علامہ جُگادری دھوب گاڑی پر سوار محلے میں وارد ہوئے تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ گاڑی میں جو مخلوق جُتی ہے وہ گھوڑے جیسی تو ہے مگر گھوڑا نہیں ہے۔ گاڑی کے قریب پہنچنے پر ہم نے بےتابی سے پوچھا: ’ علامہ یہ جانور کچھ کچھ گھوڑے کا ’ٹچ‘ دے رہا ہے‘۔
’ٹچ تو دے گا ہی،۔۔۔ باپ پر پُوت، پِتا پر گھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا‘۔ مگر یہ پِتا سے زیادہ ماتا پر چلاگیا ہے‘۔ علامہ آج چہک رہے تھے۔
مزید پڑھیں
-
الفاظ کے الٹ پھیر کا دلچسپ مطالعہNode ID: 430116
-
بھلا Roy کا بادشاہ سے کیا لینا دینا ہے!Node ID: 431376
-
لفظ تماشا: کچکول سے کشکول تک کی کہانیNode ID: 436616
مطلب؟۔۔۔اس بار ہماری حیرانی دوچند تھی۔
مطلب یہ کہ اسے خچر کہتے ہیں۔ علامہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
پھر بولے ’خچر‘ اصل میں گدھے اور گھوڑی کی باہمی اولاد ہے۔ تم نے ’بال جبریل‘ میں علامہ اقبال کی نظم ’شیر اور خچر‘ نہیں پڑھی؟
’نہیں‘ ۔۔۔ ہم نے اپنی لاعملی کا اعتراف کیا، تو بولے: ’اب پڑھ لینا‘۔
ہم نے بات بدلی : ’ علامہ آپ نے ابھی محاورے میں لفظ ’پُوت‘ استمال کیا ہے اس کا حدود اربعہ کیا ہے؟
علامہ جو اب تک دھوب گاڑی پر سوار تھے چھلانگ مار کر نیچے اتر آئے اور تھڑے پر بیٹھتے ہوئے بولے میاں چائے منگوالو ،کڑک ۔۔۔ ہم نے چائے کے لیے بچے کو دوڑایا۔۔۔تو انہوں نے بات آگے بڑھائی:
لفظ ’ پُوت ‘ کے معنی ہیں ’ بیٹا ‘ اور اس کی اصل سنسکرت کا لفظ ’ پُترا ‘ہے۔ گزرے وقتوں میں بڑے بوڑھے پالنے میں ہاتھ پاؤں ہلاتے بچے کو دیکھ کر اس کے آئندہ کا چال چلن بتا دیتے اور فخر سے کہتے: ’ پُوت کے پاؤں پالنے میں نظر آ جاتے ہیں‘۔
ہندی اور اردو میں بیٹے کا بیٹا اسی پُوت کی نسبت سے ’پُوتا‘ کہلاتا ہے، جو عام بول چال میں ’ پَوتا ‘ ہوگیا ہے۔ بیٹا اگر اچھا کھاتا کماتا ہو تو اسے ’ کماؤ پوت ‘ کہتے ہیں۔ ماں باپ لائق بیٹے کے لیے ہمیشہ دعا گو رہتے ہیں: ’ کماؤ پوت کی دور بلا‘ ۔ اور اگر یہ ’کماؤ پوت‘ مزاج کے خلاف کوئی کام کردے تو اسے یہ کہہ کر برداشت کرلیتے ہیں کہ: ’کَماؤ پُوت کَلیجے مُوت‘۔۔۔ویسے ایسا ہی کچھ دودھ دینے والی گائے کے متعلق بھی کہا جاتا ہے، یہ محاورہ دیکھو ’ دودھیل گائے کی لاتیں بھی بھلی‘۔
اتنے میں چائے آگئی علامہ نے گرما گرم چائے کی یک بعد دیگر دو مختصر’چُسکیاں‘ لیں اور بولے۔’ پُوت اگر خاندان کی نیک نامی کا سبب بنے تو وہ ’ سُپُوت ‘ کہلاتا ہے۔ اس کے معنی سعادت مند، نیک اور لائق ہیں۔ سپوت کے برخلاف اگر ’ پُوت‘ خاندان کی بدنامی کا باعث ہو تو اسے ’ کُپُوت ‘ کہتے ہیں۔ کُپُوت کے معنی میں ناخلف، نافرمان اور نالائق داخل ہیں۔ اس ’ سُپُوت اور کُپُوت ‘ کو حرف اول پر زبر کے ساتھ ’ سَپُوت اور کَپُوت ‘ بھی کہہ دیتے ہیں جو درست نہیں ہے۔
اتنا بیان کر کے علامہ نے ہماری طرف دیکھ کر پوچھا’ کیا سمجھے؟‘ پھر ہمارے کچھ کہنے سے پہلے خود ہی بات آگے بڑھا دی: ’نیکوں کے گھر نالائق اور نالائقوں کے گھر نیک اولاد ہو تو محاورے میں کہتے ہیں: ’ سپوتوں کے کپوت، کپوتوں کے سپوت‘۔ ان دولفظوں کو لیکر ایک محاورہ ’سپوت کیلیے نہ جوڑ، کپوت کیلیے نہ چھوڑ‘ ہے، یعنی لائق اولاد اپنی لیاقت سے اپنا مقام خود بنا لیتی ہے جب کہ ناخلف اولاد ورثے میں ملنے والی دولت اور نیک نامی دونوں برباد کر دیتی ہے۔ویسے کسی نے ’ پوت ، سپوت اور کپوت ‘ کی تعریف مختصر طور پر ان الفاظ میں بیان کی ہے:
پوت ۔۔۔ جو باپ دادا کی نیک نامی اور جائیداد کو قائم رکھے۔
سپوت ۔۔۔ جو باپ دادا کی نیک نامی اور جائیداد میں اضافہ کرے۔
کپوت ۔۔۔ جو باپ دادا کی نیک نامی اور جائیداد کو برباد کر ڈالے۔
اور ’راجپوت‘ ؟ ۔۔۔ ہم نے نکتہ اٹھایا۔
’راجپوت‘ دولفظوں ’راج اور پوت ‘ سے مرکب ہے اور اس کا مطلب ہے ’راجا کا بیٹا‘۔ ہندُستان کے مشہور خطے ’راجپوتانہ‘ کو بھی اسی راجپوت سے نسبت ہے، جس کا مطلب ہے ’راج پوتوں کا گھر‘ ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کے معنی ’سرزمینِ راج پوت‘ ہیں۔
علامہ جُگادری نے جو دوران گفتگو چائے کی چسکیاں جاری رکھے ہوئے تھے بولے: یہ تو ’بیٹے‘ کا تذکرہ تھا، اب میں تمھیں ’بیٹی‘ کا احوال سناتا ہوں۔
سنسکرت میں دودھ دوہنے کو’ دُہ ‘ کہتے ہیں۔ چونکہ زمانہ قدیم ہی میں انسانی معاشرہ گلہ بانی اور زراعت سے وابستہ ہوگیا تھا ایسے میں لڑکیوں کے ذمے جو گھریلو کام تھے ان میں مویشیوں کا دودھ ’دوہنا ‘ بھی شامل تھا۔ چنانچہ ’دُہ‘ (دوہنے) کی نسبت سے ان لڑکیوں کو ’ دُہتر ‘ کہا جانے لگا جو آگے چل کر لفظ ’لڑکی یا بیٹی ‘ کا مترادف ہوگیا۔
دُہتر کا حرف ’ہ‘ حرف ’خ‘ سے بدل کر فارسی میں ’دُختر‘ ہوا پھر انگریزی میں پہنچ کر daughter بنا، جرمن زبان میں Tochter (تُختر) اور ناروجیئن میں datter (ڈاٹر) کہلایا۔ بات یہیں تمام نہیں ہوئی ’دُہتر‘ لہجے کے اختلاف کے ساتھ اور بھی بہت سی زبانوں میں موجود ہے۔
اردو اور ہندی سمیت دیگر علاقائی زبانوں میں ’دُہتر‘ نہیں بولا جاتا مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندی کی رعایت سے اردو میں نواسے اور نواسی کو بالترتیب ’دوہتا اور دوہتی‘ بھی کہتے ہیں جبکہ پنجابی زبان میں نواسا ’دُہترا‘ اور نواسی ’دُہتری‘ کہلاتی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان الفاظ کو ’دُہتر‘ سے کیا نسبت ہے۔
آپ کی تحقیق سر آنکھوں پر، مگر یہاں آپ سے ایک بات میں اختلاف ہے ۔۔۔ ہم نے کہا۔
علامہ متانت سے بولے ۔۔۔ ’سو بسم اللہ ‘
مزید پڑھیں
-
’سری نگر‘ کے نام کے پیچھے کیا راز ہے؟Node ID: 433476
-
کیا کلیم الدین کے معنی ’دین کا کلام‘ ہے؟Node ID: 434566
-
’اور بھی خبریں ہیں کہو تو سناؤں؟‘Node ID: 435701
ہم نے خود پر بھرپورعلمیت طاری کی اور کہا: ’آپ نے فارسی ’دُختر‘ کو ’دُہتر‘ کی بدلی ہوئی صورت قرار دیا ہے اور بظاہر یہ بات درست بھی معلوم ہوتی ہے مگر کچھ ماہرینِ لسانیات کے مطابق ’ دُختر‘ کی اصل ’ دوختن ‘ ہے جس کے معنی دوکپڑوں کو باہم سینے یا جوڑنے کے ہیں۔ چونکہ عام طور پر سینے پرونے کا کام لڑکیاں کرتی تھیں اس لیے دوختن کی نسبت سے انہیں ’دُختر‘ کہا جانے لگا جو بعد میں ’ بیٹی اور لڑکی‘ کے مترادف ہوگیا‘۔
علامہ نے توجہ سے ہماری بات سُنی اور کہا: ’ بات تو تمہاری بھی دل کو لگتی ہے مگر چونکہ قدیم فارسی اور سنسکرت ماں جائی بہنیں ہیں اور دونوں زبانوں میں تلفظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ بے شمار الفاظ مشترک ہیں اس لیے میرے نزدیک ’دُختر‘ کی اصل ’دُہتر‘ ہے۔ باقی رہی لسانی تحقیق میں اختلاف کی بات تو : یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
ہم نے کہا: ’چلیں ’دُہتر‘ کو جانے دیں کچھ ’دوشیزہ‘ کا حال سنائیں‘۔
بولے: ’دُہتر‘ کی طرح ’دوشیزہ‘ کا تعلق بھی دودھ دوہنے سے ہے۔ وہ یوں کہ فارسی میں دودھ دوہنے کو ’دوشیدن‘ کہتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا تھا یہ کام گھر میں بن بیاہی لڑکیاں کرتیں تھیں اسی لیے ’دوشیدن‘ کی نسبت سے انہیں ’دوشیزہ‘ پکارا گیا۔ بعد میں یہ لفظ کنواری لڑکی کے لیے خاص ہوگیا۔
اسی کے ساتھ ہی علامہ نے چائے کی پیالی خالی کی اور یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے: ’اب اجازت دو باقی باتیں بعد میں۔ اللہ حافظ‘۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں