Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سب ماں باپ برابر نہیں ہوتے

ہمیں اولاد کے فرائض پر بھاشن دینے والے والدین کے فرائض پر بھی ذرا نظر ثانی کریں۔
مخمصے میں ہوں۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ آغاز کیسے کروں۔ اصل میں سمجھ تو کبھی بھی نہیں آتی۔ اس لیے کبھی یہاں کی اڑاتی ہوں اور کبھی وہاں کی۔ کچھ دیر میں دماغ ٹھکانے آتا ہے اور لکھنے کا باضابطہ سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اصل میں آج ہوا یوں کہ لکھنا تو کچھ اور تھا لیکن کچھ ایسے واقعات ہو گئے کہ سب دھرے کا دھرا رہ گیا۔
بات لگتی تو بہت دقیانوسی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج کے زمانے میں پیدا ہونے والا ادب کسی کے کام کا نہیں۔ نہ ادیب کے کام کا نہ پڑھنے والے کے کام کا۔ کسی بھی کہانی میں وہ لوچ  اور باریکی نہیں ہوتی کہ سدا یاد رہے۔ اب پرانے ادب کی ہی مثال لیجیے۔ اگر ادب تہذیب کا آئینہ ہے تو شاید ہم قدیم تہذیب کے بارے میں کچھ زیادہ جانتے ہیں۔
مخمل کے لحاف، سروتے سے کٹنے والی چھالیہ، اپنے نوجوان نوکروں کے عشق میں گرفتار نواب، اپنی جوانی سسرال کی خوشنودی اور میاں کی بے رخی پر داغ دینے والی بیگم نواب، اپنی گھنگریالی وگ کو انگلی سے مزید گھنگھریالا بنانے والی کمسن ہیروئن۔۔۔ ابھی بھی سب یوں لگتا ہے کہ جیسے آنکھوں کے سامنے بیتا ہو۔
ایک کردار اور بھی ہوا کرتا تھا۔ ہیروئن کی ممی جن کے ہاتھ میں اس بے بی ڈال کی ڈور تھی۔ بے بی کس سے بات کرے گی، کتنے بجے پیک آپ کر دے گی، فلم میں اس کے کتنے گانے ہوں گے، اور سب سے بڑھ کر فیس کیا ہو گی یہ سب فیصلہ ریشم کی ساڑھی پہنے بجلی کی سی تیزی سے چلتی ممی کرتی تھی۔ جیسا کہ سب جنگ معیشت کی ہوتی ہے، اس جنگ کی سپہ سالار بھی ممی ہی تھی۔ سب روپیہ ٹکا اسی کی جیب میں جاتا تھا۔ اس لیے یہ بات اہم تھی کہ بے بی عشق و عاشقی کے چکر میں پڑ کر اپنا کیرئیر نہ برباد کر لے۔ ابھی تو ممی نے جوہو میں بنگلہ بھی نہیں خریدا تھا۔ بے بی پتہ نہیں ممی کی حقیقی بیٹی تھی یا نہیں لیکن ان کے اشاروں ہر پتلی کی طرح تھرکتی تھی۔ 
فلم پروڈیوسر کا بس نہیں چلتا تھا کہ ممی کو چاند پر پھینک آئے لیکن ممی اختیار کا وہ تاج محل تھی جو آج بھی تمام عذابوں اور فسادوں کے باعث اپنی آب و تاب سے کھڑا ہے۔ اگر یونٹ کو آوٹ ڈور شوٹنگ کے لیے جانا پڑتا تو ممی کی ٹکٹ سب سے پہلے خریدی جاتی۔ پیسے کی کل مختار ممی ہی تھی۔
ایسے بہت سے حقیقی قصے بھی سنے کہ جس میں ماں باپ کو اپنی کماتی اولاد سونے کی چڑیا لگتی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ اسے قید کر کے بس اس کے انڈے لوٹے جائیں۔ اولاد اپنی زندگی ان خواہشوں ہر قربان کر بیٹھی۔ لیکن وہ کیا ہے کہ جہاں پیسہ آ جائے وہاں کوئی رشتہ قائم نہیں رہ پاتا۔ مدھو بالا کی کہانی سنی۔ مینا کماری کی کہانی سنی۔

جہاں پیسہ آ جائے وہاں کوئی رشتہ قائم نہیں رہ پاتا۔ مدھو بالا کی کہانی سنی۔ فوٹو: یو ٹیوب

ہمیں تو شروع سے اسی ماں کا پتہ تھا جو تمام دن ہماری راہ تکتی تھی کہ گھر آئیں اور وہ ہمارے سامنے گرم روٹی دھرے۔ ہمارے ناز نخرے اٹھائے۔ باپ جو دن رات ایک کر کے ہماری فیس پوری کرنے کا سدباب کرے۔ ہمیں نئی فراک دلائے جسے پہن کر ہم خود کو آسمان کی پری سمجھنے لگیں۔ لیکن ہر پیلا بال پین پیانو نہیں ہوتا۔ سب ماں باپ ایک سے نہیں ہوتے۔
ابھی کل ہی ایک دوست سے بات ہوئی جو کئی گھنٹوں سے ہسپتال میں تھیں۔ ہم نے خیریت پوچھی تو بولیں کہ ان کے صفائی کا کام کرنے والی 22 سالہ کم عمر لڑکی بے ہوش ہو گئی تھی۔ ہر قسم کے ٹیسٹ  کرائے کہ خدانخواستہ کوئی بڑی بات نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ بس تھکاوٹ اور اسٹریس کی وجہ سے ڈھے گئی۔
'آج کل کی لڑکیاں ڈھنگ سے کھاتی پیتی بھی تو نہیں ہیں۔'
ہماری سہیلی فوراً ہمیں کاٹ کر بولیں، ’نہیں ایسا نہیں ہے۔ پانچ گھروں میں صبح سے شام کام کرتی ہے اور پھر اپنا گھر بھی سمیٹتی ہے۔ انسانی جسم ہے۔ کتنی تھکاوٹ سہہ پائے۔‘

ممی اختیار کا وہ تاج محل تھی جو آج بھی تمام عذابوں اور فسادوں کے باعث اپنی آب و تاب سے کھڑا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

'ایک تو پیسے کا لالچ بھی انسان کو کھائے جا رہا ہے۔'
'ارے، اس غریب کی جیب میں تو ایک روپیہ بھی نہیں جاتا۔'
بس اس کے بعد ہم دونوں میں ایک لمبی خاموشی رہی۔
آپ کو وہ گول مٹول گل گوتھنا سا بچہ احمد شاہ یاد یے نا؟ ہمیں وہ وقت بھی یاد ہے جب وہ بچہ کئی گھنٹوں کی شفٹ کے بعد اس قدر نڈھال ہو جاتا تھا کہ گھر جانے کی ضد کرتا تھا۔ مانا کہ بہت بڑا سٹار بن گیا تھا لیکن یہ سب اس بچے کے کس کام کا تھا۔ اس کی جیب میں کیا جاتا تھا؟
جانتے ہیں کہ اس کالم کے بعد ہمیں بہت سنائی جائے گی۔ ہم پر مشرقی روایات سے باغی اور مغرب کے دلدادہ ہونے کا الزام لگایا جائے گا کہ ہم نے ماں باپ کی عظمت پر حرف ڈال دیا۔ کہ اولاد کا تو فرض ہے کہ ماں باپ جو بھی کر لیں وہ اف تک نہ کرے۔ بس اپنا خون بہاتی رہے۔
ہمیں اولاد کے فرائض پر بھاشن دینے والے والدین کے فرائض پر بھی ذرا نظر ثانی کریں۔ اگر اپنی اولاد کو اے ٹی ایم مشین سمجھ کر اس کے خوابوں کا قتل آپ کو جائز لگتا ہے تو آپ والدین کہلانے کے مستحق نہیں۔ اگر ایسے ظلم پر اف کی سسکاری نکالنا مشرقی روایات سے بغاوت ہیں تو ہاں ہم باغی ہیں۔

شیئر: