Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اطلاعات تک رسائی کا قانون تو بن گیا مگر عمل درآمد نہ ہو سکا

وسیم عباسی ۔ اسلام آباد
 
پاکستان میں  وفاقی سطح پرسرکاری اطلاعات تک عوامی رسائی کا قانون پارلیمنٹ سے سنہ 2017 میں منظور ہو گیا تھا مگر اس پر مکمل عمل درآمد آج تک نہ ہو سکا۔ جس کی وجہ سے عوام آج بھی سرکاری محکموں سے اطلاعات حاصل کرنے کے حق سے محروم ہیں۔
اس قانون پر عملدرآمد کا وعدہ حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اپنے منشور میں بھی کر رکھا ہے اور اس کو حکومتی امور میں شفافیت کے لیے ایک انقلابی قانون کے طور پر بھی پیش کیا گیا تھا۔
’حقوق رسائی معلومات بل 2017‘ کا مقصد پاکستان کے آئین کی شق ’19 اے‘ کے مطابق عوام کو یہ حق دینا تھا کہ وہ سرکاری محکموں سے عوامی معاملات کے متعلق معلومات حاصل کر سکیں۔ 
اکتوبر 2017 میں ایکٹ بننے کے بعد اس قانون میں وزیراعظم کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ چھ ماہ کے اندر وفاقی سطح پر انفارمیشن کمیشن قائم کریں تاکہ تمام محکموں کی طرف سے عوام کو اطلاعات تک رسائی یقینی بنانے کے عمل  کی نگرانی کی جا سکے اور جو محکمے عوام سے حقائق چھپائیں ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔
تاہم ایک سال کے اانتظار کے بعد بلا ٓخر موجودہ حکومت نے  نومبر 2018 میں تین رکنی کمیشن تو بنا دیا مگر اس کے لیے آج تک نہ تو کوئی بجٹ دیا گیا نہ ہی ارکان کو اسٹاف اور کوئی دوسری سہولت دی گئی۔ 
کمیشن کے ایک رکن زاہد عبداللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے کمیشن کے ارکان کو گزشتہ 5 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اور نہ ہی کوئی اسٹاف یا فرنیچر مہیا کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وسائل اور تنخواہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے کمیشن کا کام بری طرح متاثر ہوا ہے اور عوام اب تک  اطلاعات کی رسائی کے حق سے محروم ہیں۔
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر پاکستان کے وفاقی سیکریٹری اطلاعات شفقت جلیل نے تصدیق کی کہ ابھی تک انفارمیشن کمیشن کو کوئی فنڈز فراہم نہیں کیے جا سکے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں سمری کابینہ کو بھجوا دی گئی ہے اورجلد ہی کابینہ کی منظوری سے کمیشن کے ارکان کو تنخواہ ادا کر دی جائے گی اور انہیں مطلوبہ اسٹاف بھی مہیا کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وہ کمیشن کے ارکان کی مشکلات سے آگاہ ہیں اور وہ کمیشن کو جلد ابتدائی فنڈز جاری کروانے کی کوشش کریں گے۔
تین رکنی وفاقی انفارمیشن کمیشن کی سربراہی سابق وفاقی سیکرٹری محمد اعظم کر رہے ہیں جبکہ دوسرے دو ارکان میں ایڈوکیٹ فواد ملک اور بینائی سے محروم سماجی کارکن زاہد عبداللہ شامل ہیں۔  
 
 

شیئر: