہ میں جو انبیاء ورسل مبعوث کئے گئے اُن کی اتباع وپیروی کی جائے، ان کے زمانہ میں ، یہاں تک کہ رسالت ونبوت کے سلسلہ کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ختم کر دیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی اور آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کو آخری دین قرار دے دیا گیا۔ اب اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا، سارے راستے بند کر دیئے گئے، اب ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ ہے محمد رسول کی اتباع کا راستہ۔اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جو کوئی اللہ سے ملے گا ایسے دین کے ساتھ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت سے ہٹ کر ہوگا تو اللہ اسے قبول نہیں کریں گے بلکہ اسے مسترد کر دیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا ہے:  وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الإِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ  ( تفسیر ابن کثیر )۔
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    " قیامت کے دن اعمال پیش ہوں گے۔نماز آئیگی تو کہے گی: اے پروردگار! میں نماز ہوں، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تو خیر پر ہے، پھر صدقہ آئیگا ،وہ  کہے گا: اے پروردگار !میں صدقہ ہوں، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو خیر پر ہے، روزہ آئے گا، اور کہے گا :اے پروردگار! میں روزہ ہوں، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو خیر پرہے، پھر اعمال آئیں گے اسی طرح، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تو خیر پر ہے، پھر اسلام آئے گا اور کہے گا :اے پروردگار! آپ سلام ہیں، اور میں اسلام ہوں، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو خیر پرہے، تیری ہی بنیاد پر میں آج مواخذہ کروں گا، اور تیری ہی بنیاد پر عطا کروں گا…پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کہہ دیا ہے کہ جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین کا طالب ہوگا ،اُس سے اُس کے اُس دین کو قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارے میں ہوگا ۔"(مسند احمد)۔
     اس حدیث کے بارے میں ھیثمی کا کہنا ہے کہ اس کی سند میں عباد بن راشد ہیں جن کو ابو حاتم اور دوسروں نے ثقہ قرار دیا ہے، اور ایک جماعت نے ان کی تضعیف کی ہے، مسند کے باقی رجال صحیح کے رجال ہیں۔ ( دیکھیں:مجمع الزوائد) ۔
    حافظ ابن قیمؒ نے فرمایا ہے کہ اسلام ہی آسمان والوں ، زمین والوں اور تمام اہل توحید کا دین ومذہب ہے۔ اب اللہ تعالیٰ اس دین اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کو قبول نہیں فرمائیں گے۔ روئے زمین پر صرف 6 دین ہیں، ان میں سے ایک رحمن کا دین ہے، باقی 5 شیطان کا دین ہیں۔رحمن کا دین ’’دینِ اسلام‘‘ ہے اور شیطان کا دین یہودیت، نصرانیت، صابئیت اور مجوسیت (پارسی) اورسارے مشرکین کا دین ہے (مدارج السالکین) ۔
    اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول کھول کر بتا دیا ہے کہ ایمان واسلام کیا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ :
    "اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد() کی جان ہے، اِس امت کا کوئی بھی یہودی ہو یا نصرانی ، میری آمد کو جان لے پھر اس حال میں مرے کہ وہ میری لائی ہوئی شریعت پر ایمان رکھنے والا نہ ہو تو وہ جہنمیوں میں سے ہوگا۔"(صحیح مسلم) ۔
    اوریہی بات خود اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کہی ہے:
     إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ وَالْمُشْرِکِیْنَ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْہَا، أُوْلٰئِکَ ہُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃِ(البینۃ6) ۔
    "بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اہل کتاب میں سے اور (دوسرے کھلے)مشرک وہ سب جہنم کی آگ میں ہوں گے جس میں انہیں ہمیشہ رہنا ہوگا ،یہی لوگ ہیں بدترین مخلوق۔"
    اللہ کے نبی نے یہ پیشین گوئی بھی کر دی ہے کہ ان کی امت کی ایک بڑی جماعت اور بڑی تعداد قوم اہل کتاب کی پیروی کریگی ان کے تمام اقوال وافعال میں۔حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    " تم اپنے سے پہلے والوں کے طریقوں کی بالشت دربالشت اور ہاتھ در ہاتھ پیروی کروگے، یہاں تک کہ وہ اگر گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہوں تو تم بھی اس میں داخل ہوگے، اس پر صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! پہلے والوں سے آپ کی مراد کیا ہے؟ یہود ونصاریٰ ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: توپھر اور کون۔" (بخاری، مسلم ، حاکم)۔
    ابن عباد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے اخیر میں یہ بھی ہے کہ یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگر عورت سے شہوت پوری کی ہے راستوں پر تو تم بھی کروگے۔ ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے بدکاری کی ہے تو تم بھی کروگے۔
    حافظ بن تیمیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں اس طرح کے فتنوں کی اطلاع دی گئی اور اس کی مذمت کی گئی ہے (فیض القدیر) ۔
    امام نوویؒ فرماتے ہیں:
    " بالشت در بالشت ، ہاتھ در ہاتھ، یا بل میں داخل ہونے سے مراد یہی ظاہر لفظ نہیں بلکہ مقصود ان کے اعمال میں صد فیصد موافقت کرنا اور ہر ان معاصی کا ارتکاب کرنا اور ان کے نقش قدم پر چلنا ہے ۔جن معاصی کا انہوں نے ارتکاب کیا ہے، اس سے اس طرح کی پیشین گوئیوں کے برحق اور بڑا معجزہ ہونے کا یقین ہو جاتا اور ایمان میں پختگی آتی ہے، کہ جو کچھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا آج ظاہر ہو رہے ہیں۔"(شرح مسلم ) ۔
    علامہ مناویؒ فرماتے ہیں:بلا شبہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک ہے۔
    آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی ایک بڑی تعداد اہل فارس ، اہل یورپ اور دوسروں کے طور طریق کو اپنا چکی ہے، وہ ان کے اخلاق وکردار ، لباس وپوشاک، صورت وسیرت، اعمال وکردار ، رسم ورواج کو اپنا چکی ہے،یہاں تک کہ ان کے شعار اور مذہبی رسوم کو بھی اپنا لیا ہے۔مسجدوں کو مزین وآراستہ کرنا، عبادت گاہوں کو سجانا، قبروں کی تعظیم کرنا، رشوت لینا دینا، کمزوروں پر قانون نافذ کرنا اور طاقتوروں کو چھوڑنا، پیدائش کا جشن منانا اور وفات کی برسی منانا، فوج پولیس اور حکومتی نظم ونسق میں ان کے مراسم کو اختیار کرنا اور اس طرح کی ساری چیزیں انہی کی تقلید اور اتباع ہے۔
    حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
     لترکبن سنن من کان قبلکم حلوھا ومُرھا۔
    "تم اپنے سے پہلوں کے طریقوں کو میٹھے اور کڑوے ہر ایک کو اپنا لوگے۔ "(فتح الباری ) ۔
    ذرائع ابلاغ اور رابطے کے وسائل کی ترقی کے ساتھ ہی آج غیر مسلموں کی تقلید وپیروی اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے۔ آج ان کے رسم ورواج اور طور طریق بڑی آسانی کے ساتھ لمحوں میں ہم تک پہنچ جائے اور ہم اسے دیکھ دیکھ کر مبہوت ہو جاتے ہیںاور اس کی تقلید کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آج دنیا ایک گھر میں تبدیل ہوگئی ہے۔دنیا کے کسی حصہ میں کوئی جشن منایا جاتا یا کوئی عید یا کوئی تہوار انجام دی جاتی ہے تو مسلمان براہ راست اس کا مشاہدہ کرتا ہے پھر ان فتنوں میں خود گرفتار ہو جاتا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
    " تباہی وبربادی ہے عربوں کیلئے اُن شروروفتن سے جو ان سے قریب ہو چکی ہے، فتنے رونما ہوں گے تاریک رات کے حصے کی طرح، جس میں کوئی صبح کرے گا ایمان کی حالت میں اور شام میں وہ کافر ہو چکا ہوگا، ایک قوم اپنے دین وایمان کو معمولی سی حقیر دنیا کے عوض فروخت کر دے گا، اس دن اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہنے والا انگارے کو اپنی مٹھی میں پکڑنے والے کی طرح ہوگا، یا یہ فرمایا کہ کانٹوں کو مٹھی میں پکڑنے والے کی طرح ہوگا ۔"(مسند احمد )۔
     حضرت حسنؓ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
    " اللہ کی قسم میں نے ایسے مسلمانوں کو دیکھا ہے جو شکل وصورت کے مسلمان ہیں عقل کے بغیر، جسم ہیں امنگوں کے بغیر، یہ آگ کے پتنگے اور لالچی مکھی ہیں، وہ 2درہموں پر بکتے ہیں، وہ اپنے دین کو بھی ایک بکری کی قیمت پر بیچ دیتے ہیں۔" (مسند احمد ، مستدرک حاکم) ۔
    مسلمانوں کو ذہن نشیں کر لینا چاہئے کہ اسلام میں عید یا تہوار نام ہے عبادت کا، جس کے ذریعہ بندہ اپنے رب کا قرب حاصل کرتا ہے، مسلمانوں کی عیدیں صرف 3 ہیں، کوئی چوتھی نہیں، اور وہ ہیں: جمعہ، عید الفطر، عید الاضحی۔
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا کہ:
    " جمعہ کا دن عید کا دن ہے، اس لئے اسے روزے کا دن نہ بناؤ، الا یہ کہ اس سے پہلے یا اس کے بعد روزہ رکھتے ہوں۔" (مسند احمد: ، ابن خزیمہ، حاکم) ۔
    حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں والوں کا 2دن تہوار کا ہوتا تھا، جس میں وہ کھیلتے کودتے اور مستی کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ یہ کون سا دن ہے؟ان لوگوں نے کہا کہ ہم زمانۂ جاہلیت سے ان دنوں کے اندر کھیلتے کودتے اور جشن مناتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    "  اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ان2 دنوں کو اس سے بہتر دنوں میں تبدیل کر دیا ہے، اور وہ ہے:یوم الاضحی اور یوم الفطر۔"( مسند احمد، ابو داؤد، حاکم) ۔
    حاظ ابن تیمیہؒ اس حدیث کے ضمن میں تحریر کرتے ہیں کہ یہ حدیث غیر مسلموں کی مشابہت عید وتہوار میں اختیار کرنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانۂ جاہلیت کی عیدوں کو برقرار نہیں رکھا اور نہ ہی انہیں چھوڑ دیا کہ وہ ان دنوں میں کھیلیں کودیں جیسا کہ رواج چلا آرہا تھا بلکہ اسے تبدیل کر دیا، اور تبدیلی کا معنیٰ ہی ہے سابقہ چیز کو اتار کر اور ختم کر کے اس کی جگہ دوسرا اپنانا، کیونکہ بدل اورمبدل منہ ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے، پہلا ہے تو دوسرا نہیں، اور دوسرا ہے تو پہلا نہیں (فیض القدیر)۔
    ہمیں خوب اچھی طرح ذہن نشیں کر لینا چاہئے کہ اہل کتاب اور تمام مشرکین کی مخالفت کا ہمارے دین اور ہماری شریعت میں حکم دیا گیا اور ہمیں اس کا پابند بنایا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    " بڑھاپا (یعنی سفیدی کو) تبدیل کرو اور یہودونصاریٰ کی مشابہت اختیار نہ کرو۔" (مسند احمد، ابو یعلی، ترمذی، وقال حسن صحیح، صححہ ابن حبان) ۔
    حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    "مشرکین کی مخالفت کرو ،مونچھ کو خوب پست کرو اور داڑھی کو بھر پور رکھو۔"
    ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول  نے فرمایا:
    " مونچھ کو خوب مبالغہ سے کاٹو، داڑھی کو چھوڑو اور مجوسی کی مخالفت کرو ۔" (مسلم)
    حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت اُن باتوں میں پسندفرماتے تھے، جس کے بارے میں کوئی حکم نہیں آیا ہوتا، خاص طور پر جس میں بت پرستوں کی مخالفت ہوتی تھی، پھر جب مکہ فتح ہوگیا اور اسلام کا بول بالا ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بت پرستوں کی طرح اہل کتاب کی مخالفت بھی پسند تھی جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے: (فتح الباری)۔
    ( جاری ہے)
 

شیئر: