Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں خواتین کی تحریکیں

پاکستان میں رواں ماہ آٹھ مارچ کو ہونے والا ’عورت مارچ‘ اس عنوان سے ہونے والا تیسرا سالانہ مارچ ہے جس کی حمایت اور مخالفت کی بحث نے ملک بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے تاہم ’عورت مارچ‘ پاکستانی خواتین کی اپنے حقوق کی جدوجہد کا نکتہ آغاز نہیں۔
گو کہ ’عورت مارچ ‘ خواتین کی جدوجہد کی نئی اور زیادہ مشہور شکل ہے، لیکن اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان میں خواتین کی سیاسی و سماجی جدوجہد عورت مارچ سے بہت پہلے بلکہ قیام پاکستان سے بھی قبل مختلف صورتوں میں جاری ہے۔

قیام پاکستان میں خواتین کی سیاسی جدوجہد

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی وکیل رہنما بے نظیر جتوئی نے کہا کہ قیام پاکستان کی بڑی سیاسی تحریک کو صرف مردوں سے منسلک کرنا ایک غلطی ہوگی کیونکہ اس میں بڑی تعداد میں خواتین بھی شریک ہوئیں۔
پاکستان بننے کے بعد انہیں خواتین نے مختلف تنظمیں بنائیں جن کے ذریعے اپنی قائدانہ صلاحتیوں کا مظاہرہ کیا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد 1949میں ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی اہلیہ بیگم رعنا لیاقت نے آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی تاکہ خواتین کو معاشی، سماجی اور سیاسی سطح پر آگے بڑھنے کا موقع مل سکے۔
سنہ 1990 میں اپنی وفات تک بیگم رعنا لیاقت پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم رہیں۔
فاطمہ جناح کی انتخابی تحریک
پاکستان کی خواتین اور ملک کی سیاسی تاریخ کے لیے ایک بہت اہم واقعہ 1960 کی دہائی میں مادر ملت فاطمہ جناح کی جانب سے فوجی حکمران ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑنا تھا۔

فاطمہ جناح نے ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑا تھا۔ فوٹو: فیس بک

ایسے وقت میں جب سیاست میں خواتین کی شرکت کو حیرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، صدارتی انتخاب لڑنا ایک مشکل فیصلہ تھا۔ گو کہ بلآخر ایوب خان انتخابی معرکے میں فاتح ٹھہرے مگر فاطمہ جناح کی انتخابی مہم نے پاکستانی عوام اور خاص طور پر خواتین کو سیاسی طور پر بیدار کر دیا۔
اسی کے نتیجے میں 1970 کی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے تو خواتین کے لیے ناصرف ملازمتوں کے دروازے کھل گئے بلکہ سیاست میں بھی ان کی شمولیت یقینی بنائی گئی، اور قومی اسمبلی میں 10 فیصد اور صوبائی اسمبلیوں میں 5 فیصد سیٹیں خواتین کے لیے مختص کر دی گئیں۔

مارشل لا قوانین کےخلاف خواتین کی جدوجہد

پاکستان کی خواتین کی جدوجہد میں اہم موڑ 1980 کی دہائی میں فوجی حکمران ضیا الحق کے دور میں آیا جب حدود آرڈنینس کی چند متنازع شقوں کے خلاف خواتین کی تحریک چلی اور خواتین نے ریاستی تشدد کے باوجود تحریک جاری رکھی۔ 1981 میں ویمن ایکشن فورم کے ذریعے پاکستان کی ان خواتین کی آواز کو آگے لانے کی جد و جہد کا آغاز ہوا جو خود اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کر سکتی تھیں۔

 بیگم رعنا لیاقت نے آل پاکستان ویمن ایسوسی کی بنیاد رکھی تھی۔ فوٹو فیس بک

12 فروری 1983 کو  ویمن ایکشن فورم اور پاکستان ویمن لائرز ایسوسی ایشن نے ضیا الحق حکومت کی جانب سے جاری قانون شہادت کے خلاف مشترکہ طور پر لاہور میں احتجاج کی کال دی۔ مارشل لا دور میں ریلیوں پر پابندی عائد تھی اور شہر میں دفعہ 144 نافذ تھا تاہم ان دونوں تنظیموں نے پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے استعمال کے باوجود مظاہرہ کیا اور لاہور ہائی کورٹ پہنچیں جہاں معروف مزاحمتی شاعر حبیب جالب نے اپنی نظم بھی سنائی۔  یہ مارشل لا کے خلاف پہلا عوامی مظاہرہ تھا اور پاکستان کی تاریخ میں یہ دن اہم حیثیت اختیار کر گیا۔
اب ہر سال پاکستان میں 12 فروری خواتین کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا دور

جب نومبر 1988 کو بے نظیر بھٹو پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی وزیراعظم بنیں تو پاکستانی خواتین کے لیے امیدیں روشن ہو گئیں۔ ناصرف خواتین وزیراعظم کے حلقہ مشاورت میں شامل ہوئیں بلکہ بے نظیر بھٹو کے ادوار میں خواتین کے لیے پولیس سٹیشن بنائے گئے اور فرسٹ ویمن بینک کا قیام عمل میں آیا۔ ان کے دور میں خاتون وکلا کو ہائی کورٹ کا جج بنائے جانے کی منظوری ملی۔ اسی طرح ملک کے طول و عرض میں لیڈی ہیلتھ ورکرز مقرر کی گئیں تاکہ خواتین کے صحت کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔

بے نظیر بھٹو کے دور میں خواتین کے لیے پولیس سٹیشن بنائے گئے۔ فوٹو 

سیاسی کوٹہ اور ویمن پروٹیکشن بل

1999 میں جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے قیام کے بعد خواتین کے حوالے سے چند مثبت اقدامات دیکھنے میں آئے۔ جن میں خواتین کے لیے پارلیمنٹ میں سترہ فیصد کوٹہ مختص کرنا، غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون اور ویمن پروٹیکشن بل کے زریعے حدود آرڈنینس کی چند شقوں کا خاتمہ ان اقدامات میں شامل تھے۔ مشرف کے بعد کی حکومتوں نے بھی خواتین کے حوالے سے چند اہم اقدامات کیے جن میں خواتین کی ملازمت کے دوران ہراسیت کے خلاف اور گھریلو تشدد کے خلاف قوانین کی منظوری شامل ہیں۔

جدید عورت مارچ کا دور

8 مارچ 2018 کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں پہلی بار عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ عورت مارچ خواتین کے حقوق کی جدوجہد کا ایک نیا موڑ تھا جب نوجوان خواتین کی بڑی تعداد اپنے حقوق کے لیے پلے کارڈز اور بینرز لے کر ملک کے بڑے شہروں میں نکلیں۔ خواتین کے ہاتھوں میں موجود بینرز ان کے متعدد مسائل جیسے ہراسیت، صنفی امتیاز اور معاشرتی رویوں کی عکاسی کر رہے تھے۔ ان پر درج نعرے جارحانہ تھے تاہم وہ میڈیا اور عوام کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ سوشل میڈیا پر شروع ہونے والی بحث گھر گھر میں چھڑ گئی۔ اگلے سال 2019 میں مارچ نے مزید توجہ حاصل کی اور اس سال کا مارچ انعقاد سے قبل ہی سب کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔

1981 میں ویمن ایکشن فورم کے ذریعے خواتین کے حقوق کی جد و جہد کا آغاز ہوا۔ فوٹو ٹوئٹر

عورت مارچ کی ایک منتظم بے نظیر جتوئی کے مطابق عورت مارچ کے ذریعے خواتین کے سیاسی مسائل کے بجائے سماجی مسائل منظر عام پر لائے جا رہے ہیں۔
’یہ کہنا غلط  ہے کہ عورت مارچ غیر ملکی ایجنڈے کو لے کر آ رہا ہے۔ عورت مارچ نے پاکستان میں کلچر کو تبدیل کیا ہے اور اب خواتین کے مسائل کے حوالے سے مرد زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔‘
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکن طاہر عبداللہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں سات دہائیوں سے خواتین اپنے حقوق کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ جنگ آزادی میں بھی خواتین نے شانہ بشانہ حصہ لیا۔
عورت مارچ کی نئی شکل پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے طاہرہ عبداللہ نے کہا کہ نئی نسل کے مسائل مختلف ہیں اور نعرے بھی مختلف ہیں۔ پچھلے چالیس سال سے خواتین پورے پاکستان کے شہروں میں آٹھ مارچ کو جلسے جلوس اور مارچ کرتی چلی آ رہی ہیں۔ 2018 سے عورت مارچ زیادہ جوش اور جذبے سے منعقد ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عورت مارچ کا باقاعدہ چارٹر آف ڈیمانڈ موجود ہے۔
اس حوالے سے بحث اور تنازعات پر ان کا کہنا تھا کہ صرف کچھ مرد عورت مارچ کو متنازع بنا رہے ہیں کیوں؟
بحث تو اچھی بات ہے لیکن گالی گلوچ نہیں۔ مردوں کو عورت سے اتنی زیادہ نفرت کیوں؟ عورت تو مردوں کو جنم دیتی ہے۔ مرد عورت کو کنٹرول کیوں کرنا چاہتا ہے؟‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: