Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھڑ سوار نئے عالمی ریکارڈ کی آرزو مند

خلود مختار نے گھڑ سواری کے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ فوٹو الشرق الاوسط
 سعودی خواتین ایسے کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی لینے لگی ہیں جنہیں ماضی قریب تک مردوں کے لیے مخصوص مانا جاتا رہا ہے۔ انہی میں گھڑ سواری کے مقابلے بھی آتے ہیں۔
الشرق الاوسط کے مطابق سعودی گھڑ سوار خاتون خلود مختار نے حال ہی میں گھڑ سواری کے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے ہم وطنوں کو ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو ششدر کر دیا تھا۔ اس کامیابی نے انہیں مزید کامیابیوں کی بھی تحریک دی ہے۔
خلود مختار کہتی ہیں کہ ’جب میں نے گھڑ دوڑ کے بین الاقوامی مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کرتے وقت وطن عزیز کا پرچم بلند کیا تھا تو اس وقت کی میں اپنی خوشی کا اظہار الفاظ کے ذریعے نہیں کرسکتی۔
’میں فخر و ناز کے احساس سے سرشار تھی۔ یہ کامیابی آسان نہیں تھی۔ گرد و غبار سے فضا اٹی ہوئی تھی۔ موسم خراب تھا، 3 مرحلوں میں دوڑ کا مقابلہ تھا۔ اس کے لیے انتہائی پیشہ ورانہ حربے استعمال کرنے تھے۔ تینوں مرحلوں میں میرے گھوڑے نے بھرپور ساتھ دیا کہیں کوئی مشکل پیدا نہیں کی۔‘

 ’میری آرزو ہے کہ کسی بین الاقوامی مقابلے میں قومی ٹیم کی نمائندگی کروں۔‘ فوٹو الشرق الاوسط

خلود مختار کہتی ہیں کہ ٹرینر نجیب البرجس کا ان کی کامیابی میں بڑا ہاتھ ہے۔ ’وہ بہت تجربہ کار اور تکنیکی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ٹریننگ کے دوران حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے ہیں۔ کبھی کبھار تیز و تند زبان میں بات کرتے ہیں۔
’میں سمجھتی ہوں کہ کامیابی کے لیے ٹرینرز کی ڈانٹ ڈپٹ بھی بے حد ضروری ہوتی ہے۔ انہوں نے دوڑ کے دن پل پل میرا ساتھ دیا۔ کتنی رفتار سے کب مجھے آگے بڑھنا تھا یہ سب وہ مجھے بتاتے رہے۔ وہ دوڑ کے وقت آخری لمحے تک میرے ساتھ رہے۔
خلود مختار کا کہنا تھا کہ مقابلے میں جب چند میٹر طے کرنے رہ گئے تھے ’تب ٹرینر نے یہ کہہ کر مجھے زندگی کی انمول خوشی دی کہ مبارک ہو تم پہلی پوزیشن جیت چکی ہو۔ یہ سنتے ہی میں خوشی کے مارے رونے لگی تھی۔ فوراً ہی میں نے سعودی پرچم طلب کیا اور اسے لہراتے ہوئے آخری لائن سے گزری۔‘

خلود مختار کسی بین الاقوامی مقابلے میں اپنی قومی ٹیم کی نمائندگی کرنا چاہتی ہیں۔ فوٹو:عکاظ

خلود مختار سے سوال کیا گیا کہ سب سے پہلے کس نے مبارکباد دی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ پہلی مبارکباد ان کے والد کی جانب سے ملی تھی۔
’وہ بے حد خوش تھے۔ ان کی حوصلہ افزائی نے مجھے بہت کچھ دیا۔‘
خلود سے ان کی مستقبل کی آرزو کے بارے میں دریافت کیا گیا تھا ان کا کہنا تھا کہ وہ 120 کلو میٹر لمبی بین الاقوامی دوڑ میں شرکت کرنا چاہتی ہیں۔
خلود نے بتایا کہ گھڑ سواری بچپن ہی سے ان کا دلچسپ مشغلہ تھا۔ ’یہ میرا پیار بھی ہے۔ میں شروع ہی سے اس کی دلدادہ ہوں۔ روزانہ گھڑ سواری کرتی ہوں۔‘
خلود سے دریافت کیا گیا کہ شہزادہ ولید بن طلال کا ان کی ٹیم کی مدد میں کیا حصہ ہے؟
’سچی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد سارا کرم انہی کا ہے۔ ہماری ٹیم ان کی ٹیم ہے۔ انہوں نے ہمیں ہر وہ سہولت فراہم کی جس کی ٹیم کو ضرورت تھی۔‘
خلود سے جب یہ پوچھا گیا کہ گھڑ سوار خاتون کی حیثیت سے وہ کس چیز کی کمی محسوس کرتی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی بین الاقوامی مقابلے میں اپنی قومی ٹیم کی نمائندگی کرنا چاہتی ہیں۔
’اب جبکہ سعودی گھڑسواری کی آرگنائزیشن نے گھڑ سوار خواتین کو شامل کرنے کی منظوری دیدی ہے، یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ ابھی تک میں شہزادہ ولید بن طلال کی ٹیم کا حصہ ہوں۔ میں 10برس سے مقابلو ں میں اول آرہی ہوں۔‘
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں

شیئر: