Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیشی حکام جنگلوں میں شیروں کی کم ہوتی تعداد سے پریشان

بنگلہ دیش میں شیروں کی تعداد کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے حکام پریشان ہیں، تصویر: اے ایف پی
بنگلہ دیش میں سندربن کے ساحلی جنگلات میں بنگالی شیروں کی تعداد میں کمی نے ان کی بقا سے متعلق حکام کو خدشات میں ڈال دیا ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق چار برس پہلے سندربن کے ساحلی جنگلات میں ان شیروں کی تعداد میں 106 سے 114 تک اضافہ دیکھنے میں آیا تھا تاہم ان اعداد و شمار کا احتیاط سے جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ شیروں کی تعداد عام تناسب سے کم ہے۔
بنگلہ دیشی حکام کے مطابق عام طور پر تین شیرنیوں کے لیے ایک شیر ہوتا ہے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ پانچ شیرنیوں کے لیے صرف ایک شیر موجود ہے۔
جنگلی حیات کے تحفظ کے ایک حکومتی عہدیدار جاہدالکبیر نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’شیروں کی تعداد میں کمی سے متعلق ہم شدید پریشان ہیں، تین شیرنیوں کے لیے ایک شیر ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ شرنکھولہ کے علاقے میں انہیں 19 شیرنیوں کے لیے صرف دو شیر ملے۔

شیر دور دور تک نقل و حرکت کرتے ہیں ، شکاری ان کو آسانی سے شکار کر سکتے ہیں، تصویر: اے ایف پی

جاہدالکبیر کا کہنا تھا کہ شیروں کی کمی سے سندربن کے جنگلات میں شیروں کی آبادی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
بنگلہ دیشی حکام منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ جنگل کے دوسرے حصوں سے شیروں کو پکڑ کر ان کو شرنکھولہ میں چھوڑا جائے۔
گذشتہ برس جنگل کے 1656 مربع کلومیٹر کے علاقے میں شیروں کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا جس کے لیے کیمرے کا استعمال کیا گیا تھا۔
سندربن میں نایاب نباتات اور حیوانات ہیں، جن میں شیر اور ڈولفنز بھی ہیں، دونوں کو غیر قانونی شکار اور ان کا قدرتی ماحول خراب ہونے کی وجہ سے خطرے سے دوچار قرار دیا گیا تھا۔
شیروں کی تعداد سے متعلق خطرے کی گھنٹی 2015 میں ہی بج گئی تھی جب اعداد و شمار میں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ جنگل میں 106 شیر رہ رہے ہیں۔

شیروں کی تعداد بڑھانے کے لیے بنگلہ دیش کی حکومت نے اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں، تصویر: اے ایف پی

2015 کے اعداد و شمار کے بعد بنگلہ دیشی حکام کی جانب سے بنگالی شیروں یا بنگال ٹائیگرز کی تعداد بڑھانے کے لیے اقدامات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
ان اقدامات کے تحت بنگال ٹائیگرز کو بچانے کے لیے ان کے قدرتی ماحول کو تحفظ فراہم کیا گیا اور سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے غیر قانونی شکاریوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔
جہانگیر نگر یونیورسٹی میں زوالوجی کے ایک پروفیسر منیرالخان کہتے ہیں ’ان کو یقین ہے کہ شیروں کی تعداد میں کمی کے پیچھے غیر قانونی شکاری ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ  شیر طاقتور ہوتے ہیں اور ایک وسیع علاقے پر ان کی نقل و حرکت ہوتی ہے اس لیے شکار کے خطرے سے دوچار ہو جاتے ہیں۔‘

شیئر: