Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہند الیکشن، دلوں کی دھڑکنیں بڑھ گئیں

مودی ہر اچھے کا کام کا کریڈٹ پارٹی اور حکومت کو دینے کے بجائے اپنے سر باندھنے لگے، آر ایس ایس سے ناراضی بڑھ گئی
سید اجمل حسین۔ دہلی

 

اب جبکہ پارلیمانی انتخابات میں محض ایک ماہ باقی رہ گئے ہیں سیاسی پارہ اور پارٹی لیڈروں کے دلوں کی دھڑکنیں بڑھنا شروع ہو گئی ہیں۔ عام انتخابات سے قبل اس وقت جو اصل موضوع زیر بحث ہے وہ اترپردیش اور بہار میں مودی بمقابلہ عظیم اتحاد اور ریاستی سطح پر مودی بمقابلہ علاقائی گٹھ بندھن ہے۔دوسری جانب وزیر اعظم نریندر مودی پورے اعتماد کے ساتھ شہروں شہروں دورے کر ہر اچھے کام کا ،جو بھلے ہی ابھی کاغذی یا زبانی جمع خرچ ہیں، سہراپارٹی اور اجتماعی طور پر اپنی حکومت کے سر باندھنے کے بجائے اپنے سر باندھنے میں مصروف ہیں اور اپنی اس خود ستائش میں وہ مرکزی وزراء یا ریاستی وزراء کوہی نہیںپارٹی صدر امیت شاہ کو بھی،جنہیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی ) کا چانکیہ کہا جاتا ہے   ، کوئی کریڈٹ نہیں دے رہے۔ اس سے جہاں ایک طرف اس کے اثرات اس شکل میں مرتب ہورہے ہیں کہ پارٹی لیڈروں میں ہی نہیں کارکنوں تک میں وہ جوش و خروش نظر نہیں آرہا جس کی امید کی جارہی تھی وہیں آر ایس ایس بھی مودی سے کچھ ناخوش سا دکھائی دے رہا ہے۔  پارٹی کے سابق صدر و مرکزی وزیر نتن گڈکری کی آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے بڑھتی قربت اور موہن بھاگوت اور مودی کے رشتوں میں آنے والی تلخی صاف ظاہر کرر ہی ہے کہ پارٹی میں کچھ ٹھیک نہیں چل رہا۔ آر ایس ایس مودی کے کندھے پر رکھ کر جو بندوق چلانا چاہتا تھا وہ کندھا 4 سال 10 ماہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک آر ایس ایس کو دستیاب نہیں ہو سکا۔نتیجہ یہ نکلا کہ آر ایس ایس کی کوئی خواہش پوری نہ ہو سکی اور تاجر و صنعتکار طبقہ مودی کی اقتصادی پالیسی سے کچھ ایسا بوکھلایا کہ اس نے حکومت سے زیادہ مودی کے خلاف بھاگوت کے کان بھرنا شروع کردیئے یہاں تک کہ بی جے پی امور کے انچارج اور آر ایس ایس کے کو آرڈی نیٹرکے طور پر مودی کو مشورے دینے والے کرشن گوپال بھی بی جے پی سے ناراض نظر آرہے ہیں کیونکہ مودی کی نظر میں اب کرشن گوپال کی بھی کوئی وقعت نہیں رہی اور ان کی کسی بات پر وہ کان نہیں دھر رہے جس نے صورت حال مزید مودی مخالف کر دی ہے اور اندر ہی اندر گڈکری مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں ۔ اگر اس پر فوری طور پر قابو نہ پایا گیا اور چانکیہ نے کوئی نئی حکمت عملی واضع کر کے مودی کے قد کو برقرار رکھنے کی کوشش نہ کی تو اترپردیش اوربہار میں حزب اختلاف کا ریاستی سطح پر اتحاد اور علاقائی پارٹیوں کاسب سے بڑی حزب اختلاف اور کسی دور میں ملک کے80فیصد صوبوں پر حکمرانی کرنے والی قومی پارٹی کانگریس کے سا تھ انتخابی سمجھوتہ مودی کی راہ میں بہت خاردار بنا سکتا ہے ۔ اس وقت مودی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کے اس غالیچہ پر نہیں اڑ رہے جو انہیں2014میں اڑٖا رہا تھا۔ دوئم یہ کہ اب قومی سطح پر کسی ایک پارٹی کوووٹ ملنا مشکل نظر آرہا ہے کیونکہ اب اتر پردیش میں علاقائی پارٹیوں سماج وادی و بہوجن سماج پارٹی اتحاد کو، بہار میں راشٹریہ جنتا دل( آر جے ڈی) قیادت والے اور جنتا دل یونائیٹڈ(جے ڈی یو)والے اتحاد ،مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس قیادت والے اتحاد،تمل ناڈو میں ڈی ایم کے قیادت والے اور انا ڈی ایم کے قیادت والے اتحاد، آندھرا پردیش میں تیلگو دیشم قیادت والے اتحاد،تلنگانہ میں ٹی آر ایس قیادت والا اور تیلگو دیشم والا اتحاد ،اڑیسہ میں بیجو جنتا دل (بی جے ڈی) قیادت والے اتحاد اورکرناٹک میں کانگریس قیادت والے اتحادنے مودی اور امیت شاہ کی راتوں کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔علاوہ ازیں بی جے پی قیادت کو اپنا نیا ہیڈ کوارٹر’’ منحوس بنگلہ‘‘ نظر آنے لگا ہے ۔مزید برآں خود بی جے پی لیڈران اپنے کچھ متنازعہ بیانات سے مودی کو ہی نہیں بی جے پی کو بھی قومی سطح پر بہت نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں وہ اپنی نامعقول حرکتوں سے پارٹی کا عکس خراب کرنے کیلئے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیے رکھ رہے۔وہ اندھی مسلم و پاکستان دشمنی میں یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے کس بیان سے مسلمان ہی نہیں خود ہندوؤں کا بھی ایک بڑا طبقہ جن میں برہمن بھی شامل ہیں پاکستان نواز ثابت کر رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں گری راج سنگھ نے جو لوک سبھا میں بہار کی نمائندگی کرتے ہیں اپنے اس بیان سے بہار کے لوگوں کو ناراض کر دیاکہ پٹنہ میں مودی کی سنکلپ ریلی میں جو نہیں آئے گا وہ وطن دشمن یا پاکستان نواز ہوگا۔ لیکن خود گری راج ہی ریلی میں شرکت نہ کر سکے۔ لیکن ان کے اس بیان سے بہار کا ایک بڑا ہندو طبقہ جو غیر بی جے پی پارٹیوں سے نکل کر بی جے پی کو ووٹ کرنے کا ذہن بنا رہا تھا پھر بی جے پی مخالف ہو گیا۔ابھی تک تو صرف سرحد پر جاکر ملک کیلئے لڑنا ہی حب الوطنی کہا جاتا تھا لیکن گری راج نے مودی کی ریلی میں شرکت کرنے کو ہی اصل دیش بھکتی قرار دینے کی کوشش کی۔بی جے پی لیڈروں یہاں تک کہ قانون سازوں نے جو حرکتیں کی ہیں وہ حزب اختلاف کیلئے کسی ہتھیار سے کم نہیں۔ تازہ ترین واقعہ جس کابی جے پی اور مودی و امیت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے وہ اترپردیش کے سنت کبیر نگر میں کلکٹریٹ سبھا گار میں ضلع یوجنا کمیٹی کی میٹنگ کے دوران بی جے پی ممبر پارلیمنٹ اور ایک ممبر اسمبلی میں جوتم پیزار ہوجانے کا ہے۔ اب اس وقت صور ت حال یہ ہے کہ بی جے پی اپنا اقتدار ، مودی امیت جوڑی اپنی ساکھ بچانے میں اور حزب اختلاف کی جماعتیں بی جے پی سے زیادہ مودی کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں اپنی پوری طاقت صرف کیے ہوئے ہیں اور23مئی کو اس کا نتیجہ سامنے آجائے گا۔
مزید پڑھیں:- -  - - -تعداد پر تنازعہ

شیئر: