Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بابری مسجد اور ثالثی پھر بھی بات نہ بنی تو ؟

ظفر قطب ۔ لکھنؤ

بابری مسجد مسئلے پر ایک بار پھر سپریم کورٹ نے فریقین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مسئلے کو اگر باہمی گفتگو سے حل کر لیں تواس سے اچھی بات کوئی نہیں ہوسکتی لیکن اگر بات نہیں بنی تو پھر عدالت اپنا فیصلہ دے دے گی، سپریم کورٹ کے اس مشورہ سے اختلاف کسی کو نہیں لیکن ایک گروپ ایسا ہے جو کسی طرح کی بھی مصالحت نہیں چاہتا اور وہ کھلے عام اس کی مخالفت یہ کہہ کر کررہاہے کہ ہم عدالت کا تو احترام کرتے ہیں لیکن مصالحت اور ثالثی بے معنی ہیں ۔ یہ وہ گروپ ہے جو کسی طرح بھی بابری مسجد کو مسجد کہنے کا روادار نہیں اور بغیر کسی ثبوت اور تاریخی شواہد کے مسجد کو مندر کہنے پر مصر ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہاں پہلے سے ایک رام مندر موجود تھا جس کو بابر نے مسمار کردیا اور اس جگہ اس نے ایک مسجد اپنے نام سے تعمیرکر دی۔یہ دعویٰ انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ بابر کبھی اجودھیا آیا ہی نہیں اور اس کے ایک سپہ سالار میر باقی نے مسجد تعمیر کرائی تھی۔اس کا نام بابری مسجداس لیے رکھا گیاجس طرح آج کے زمانہ میں ملک کے بڑے بڑے شہروں اور مقامات پر فلک شگاف عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں یا بڑے کارخانے لگتے ہیں اور ان کا نام حاکم وقت پر رکھ دیا جاتا ہے یا ان کو معنون کردیتے ہیں ۔ بابری مسجد کی حیثیت بالکل اسی طرح ہے جہاں تک سوال ہندو عبادت گاہ کا ہے تو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے بھی اس کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس نے مقدمہ کی ملکیت کا جو فیصلہ دیا تھااس میں ایک حصہ مسجد کا بر قرار رکھا تھا۔ اس وقت سپریم کورٹ میں بھی جو مقدمہ داخل ہوا ہے وہ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے فیصلے پر مشتمل ہے کیونکہ ایک گروپ کسی طرح بھی مسجد کو اس کا حصہ دینا نہیں چاہتا۔ اس کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اجودھیا شہر ہی نہیں ہم پورے ضلع میں کہیں بھی بابری مسجد کی تعمیر نہیں ہونے دیں گے۔ یہ گروپ ایسی کڑوی اور کسیلی باتیں کرتا ہے گویا کہ قانون اور جمہوری نظام اور آئین اس کے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتے مقدمہ سپریم کو رٹ میں ملکیت کے سلسلے میں داخل ہے نہ کہ مندر کی تعمیر کیلئے ۔ جیسا کہ حکمراں جماعت بی جے پی اور سخت گیر ہندو تنظیمیں آر ایس ایس ، وشو ہندو پریشد ، بجرنگ دل اور دوسری ہندو تنظیمیں پرو پیگنڈا کرتی پھر رہی ہیں ۔ اس سلسلے میں عوام کو بی جے پی، اس کی مرکزی کابینہ اور خود وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ نے پورے ملک کو یہ کہہ کر گمراہ کر رکھا ہے کہ عدالت سے مندر بنانے کا فیصلہ ہونے جارہاہے۔ حالانکہ مندر کے سلسلے میں نہیں بلکہ اس پورے کمپلیکس کی ملکیت کا مقدمہ زیر غور ہے اور اسی پر فیصلہ ہونا ہے کہ کتنے حصے میں مسجد کی تعمیر ہوگی اور کتنے حصے میں مند رکی۔ جیسا کہ آزادی سے قبل فریقین مسجد میں نماز پڑھتے تھے اور مسجد کے عقب میں واقع سیتا کی رسوئی (باورچی خانہ)تھی، جہاں اکثریتی فرقہ کے لوگ مذہبی رسومات ادا کرتے تھے۔آزادی کے بعد بڑی ہی چالاکی کے ساتھ اکثریتی فرقہ کے ایک گروپ نے مسجد کی عقبی دیوار توڑ کر اس میں بت رکھ دیا اور وہاں مذہبی رسومات شروع کردی اس کے بعد حکومت اپنی کمزوری کی بناپر مسجد مسلمانو ں کو واپس نہیں د لا سکی اور یہ مسئلہ الجھتا چلا گیا اور وہ دن بھی آیا جب بابری مسجد کو دہشت پسندوں کی ایک جماعت نے اس یلغار کرکے زمیں بوس کردیا اور ملک کے انتہائی کمزور وزیر اعظم نرسمہا راؤ اور ریاست کے بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ نے راتوں رات وہاں ایک عارضی مندر تعمیر کرادی ۔ اور عدالت نے اس پرحکم امتناع جاری کرکے مسئلے کو جوں کا توں برقرار رکھنے کا حکم جاری کر دیا۔ اب جو ثالثی کی بات چلی ہے تو امید کی ایک کرن جاگی ہے کہ شاید سمجھوتے کی کوئی راہ نکل آئے ۔کیونکہ مسلم فریق سپریم کورٹ کے اس حکم کی تعریف کرتے ہیں کہ ہم سمجھوتے سے کوئی راہ نکالنے کے حق میں ہیں جبکہ ایک گروپ اکثریتی فرقہ کا بھی ہے جو چاہتا ہے کہ کسی طرح مسئلے کا کوئی حل نکل آئے۔سپریم کورٹ نے اجودھیا معاملہ میں بڑا فیصلہ سناتے ہوئے مصالحت کا حکم دیا  اور اس کیلئے 3رکنی پینل کی بھی تشکیل کردی گئی ہے۔ پینل اس معاملہ میں شامل سبھی فریقوں کو اپنی اپنی رائے دینے کیلئے مدعو کرے گا۔ اس پورے معاملہ میں ریاستی حکومت ریسیور کے رول میں موجود رہے گی۔ سبھی فریق اپنی رائے پینل کو دیں گے۔ پہلے اس معاملہ میں الگ الگ بات کی جائے گی۔ پھر پینل سبھی فریقوں کو یا کچھ فریقوں کو ساتھ بٹھا کر بات کرے گا۔مرحلہ وار بات چیت کے بعد ایک یا ایک سے زیادہ فارمولہ بنایا جائے گا۔ ایسا فارمولہ جو سبھی یا زیادہ تر فریقوں کو قبول ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دوران پینل کے سامنے کوئی فارمولہ ہی تیار نہ ہو پائے۔ اس کے بعدپینل کی جانب سے جو بھی نتیجہ نکالا جائے گا ، اس کی رپورٹ عدالت عظمیٰ کے سپرد کی جائے گی۔اگر سپریم کورٹ کو لگتا ہے کہ کسی ایک فارمولے پر زیادہ فریق متفق ہیں تو اس پر عدالت اپنی مہر لگادے گی۔ عدالت کی مہر لگنے کے بعد وہ سبھی کو قابل قبول ہوگا۔ اگر کوئی متفق نہ ہوا ، تو نظر ثانی کی عرضی کے ذریعہ عدالت کے فیصلہ کو چیلنج کرسکتا ہے۔ اس صورت میں سپریم کورٹ مصالحت کو ختم کرکے اس معاملہ میں داخل دیگر عرضیوں پر سماعت کرے گی۔اجودھیا میں متنازعہ مقام کے تنازعات کو حل کرنے کیلئے سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ ثالثوں کی میٹنگ سے قبل مسلم فریقوں کی ایک اہم میٹنگ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ہوئی جس میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی اور دیگر لوگوں نے شرکت کی۔میٹنگ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بابری مسجد مقدمہ کے ایک فریق اقبال انصاری نے کہا کہ ہم عدالت کے فیصلے کے ساتھ ہیں۔

مزید پڑھیں:- - - -لیگ اور پی پی کو عمران کے کمزور ہونے کا انتظار

شیئر: