Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوڈان میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، عمر البشیر گرفتار

سوڈان میں وزارتِ دفاع کے مطابق فوج نے ملک میں تیس برس سے حکمرانصدر عمر البشیرکو  اقتدار سے ہٹا کر انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
سوڈان کے وزیر دفاع ایواد ابن اوف نے سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا 'میں بطور وزیر دفاع حکومت کے خاتمے اور اس کے سربراہ کی گرفتاری کا اعلان کرتا ہوں۔'
انہوں نے کہا کہ ایک عبوری ملٹری کونسل دو سال کے لیے معزول صدر عمرالبشیر کی جگہ  ملک کا انتظام  سنبھالے گی اور دو برس بعد انتخابات ہوں گے
 
ملک کا آئین معطل کیا جارہا ہے اور فضائی حدود اور بارڈر کراسنگز کو تا حکم ثانی بند کیا جا رہا ہے۔
سوڈان کے وزیر دفاع کے اعلان سے تھوڑی دیر پہلے ہی سوڈان کی  نیشنل انٹیلیجنس اینڈ سکیورٹی سروس نے اعلان کیا تھا کہ ملک بھر میں تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ 
 ان کا کہنا تھا کہ معزول صرر کو محفوظ مقام پر رکھا جائے گاجبکہخیال رہے کہ  جمعرات کی صبح سوڈان کے سرکاری ٹیلی ویژن اور ریڈیو نے بتایا تھا کہ ‘سوڈان کی مسلح افواج کی جانب سے اہم اعلان متوقع ہے اور اس کے بعد ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر قومی نغمے نشر کیے جانے لگے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا30سال قبل سوڈان میں جمہوری عدم استحکام کے دوران حکومت کاتختہ الٹنے سے پہلے ہوا تھا۔
 اس خبر کے بعد یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ فوج 30 برس سے برسراقتدار صدر عمر البشیر کی حکومت کا تختہ الٹنے والی ہے۔
واضح رہے کہ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں خوراک کی قیمتوں میں اضافے اور ملک کی کمزور معیشت کے خلاف احتجاج کیاجا رہا ہے اور جمعرات کو فوج کے ہیڈ کوارٹرز کے باہراحتجاج چھٹےروز میں داخل ہوگیا تھا اور  مظاہرین سوڈانی صدر کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے تھے کیونکہ مظاہرین کو امید تھی کہ فوج صدر عمر البشیر کے خلاف اندرونی بغاوت کی حمایت کرے گی جس سے اقتدارکی تبدیلی کی راہ ہموار ہو گی۔
مسلح افواج کی جانب سے  حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت آیا جب تجزیہ کاروں کی اس تنبیہ کے بعدسامنے آئی تھی  جس میں خبردار کیاگیاتھا کہ اگر ملک میں سیاسی بحران کوپُرامن طریقے سے حل نہ کیاگیا تو سوڈان انتشار کا شکار ہوجائے گا۔
 البشیر کے خلاف احتجاج کیوں شروع ہوا؟
افریقہ کا سب سے بڑا اور تذویراتی اعتبار سے اہم ملک سوڈان صدر عمر البشیر کے 30سالہ دورحکومت کے خلاف گزشتہ کئی ماہ سے جاری احتجاج کے باعث مفلوج ہے۔
ہفتے کے روزہزاروں مظاہرین نے دارالحکومت خرطوم میں جمع ہوئے اورصدر البشیرسے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ میں 5 اہلکاروں سمیت 22افراد ہلاک جبکہ 150سے زائد زافراد زخمی ہوئے تھے۔
صدر عمر حسن البشیرپر’’انسانیت کے خلاف جرائم اور قتل عام‘‘ کے الزامات ہیں اور عالمی عدالت انصاف ان کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کر چکی ہے۔ مظاہرے کے قائدین نے سوموار کو پہلی مرتبہ فوج سے کہا کہ وہ صدر کی حمایت سے دستبردار ہوجائے اور تبدیلی کے لیے ان کے نعرے کی حمایت کرے۔
واضح رہے کہ سوڈان کی معیشت کئی سالوں سے مشکلات میں ہے۔ 2011 میں ملک کے دو حصے ہونے کے بعد سوڈان کی3 چوتھائی تیل کی پیدوار اس سے چھن چکی ہے جس سے خرطوم کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔حکومت چاہتی ہے کہ معیشت 5 فیصد کی شرح سے ترقی کرے جبکہ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ صرف دو فیصد سالانہ ترقی ہی ممکن ہے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ سوڈان کی 13 فیصد آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

شیئر: